کفرانِ نعمت (افسانہ)

کفرانِ نعمت (افسانہ)
فاضل شفیع بٹ
”   آپ بے اولاد ہی ہو قاسم۔ میں مانتا ہوں کہ آپ کی ایک بیٹی ہے لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بڑھاپے میں آپ کا سہارا کون بنے گا؟ بیٹی پر ائے گھر کی زینت  ہوتی ہے۔ ایک دن آپ کی بیٹی کو آپ کا گھر چھوڑ کے جانا ہوگا۔ یہ اس دنیا کی ریت ہے جو برسوں سے چلی آرہی ہے۔ میری بات مان لو، میرے پیر بابا کے دربار میں ایک بار حاضری لگاؤ۔ پھر دیکھنا اگر جلد ہی آپ نے ایک بیٹے کو اپنی گودمیں نہ دیکھا تو میرا نام بدل دینا” عرفان شام کے وقت اپنی دکان پر قاسم سے گفتگو کرنے میں محو تھا۔
” دیکھ عرفان، میری شادی کو آٹھ سال ہوئے ہیں۔ اللہ نے مجھے ایک پیاری بیٹی سے نوازا ہے۔ بہت علاج و معالجہ کرنے کے بعد شاید اب دوسری اولاد کی نعمت ہمارے نصیب میں ہی نہیں ہے۔پچھلے چار سال سے مسلسل ایک پیر بابا کے دربار سے وابستہ رہا ہوں۔ ہزاروں میں نذرانہ بھی ادا کر چکا ہوں، لیکن سب بے سود۔ میں نے اللہ کی مرضی کے آگے اپنا سرِ تسلیم خم کیا ہے۔ میں اب کہیں نہیں جاؤں گا” قاسم کا انکار واضح تھا۔
” قاسم صرف ایک بار مجھ پر بھروسہ کر لے۔ آج رات میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر چلوں گا۔  آج ہماری محفل ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اس محفل کا حصہ بن جاؤ۔” عرفان قاسم کو اپنے ہمراہ محفل میں لے جانے کی ضدپر اڑا رہا  اور مجبوری میں قاسم نے بھی ہامی بھر لی۔
 رات کافی گہری ہو چکی تھی۔ ہر سمت اندھیرا پھیل چکا تھا۔ گیارہ بجے قاسم کے گھر کے سامنے ایک گاڑی کھڑی ہو گئی۔ گاڑی میں عرفان اور اس کے دو ساتھی تھے۔ قاسم گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی نے رفتار پکڑ لی اور تیزی کے ساتھ اپنے سفر کی طرف روانہ ہو گئی۔ چند میل کا فاصلہ طے کر کے  مزید دو گاڑیاں اس سفر کا حصہ بن گئیں۔ تینوں گاڑیوں کے ساتھ پیر بابا کی گاڑی بھی تھی۔ گویا پیر بابا فل پروٹوکول کے ساتھ اپنے مرید حمید کے گھر کی طرف رواں دواں تھا۔
 حمید کے گھر پر کافی چہل پہل تھی۔ گھر میں بہت سارے مہمان تھے۔ مہمانوں میں گھر کے داماد اور بیٹیاں شامل تھیں اور کچھ آس پڑوس کے لوگ بھی پیر بابا کے دیدار کے لیے وارد ہوئے تھے۔ پکوانوں کی تازہ خوشبو سے سارا گھر مہک رہا تھا۔ گھر کے بچے کافی خوش نظر آرہے تھے۔
 حمید کا چہرہ کافی سنجیدہ تھا۔ اس کے چہرے پر غریبی اور مفلسی کے آثار صاف صاف جھلک رہے تھے۔
 پیر بابا کے ہمراہ بارہ لوگ تھے۔ ان کو ایک کشادہ کمرے میں بٹھایا گیا۔ کمرے میں نئے نئے خوبصورت قالین بچھے ہوئے تھے۔ گھر کی حالت دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ شاید حمید نے ان قالینوں کو آج رات کے لیے کہیں سے کرایہ پر لایا ہے۔ پیر بابا نے ایک ملائم گدّے پر بیٹھتے ہی سب لوگوں کو اس کمرے میں بلا لیا۔ کمرے میں بوڑھے ،بچے ،مرد و زن ایک اچھی تعداد میں جمع ہوئے۔
اچانک پیر بابا نے زور سے’ اللہٗ ھو” کا نعرہ مارا۔ کمرے میں ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ تھوڑے وقفے کے بعد پیر بابا کا ایک کارندہ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے فون پہ صوفیانہ موسیقی اور گیت چلائے۔ پیر بابا نے جیب سے ایک پوٹلی نکالی اور دوسرے چیلے کو اشارہ کیا, جس نے چلم میں تمباکو کے ساتھ پوٹلی میں سے بھی کچھ بھر دیا اور حقہ پیر صاحب کے حوالے کیا۔ کچھ اور چیلوں نے بھی سگریٹ سلگائے۔ پیر بابا بھی لمبے لمبے کش مارنے لگا۔ کمرے کا ماحول آہستہ آہستہ بدلنے لگا۔ پیر بابا اور اس کے کارندے اپنے سروں کو زور زور سے موسیقی کی تھاپوں پر ہلانے لگے۔ ایک دو چیلے با ضابطہ اپنے سر  پٹک رہے تھے۔
