افسانہ——–منحوس چرخہ

افسانہ——–منحوس چرخہ
تحریر : فاضل شفیع بٹ
"زندگی کے آخری لمحات سے گذر رہا ہوں۔ میری زندگی کی ٹمٹماتی شمع پگھل رہی ہے  اور وہ دن دور نہیں جب یہ  شمع بجھ کر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ کیا پتا اگلے جہاں میں میری ملاقات ماسٹر حسین شاہ سے ہو جائے۔ میں کس منہ سے حسین شاہ کی طرف دیکھوں گا۔ مجھے اپنی غلطی کا پورا احساس ہے”  میجر واصف رندھاوا  اپنے آپ سے بیزار کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
 واصف رندھاوا  پیشے سے فوج میں ایک ڈاکٹر تھے اور میجر کے عہدے پر تعینات تھے۔پچیس  برس  پہلے  ان کا تبادلہ خوشحال پور میں ہوا تھا۔ خوشحال پور شہر کا سرحدی علاقہ بھی تھا, جس کی وجہ سے وہاں کافی تعداد میں فوج تعینات رہتی تھی۔ سرحد کی نگرانی کو مزید بہتر طریقے سے عمل میں لانے کے لیے  خوشحال پور میں ایک پولیس اسٹیشن کا بھی قیام کیا گیا تھا۔
 خوشحال پور کی عورتیں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں۔ ان کے سرخ گال، گلابی ہونٹ، قد و قامت ، گویا ان کی ہر ایک ادا دلکش اور دلفریب تھی۔ خوشحال پور کے کسی بھی مسئلے کو لے کر مکھیا رحیم نور کے صحن میں عدالت لگتی اور رحیم نور کا فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا تھا۔
 خوشحال پور کے لوگ بڑے امن و امان اور پر سکون طریقے سے زندگی بسر کر رہے تھے کہ  اچانک خوشحال پور کی پرسکون فضا ایک دم سے آلودہ ہو گئی۔  جس کی وجہ خوشحال پور کا نیا پولیس انسپیکٹر ولیم اکبر تھا۔   انسپیکٹر ولیم اکبر اپنی لمبی مونچھوں کو تاؤ دے کر جب بازار سے گشت کرنے گزرتا تھا تو پورے بازار میں ایک دم سے سناٹا چھا جاتا ۔ لوگوں کے چہروں پر دکھ کے سائے پھیل جاتے۔ اپنا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے  کے لیے انسپیکٹر ولیم اکبر معصوم لوگوں کی خوب پٹائی کرتا ۔ ولیم اکبر کی آمد کے ساتھ ہی خوشحال پور میں ظلم و جبر کے  ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ ایک ایسا دور جس نے خوشحال پور کے پرسکون ماحول کو دہشت کے دہکتے  انگاروں میں لپیٹ لیا تھا۔
 میجر رندھاوا  پولیس اسٹیشن میں مقید قیدیوں کا طبّی معائنہ کرنے کے لیے اکثر پولیس سٹیشن میں حاضری دینے آتا تھا  اور اسی اثناء میں اس کی  اور ولیم اکبر کی اچھی خاصی یاری ہو گئی۔ شراب اور عورت دونوں کی یکساں کمزوری تھی۔ دونوں شام کو ایک ساتھ بیٹھ کر شراب نوشی میں خاصا وقت صرف کرتے۔
 دن ختم ہوتے ہی جب سورج بلند درختوں کے پیچھے غروب ہو جاتا، آسمان پر نارنجی کرنیں ابھر جاتیں، شام اندھیری روشنی کے ساتھ اپنا ڈیرہ ڈالتا، انسپیکٹر ولیم اکبر اور میجر رندھاوا  پینے پلانے کا پروگرام شروع کرتے۔ اس دوران فقط ایک آواز جو ان دونوں کو بری طرح کھٹکتی تھی، وہ تھی موذن حسین شاہ کی دلفریب اذان۔ حسین شاہ خوشحال پور میں موذن کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ ایک سرکاری استاد بھی تھے۔ وہ جب بھی مسجد میں اذان دیتا تو درختوں پر چہکتے پرندوں پر سکوت طاری ہو جاتا، ہر کوئی فرد حسین شاہ کی دلکش اذان سنتے ہی مسجد کا رخ کرتا۔
