لڑکیوں کو نہیں، سائبر کرائم کو روکنے کی ضرورت ہے

لڑکیوں کو نہیں، سائبر کرائم کو روکنے کی ضرورت ہے
تحریر: جیوتی
انیتا (نام بدلا ہوا) دارالحکومت دہلی کے اتم نگر علاقے کی ایک 20 سالہ لڑکی ہے، جو اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کافی سرگرم رہتی ہے۔ وہ تصاویر اور ویڈیوز بنانا اور انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا پسند کرتی ہے۔ ایک دن جب وہ اپنے فون پر انسٹاگرام استعمال کر رہی تھی تو ایک نامعلوم شخص کا پیغام آیا۔ وہ شخص اس سے دوستی کرنے پر اصرار کرتا ہے، لیکن انیتا نے صاف انکار کر دیا اور اسے بلاک کر دیا۔ کچھ دنوں کے بعد اسے اپنے دوستوں سے پتہ چلتا ہے کہ انیتا کے نام سے ایک اور اکاؤنٹ بنا ہوا ہے جس پر اس کی تصویر لگائی گئی ہے اور فحش الفاظ کے ساتھ اس کا موبائل نمبر بھی بائیو میں لکھا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر انیتا بہت ڈر گئی۔ وہ ڈر کے مارے کسی کو نہیں بتاتی۔ اس واقعے کے بعد وہ مسلسل خوف محسوس کرنے لگی۔انیتا نوعمروں کو بااختیار بنانے سے متعلق ایک تنظیم ’پروتساہن انڈیا فاؤنڈیشن‘میں پڑھنے آتی ہے۔ جہاں اس کی ٹیچر اسے کچھ پریشان پاتی ہے۔ کلاس ختم ہونے کے بعد جب اس ٹیچر نے اس سے اکیلے میں بات کی تو اس نے انہیں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا۔ انیتا کی ٹیچر نے اسے سائبر سیل یا آن لائن شکایت کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن اس نے یہ کہتے ہوئے شکایت درج کرانے سے انکار کردیا کہ ”اگر میرے والدین کو پتہ چلا تو وہ مجھے بہت ماریں گے۔“ تاہم تنظیم کی مدد سے سائبر سیل میں شکایت درج کرائی گئی۔ سائبر سیل کے فعال ہونے سے انیتا کے نام سے بنایا گیا جعلی اکاؤنٹ بند کر دیا گیا۔ یہ صرف انیتا کا پہلا کیس نہیں ہے بلکہ اس جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں، جن کے نام سے سوشل میڈیا پر جعلی اور فحش اکاؤنٹس بنائے گئے ہیں۔ ایک طرف انہیں اس طرح کی ہراسانی اور آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف ان کے اپنے گھر والے بھی ان پر یقین نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ سے، بہت سی نوعمر لڑکیاں نہ تو اپنے ساتھ ہونے والے اس طرح کے آن لائن واقعات کی اطلاع پولیس کو دینے کی ہمت پیدا کر پاتی ہیں اور نہ ہی وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ ان کا اشتراک کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس سلسلے میں پروتساہن انڈیا فاؤنڈیشن کی کونسلر سونی کماری کا کہنا ہے کہ ”جب تک نوعمر لڑکیوں کے والدین ان پر بھروسہ نہیں کریں گے، اس قسم کے سائبر کرائم کے کیسز میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس کے لیے لڑکیوں کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کی بھی کاؤنسلنگ اہم ہیں۔“ انہیں کاؤنسلنگ کے ذریعے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سونی کا کہنا ہے کہ حقیقی دنیا میں جس تیزی سے ڈیجیٹلائزیشن ہو رہی ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ موجودہ دور میں ہمارے پاس دو طرح کی دنیا بن گئی ہے۔ جس میں ایک آن لائن اور دوسرا آف لائن ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں نوعمر لڑکیوں کے لیے کتنا محفوظ ہے؟اگر ہم آف لائن دنیا کی بات کریں تو اکثر لڑکیوں کو بس یا میٹرو وغیرہ میں جسمانی طور پر فحش تبصروں، چھیڑ چھاڑ یا دیگر قسم کے جنسی استحصال کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن آن لائن ایک نئی دنیا ہے، جو ہمیں محفوظ معلوم ہوتی ہے۔ لڑکیاں محسوس کرتی ہیں کہ وہ یہاں آزادی سے رہ سکتی ہیں۔ انہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں کوئی انہیں تنگ نہیں کرے گا۔ لیکن اگر یہاں بھی دیکھا جائے تو انہیں چھیڑ چھاڑ، غلط تبصروں اور خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسے سائبر کرائم کہا جاتا ہے۔سائبر کرائم کا مطلب کمپیوٹر، نیٹ ورک یا انٹرنیٹ کے ذریعے کسی کے ساتھ زیادتی یا نقصان پہنچانا ہے۔ حالیہ دنوں میں سائبر کرائم کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے خلاف سائبر جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جتنی تیزی سے نوجوانوں میں سوشل میڈیا کا جنون بڑھ رہا ہے، ان کے خلاف ہونے والے سائبر کرائمز کے اعداد و شمار بھی اسی رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 کے مقابلے 2022 میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے خلاف سائبر جرائم میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جہاں سال 2021 میں سائبر کرائم کے 52,974 کیسز ہوئے وہیں 2022 میں یہ تعداد بڑھ کر 65,893 ہو گئی۔ صرف اسی میں جنسی استحصال کے 3648 کیس درج ہوئے۔ صرف قومی راجدھانی دہلی میں 2021 میں 345 کے مقابلے 2022 میں سائبر کرائم کے 685 معاملے درج ہوئے۔ جبکہ 2020 میں صرف 166 مقدمات درج ہوئے۔
اس حوالے سے دہلی گرلز سکول، شاہدرہ میں سوشل سائنسز کی سینئر ٹیچر یاسمین خان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ہماری زندگیاں ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہیں، دھمکیوں کی نوعیت نہ صرف بدلی ہے بلکہ دھمکیاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اس کے ذریعے سائبر مجرموں کے لیے ذاتی اور مالی معلومات کی نجی نوعیت کو نقصان پہنچانے کے نئے اور منفرد مواقع بھی پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا خطرہ نوعمر لڑکیوں کے لیے بڑھ رہا ہے۔ جیسے جیسے لڑکیوں میں انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا کا جنون بڑھتا جا رہا ہے، انہیں اسے بہت احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کے استعمال کا حق لڑکیوں کا بھی ہے۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتی ہیں۔ لیکن اس کا استعمال کرتے وقت انہیں محتاط اور بے خوف ہونا چاہیے۔یاسمین خان لڑکیوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت کسی نامعلوم نمبر یا شخص سے بات نہ کریں، چاہے وہ کسی خاتون یا لڑکی کی ہی پروفائل کیوں نہ ہو، اگر آپ اس شخص کو نہیں جانتی ہیں تو اس سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بے خوفی اس لیے ضروری ہے کہ اگر کوئی آپ کو ہراساں کر رہا ہے تو ڈرنے کے بجائے آپ بے خوف ہو کر اپنے گھر والوں کو اس بارے میں بتائیں اور سائبر سیل میں شکایت درج کرائیں تاکہ ایسے مجرموں کو بروقت انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ اگرچہ ڈیجیٹل دنیا ایک لامحدود ویب ہے، لیکن کئی بار لڑکی کے جاننے والے جھوٹی آئی ڈی بنا کر اسے بدنام کرنے یا بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سائبر سیل کی مدد سے ایسے مجرموں کو آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈیجیٹل دنیا سے لڑکیوں کو نہیں بلکہ ان کے خلاف سائبر جرائم کو روکنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم لڑکیوں کے لیے بھی ایک محفوظ ڈیجیٹل دنیا تشکیل دے سکیں۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2023 کے تحت لکھا گیا ہے۔
(چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.