 پیر بابا لوگوں کے چہرے دیکھ کر ان کے ماضی کرید رہا تھا۔ قاسم یہ سب دیکھ کر حیران تھا۔ پیر بابا نے قاسم کو اپنے قریب بلایا اور کہا:
” بیٹے قاسم تیرا گھر جادو کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس لیے تو آج تک بے اولاد ہے۔ میں مانتا ہوں کہ تیری ایک بیٹی ہے لیکن بیٹی آج تک ایک بیٹے کی برابری نہ کر سکی ہے۔ آپ کی بیٹی کو ایک دن پر ائے گھر جانا ہے۔ لیکن پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایک خوبصورت بیٹے کو تیری گود میں دیکھ رہا ہوں۔ یہ مٹھائی رکھ لو۔ تعداد میں نو مٹھائی کے ٹکڑے آپ کو دے رہا ہوں۔ اپنی بیوی سے کہنا کہ ہر دن سوتے وقت ایک مٹھائی کا ٹکڑا کھا لےگی ۔ یہ عمل مسلسل نو دنوں تک جاری رکھنا ہے اور یہ تھوڑی بہت پاک مٹی ہے۔ اس کو پانی میں ملا کر اکتالیس روز تک آپ کی بیوی کو پینا ہے۔ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا”
 قاسم نے پیر بابا کا تبرک بڑے احتیاط سے جیب میں رکھا۔ رات کے دو بج چکے تھے۔ عرفان نے پیر بابا سے اپنے گھر جانے کا اصرار کیا۔ عرفان قاسم کو لے کر حمید کے گھر سے رخصت ہوا۔
 سناٹے اور تاریک راستوں سے گاڑی برق رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔ تقریباً رات کے ڈھائی بجے قاسم اپنے گھر پہنچ گیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی قاسم دم بخود رہ گیا۔ گھر کا ماحول آب دیدہ تھا۔ قاسم کی ننھی سی گڑھیا کی آنکھوں میں آنسوں کے قطرے ستاروں کی مانند جھلملا رہے تھے۔ وہ ابھی تک سوئی نہ تھی۔ وہ اپنے بابا کی منتظر تھی۔ بابا کے آتے ہی ننھی سی گڑھیا خدیجہ بابا سے لپٹ گئی  اور پرنم آنکھوں سے کہنے لگی:
” بابا بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں تھے آپ؟  مما بول رہی تھی کہ آپ کسی پیر بابا کے پاس بیٹا لانے گئے تھے۔ کیا آپ کو مجھ سے پیار نہیں ہے؟  بابا میں آپ کا بیٹا بھی ہوں۔ مجھے اس گھر میں ہی رہنا ہے۔ مجھے بھائی نہیں چاہیے۔ اگر اس گھر میں بھائی آیا تو پھر آپ مجھ سے پیار نہیں کریں گے۔ بابا۔۔۔۔ میں آپ کا ہر حکم ماننے کو تیار ہوں۔ میں آج سے موبائل فون بھی ہاتھ میں نہیں لوں گی۔ مجھے آپ اور مما سے بے حد پیار ہے۔ خدیجہ کی آواز میں رقت تھی۔” یہ بولتے بولتے خدیجہ کی آنکھ لگ چکی تھی۔ وہ اپنے بابا کی گود میں ہی سو گئی۔
 "تو کیا کہا پیر بابا نے”  قاسم کی بیوی نے پر جوش انداز میں قاسم سے مخاطب ہو کر کہا۔
” یہ لو مٹھائی۔یہ ‘بچہ مٹھائی’ ہے۔ پیر بابا کا کہنا ہے کہ اس کو کھانے سے ہماری گود میں بہت جلد ایک خوبصورت بیٹا ہوگا  اور یہ مٹی ہے اس کو پانی میں ملا کر اکتالیس روز تک پینا ہوگا” قاسم کے لہجے میں طنز تھا۔
 قاسم کی بیگم نے پیر بابا کا تبرک استعمال کرنا شروع کیا۔ چونکہ رات کافی گزر چکی تھی، وہ دونوں بھی سو گئے۔
 صبح تڑکے ہی قاسم اپنی بیوی کے ہمراہ کچن میں ناشتہ کر رہا تھا اور میاں بیوی پیر بابا کے متعلق گفتگو کرنے میں محو تھے۔ خدیجہ کی باتوں نے قاسم کے دل و دماغ پر ایک گہرا تاثر قائم کیا تھا۔