 ایک شام میجررندھاوا  اور انسپیکٹر واصف شراب نوشی میں مصروف تھے۔ دونوں زور زور سے ہنس رہے تھے۔ میجر رندھاوا ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”  ولیم میری گل مان رحیم نور کو کل اپنی کوٹھی پر بلاتے ہیں۔ دیکھ شراب تو ہم روز پیتے ہیں۔ سوچ لے اگر شراب کے ساتھ ساتھ عورت کا مزہ بھی لیا جائے تو کیسا رہے گا۔ ویسے بھی خوشحال پور میں ایک سے بڑھ کر ایک پوپٹ رَن دستیاب ہے۔ تو ٹھہرا خوشحال پور کا انسپیکٹر۔ تو ڈرا دھمکا کر رحیم نور کو اس کام کے لیے تیار کر سکتا ہے۔ پھر دیکھ زندگی جنت سے کم نہ ہوگی”  میجر رندھاوا  کی آنکھوں میں ہوس کے تارے جھلملا رہے تھے۔
 اگلے دن آسمان پر بادل چھاۓ تھے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی جاری تھی۔ موسم کافی خوشگوار تھا۔ سورج آسمان سے غائب تھا۔ ہوا میں کافی خنکی تھی۔ شام نے جلد ہی خوشحال پور کی فضا کو اپنی آغوش میں لیا تھا۔ ہر طرف شام کا دھندلکا پھیلا تھا۔ رندھاوا  اور انسپیکٹر ڈاک بنگلے میں رحیم نور کے منتظر تھے۔ ان کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ رحیم نور  گرم اور نیا  لباس زیب تن کیے ان کے سامنے کھڑا تھا۔ انسپکٹر نے قہر آلود نظروں سے رحیم نور کو دیکھا اور بولا:
”  کیوں رحیم نور۔۔  میں نے سنا تو چرس کا دھندہ کرتا ہے۔ شکل سے تو بڑا شریف دکھ رہا ہے۔ تیری عزت کرتا ہوں اس لیے تجھے ڈاک بنگلے پر مدعو کیا ورنہ تیری اصل جگہ تو جیل ہے”
 رحیم نور سٹپٹا گیا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ اپنی صفائی میں کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن انسپکٹر نے اسے کوئی موقع فراہم نہیں کیا۔ انسپیکٹر مزید بولا
”  دیکھ رحیمے۔۔۔۔۔۔!!  میں چاہوں  تو تجھے ابھی حوالات میں بند کر سکتا ہوں۔ کم سے کم دس سال قید کی سزا ہوگی۔ لیکن میں ایسا کروں گا نہیں۔ میں تیرا بھرپور خیال رکھوں گا۔ لیکن ہاں تجھے بھی میرا ایک کام کرنا ہوگا۔ بول کیا کہتا ہے”
 رحیم نور دم بخود کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ وہ بے گناہ تھا لیکن طاقت کے سامنے ایک بے بس اور لاچار مجرم کی طرح گردن جھکائے کھڑا تھا۔ وہ زبان سے کچھ نہ بولا محض اپنی گردن ہلا کر ہامی بھر لی۔
”  رحیم نور تو جانتا ہے کہ خوشحال پور کی عورتوں کا کوئی جواب نہیں۔ وہ اپنی خوبصورتی کے لیے جانی جاتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو  ڈاک بنگلے پر خوبصورت عورتوں کو لانے کا کام انجام دے۔ تو ٹھہرا گاؤں کا مکھیا اور تیری اپنی عدالت بھی ہے۔ لوگ تجھ سے ڈرتے  ہیں اور تیری عزت بھی کرتے ہیں۔ یہ کام تیرے لیے بے حد آسان ہے۔ باقی تو ڈر مت، میں تیرے ساتھ ہوں۔ اب تو ٹر جا اور ہاں کل میں یہیں تیرا انتظار کروں گا۔” انسپیکٹر ولیم نے تیکھے لہجے میں رحیم داد کو جانے کا حکم دیا۔
 رحیم نور انسپکٹر کے اس روپ سے بے خبر تھا۔ وہ بہت گھبرا گیا اور سہمی ہوئی حالت میں گھر چلا گیا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار صاف صاف جھلک رہے تھے۔ وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ رحیم نور ساری رات نہ سو سکا۔
 صبح کی دودھیا روشنی ہر سمت پھیل رہی تھی۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے تھے۔ رحیم نور اداسی کے عالم میں زیر لب کچھ بڑبڑا رہا تھا ۔ اسی بیچ روشنی کمرے میں نمودار ہوئی۔ روشنی رحیم نور کی بڑی بہو تھی۔ اس کی عمر لگ بھگ بتیس کے قریب تھی۔ وہ چھریرے جسم کی ایک خوبصورت عورت تھی۔ وہ رحیم نور کے لیے ناشتا لے کر آئی تھی۔ روشنی پر نظر پڑتے ہی رحیم نور نے راحت کی سانس لی۔
” آج شام کو ہمیں ڈاک بنگلے پر جانا ہوگا۔ کچھ اہم کام ہے۔ سنا سرکار عورتوں کے لیے نوکریاں فراہم کر رہی ہیں۔ تم بھی میرے ساتھ چلو گی اور یہ بات ہم دونوں کے بیچ ہی رہے گی” رحیم نور نے بڑے پیار سے روشنی سے  مخاطب ہو کر کہا۔
” جو حکم لالا۔ میں شام کو تیار رہوں گی۔ آپ بے فکر ہو کر ناشتا کیجئے”  روشنی ناشتا رکھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔
 سورج کی کرنیں بلند درختوں کی شاخوں سے سونا بکھیر رہی تھیں۔ سورج غروب ہونے میں مصروف تھا۔ شام کا اندھیرا دھیرے دھیرے بلندی سے نیچے اترنے لگا۔ خوشحال پور کی فضا دھیرے دھیرے تاریک ہو رہی تھی۔ انسپکٹر اور میجر بے صبری سے رحیم نور کے منتظر تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے گلاسوں میں وہسکی انڈیل دی اور مے نوشی میں مصروف ہو گئے۔ اچانک باہر سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ تھوڑی دیر میں رحیم نور اپنی بہو روشنی کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا۔ انسپکٹر نے بڑی گرم جوشی سے رحیم نور کا خیر مقدم کیا۔ روشنی کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے رحیم نور کو کمرے سے باہر جانے کا حکم صادر ہوا۔ میجر رندھاوا نے وسکی کا ایک بڑا گھونٹ لے کر اپنا گلاس ختم کیا۔
 نشے کا ایک تیز ریلا آیا۔ وہ ڈگمگاتے قدموں سے روشنی کی جانب گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے کر چلا گیا۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے وہ وحشانہ انداز میں روشنی پر جھپٹ پڑا۔ روشنی اب رندھاوا کے ناپاک ارادوں کو صاف صاف پرکھ چکی تھی۔ اس نے مزاحمت دکھانے کی کوشش کی لیکن رندھاوا کی مضبوط پکڑ سے اپنے آپ کو نہ چھڑا سکی۔ وہ کمزور تھی۔ وہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔ اپنی عزت کی خاطر رندھاوا کے سامنے گڑگڑا رہی تھی۔ نشے کا ایک اور تیز ریلا آیا۔ میجر رندھاوا نے زبردستی روشنی کو اپنے بستر پر گرا دیا۔ رات بہت تاریک ہو چکی تھی۔ ہر طرف ہو کا عالم طاری تھا۔ روشنی کے جسم کو نوچا جا رہا تھا اور باہر انسپکٹر آرام سے  وہسکی پینے میں مصروف تھا۔ رندھاوا کے بعد انسپکٹر نے بھی  بے بس اور لاچار روشنی کے سامنے اپنی مردانگی کا خوب ہنر دکھایا۔
مضمحل  حالت میں رحیم نور باہر روشنی کا منتظر تھا۔ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی تھی۔ روشنی کے بال چہرے پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں سرخ اور متورم تھیں۔ اس کو اپنے آپ سے اور رحیم نور سے گھن آنے لگی۔ روشنی رحیم نور کے ہمراہ گھر کی جانب چل دی۔ راستے میں دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی۔
 رحیم نور گھر جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح تڑکے ہی گھر میں چیخنے چلانے کی آوازیں بلند ہوئی۔ روشنی کا جسم پنکھے سے لٹک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں ابل کر باہر نکل آئی تھیں۔ زبان منہ سے باہر لٹکی ہوئی تھی۔ اس کا خوبصورت اور دل آویز چہرہ مسخ ہو کر مٹیالا پڑ گیا تھا۔ وہ اس بد نما داغ کے ساتھ جینا نہیں چاہتی تھی۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ روشنی کی خودکشی ایک نہ سلجھنے والی پہیلی کے مانند تھی۔
 رحیم نور خوشحال پور کی عورتوں کو بہلا پھسلا کر ڈاک بنگلے میں حاضر کرتا گیا  اور خود بھی اس عمل کا حصہ بنتا گیا۔ اب رحیم نور انسپیکٹر اور میجر کے ہمراہ شراب نوشی کرتا اور نئی نئی عورتوں کے جسموں کو نوچتا۔
 خوشحال پور کے لوگ خوفزدہ تھے۔ دہشت اور خوف کے سائے ہر سمت پھیلے ہوئے تھے۔ جو بھی شخص ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرتا وہ راتوں رات غائب ہو جاتا۔ خوشحال پور کے لوگ  ظلم وستم کی وادی میں مقید اپنی قسمت کو بری طرح کوس رہے تھے۔ اب رحیم نور خوشحال پور اور اڑوس پڑوس کے گاؤں دیہات سےعورتوں کو مختلف قسم کے جھانسے دلواکر ڈاک بنگلے پہنچاتا تھا۔ شیطان اس پر حاوی ہو چکا تھا۔ رحیم نور اس دوران کچھ پیشہ ور عورتوں کی بھی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
 آج حسین شاہ حسب معمول مغرب کی اذان دینے لگا۔ اس کی آواز گلوگیر تھی۔ اذان دیتے وقت آنسوں کے قطرے اس کے چہرے پر بکھرنے لگے۔ پتا نہیں اس کی کیا وجہ  تھی۔ حسین شاہ کا دل جیسے ڈوب رہا تھا۔
 سورج بھی ڈوب کر غروب ہو چکا تھا۔ شام کا دھند لکا ہر سمت پھیلنے لگا۔ اندھیرے نے خوشحال پور کی کہر آلود فضا میں اپنا ڈیرہ ڈال دیا۔ حسین شاہ مغرب کی نماز ادا کر کے اپنے گھر پہنچ گیا۔ اور اپنی بہن کو گھر سے غائب پایا۔  رحیم نور، انسپکٹر اور میجر ایک ساتھ شراب پی رہے تھے اور حسین شاہ کی بہن ان کے سامنے زارو قطار رو رہی تھی اور قسمیں دلاکر ان سے منت سماجت کر رہی تھی کہ اس کو گھر جانے دیا جائے۔ حسین شاہ کی بہن کو شام سے پہلے رحیم نور نے زبردستی ان کے گھر کے برامدے سے بے ہوش کراکر اٹھایا تھا اور سیدھے ڈاک بنگلے لے جاکر اپنے شیطان صفت دوستوں کو پیش کیا ۔
 رات کافی گزر چکی تھی۔ ہر طرف گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ تینوں نشے میں دھت ہو کر کالی رات کو رنگین بنانے کے تاک میں تھے۔ تینوں شیطانوں نے مل کر حسین شاہ کی بہن کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا۔ اس کے کپڑے پھاڑ دیے گئے۔ اس کو برہنہ کر کے وہ زور زور سے ہنس رہے تھے۔ حسین شاہ کی بہن گردن جھکا کر بلک بلک کر  رو رہی تھی۔ اس نے میز سے گلاس اٹھا کر انسپکٹر کے سر پر دے مارا۔ انسپکٹر کے سر سے خون بہنے لگا۔ اس نے غصے کی حالت میں زور سےحسین شاہ کی بہن کا گلا دبا دیا۔ اس کی سانسیں اٹک گئیں  اور تڑپ تڑپ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ انسپیکٹر نے رحیم نور اور میجر رندھاوا کے مدد سے  حسین شاہ کی بہن کی لاش کو ڈاک بنگلے کے پچھلے حصے میں دفن کیا۔
حسین شاہ اپنی بہن کی گمشدگی کے بارے میں خاصا پریشان تھا۔ کسی نے اسے بتایا کہ شام کے اندھیرے میں شاید رحیم نور نے کچھ گنڈوں کے ساتھ اس کی بہن کو ڈاک بنگلے زبردستی پہنچایا۔ حسین شاہ جب وہاں پہنچا تو پولیس والوں نے اسے دبوچ لیا اور کافی مات کٹائی کی۔ حسین شاہ کافی زخمی تھا۔  پولیس والوں نے انسپیکٹر کے کہنے پر ساری رات اس کو مارا پیٹا۔ وہ خون سے لت پت بے سدھ حوالات میں پڑا تھا۔ صبح تڑکے ہی انسپکٹر ولیم اکبر پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔ وہ حسین شاہ کو جھوٹے مقدمے میں پھنسانا چاہتا تھا۔ حسین شاہ کے علاج و معالجہ کے لیے میجر رندھاوا کو بلایا گیا۔
 حسین شاہ کی حالت دیکھ کر رندھاوا نے اس کو اپنے گھر میں منتقل کرنے کی صلاح دی۔ حسین شاہ کو آناً فاناًمیجر رندھاوا  کے گھر پہنچا دیا گیا۔ رندھاوا نے حسین شاہ کے  علاج میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ چند ہی دنوں میں حسین شاہ کی طبیعت میں کافی حد تک سدھار آیا تھا۔
 جھاