افسانہ چہ ۔۔۔۔۔۔ بیٹی

 افسانہ چہ ۔۔۔۔۔۔ بیٹی
 ناصر منصور بٹ
وزیر شاہ برسوں سے اس طلب کا محتاج بنا ہوا  تھا کہ اُس کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہو گر چہ اللہ تعالی نے تین بیٹوں سے نوازہ تھا ۔ وزیر شاہ ہر زچگی کے موقع پر اس امید میں رہتا کہ شاید اس بار میرا رب مجھے بیٹی سے نوازے۔۔۔۔ بظاہر ہر بار شکست ہوتی مایوسی کی دنیا میں چلا جاتا تو وہی جلد امید بر آتی ۔ کئی سالوں کے بعد مسلسل کی ڈوری کٹ جانے نے کے بعد آخر وہ دن آہی گئی جب وزیر شاہ ملازمت پر گئے ہوے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے خوش خبری دی گئی کہ اس بار آپ کی بیوی نے ایک لڑکی کو جنا ہے وزیر شاہ لڑکی کا نام سن کر ششدر کہ اللہ تعالی کا واقعی کرم مجھ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ خوشی کے مارے اچھل پڑا آفس میں اشاعتِ خوشی مٹھائیاں بانٹ بانٹ کر اظہار خوشی ۔ مباک بادیاں لے لے کر خوشی پر خوشی آخر آفس سے چھٹی ……..لے کر آٹو رکشا میں سوار ہو کر ہسپیٹل کی طرف روا دواں دل میں بیٹی کی خوشی لئے ہوئے تھے تو دوسری اور اللہ تعالی سے دست دعا ۔ اے اللہ اسے دنیا میں میری آنکھو کی ٹھنڑک بنا دینا اور آخرت میں نجات کا ذریہ ۔
وزیر شاہ ہسپیٹل کے زچگی کے وارڑ میں داخل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں ہی دور سے بیٹی پر نظر پڑی جیسے آسمان کی اور ریکھ کر چاند رات میں چمکتا ہوا ستارہ دیکھا ۔ قریب تر دیکھنے پر اتنی قربت ہوئی کہ گویا چاند رات کا چاند ہی اتر آیا ہو ۔ وزیر شاہ کا خوش گوار چھرا دل خوشی سے حشاش بشاش جیسے کل کائنات میں یہی ایک خوشی ملی ہوں بیٹی کی طرف دیکھا تو دیکھتے ہی رہے من ہی من ڑوب کر زبان حال اے میری نورے نظر تو میری تمنا تھی تو میری چاحت تو میری آفتاب و مہتاب کے القاب……. مزکورہ چند تعریفی کلمات کو سمیٹ کر اسم ماریہ میں پیوست کردیا ۔ پکار اٹھے آج کے بعد میری لخت جگر کا نام نامی ماریہ بیٹی  ۔۔۔۔۔۔۔۔  باپ نے نازوں سے پالا کہ بڑی ہوکر باپ کا نام روشن کریں.لاج رکھی بیٹی نے بھی تعلیم ارتقا کے ساتھ ساتھ دین و ادت میں بھی مصروف عمل ہوئی ۔ علم و عمل میں بڑوں بڑوں کو پیچھے چھوڑ چلی  ۔۔۔۔ وزیر شاہ نے بیٹی کی آنکھوں میں ذہانت کی چمک علمیت کی دمک گفتگو میں انہماک کی استعداد کو دیکھ کر ششدر۔ بیٹوں اور بیٹی کے مابین بیٹی میں بیٹوں سے زیادہ عظمت دکھائی دینے لگی۔ وزیر شاہ کی توجہ سرتاسر ہونہار ماریہ کی اور جیسے کل کائنات میں بس ماریہ ہی نظر آتی ہوں ۔ وزیر شاہ کی بیٹی ماریہ باب کی پیشوایی شادمانی نرالی دلاری بن چکی تھے ۔۔۔۔ لیکن کیا کریں دستور دنیا کچھ اور ہی ہے ۔
وزیر شاہ اس چیز سے غافل رہے کہ وہ بیٹی ماریہ کو ایک دن الودع کرنے والے ہے باپ بیٹی کے مابین اتنی شیفتگی تھی کہ جدائی کا خیال دور دور تک پوشیدہ تھی ۔ ہوتی بھی کیوں نہ ۔ حکمت و دانائی کو دیکھ کر باپ نے جو حکومت حوالے کی تھی ۔
وزیر شاہ اُس دن خون کے آنسوں روے جب اسے معلوم ہوا اُس سے اِس کی دولت کو چھین کر پرائے لے جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.