 قاسم کو پیر بابا سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ وہ محض اپنی بیگم کا دل رکھنے کے لیے اس محفل کا حصہ بننے کے لیے مجبور تھا۔ قاسم سوچ رہا تھا کہ کس طرح ایک فرضی پیر بابا نے کل رات ایک نہایت ہی غریب اور مفلس حمید کے گھر پر عمدہ قسم کا پکوان نوش فرمایا تھا ,جس پکوان کو تیار کرنے میں حمید نے ہزاروں روپے صرف کیے ہوں گے اور رخصتی کے وقت کس طرح حمید نے بڑی عاجزی سے پیر بابا کے ہاتھ میں پانچ ہزار روپے بطور نذرانہ تھما دیے تھے۔ ایسے پیر بابا دراصل دین کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنانے کا خوب ہنر رکھتے ہیں۔ بھلا ایک انسان جو خدا کے سامنے خود ایک محتاج کی حیثیت رکھتا ہے ،کیسے کسی کی حاجت روائی کر سکتا ہے۔۔؟
 قاسم گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک خدیجہ کی آواز نے قاسم کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ خدیجہ اپنے بابا کو بلا رہی تھی۔ قاسم اپنی گڑھیا کی آواز سنتے ہی کھڑا ہو گیا اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ سات سالہ خدیجہ کے ننھے سے ہاتھوں میں جھاڑو تھا اور وہ کمرے کی صفائی کرنے میں محو تھی۔ قاسم نے مزید دیکھا کہ خدیجہ نے کمرے سے کمبل وغیرہ ہٹا کر نہایت سلیقے سے الماری میں سجا کے رکھے ہیں۔ خدیجہ نے بڑے پیار سے بابا سے مخاطب ہو کر کہا:
” بابا بابا  دیکھو اب میں گھر کا سارا کام بھی کر لوں گی۔ میں آپ اور مما  کا اچھے ڈھنگ سے خیال بھی رکھوں گی۔ آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ اس گھر میں بیٹا نہیں لائیں گے اور نہ ہی کسی پیر بابا کے پاس جائیں گے۔ بابا اپنے چہرے کو میرے قریب لاؤ مجھے آپ کو چومنا ہے۔ مجھے بھائی نہیں چاہیے بابا”
 یہ سارا منظر دیکھ کر قاسم کی آنکھیں آب دیدہ ہو گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں کا سیلاب امڈ آیا۔ اس نے خدیجہ کو گلے سے لگایا اور زور زور سے رونے لگا۔ اب قاسم کی بیوی بھی کمرے میں نمودار ہوئی۔ دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے کو چوم رہے تھے۔ قاسم کو اپنی حرکت پر کافی پچھتاوا ہو رہا تھا کہ کس طرح ایک معمولی واقعے نے خدیجہ کے دل و دماغ پر کافی گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ قاسم نے خدیجہ کو گود میں لیا اور پرنم آنکھوں سے اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
” بیگم ہمیں تو اللہ نے بیٹی جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے اور اس کے باوجود ہم اپنے آپ کو بے اولاد تصور کر رہے ہیں۔ ذرا ان کی حالت دیکھو جو اولاد کے لیے ترس رہے ہیں اور اس عظیم نعمت کو پانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ دراصل ہم انسان کبھی کسی چیز سے مطمئن ہو ہی نہیں سکتے۔ ہمیں اللہ کی مرضی کے سامنے اپنا سر جھکانا چاہیے۔ خدیجہ کی باتوں نے میرے دل کو چھلنی کر دیا ہے۔ مجھے اپنی غلطی کا پورا احساس ہے۔ آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد کسی پیر بابا کی خدمت میں ہرگز نہ جاؤں گا۔”
 قاسم کی بیوی نے پیار سے خدیجہ کی پیٹھ کو تھپتھپایا اور پیر بابا کی مٹھائی اور مٹی کو کوڈے دان میں پھینکنے کے لیےدروازے سے باہر چلی گئی۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.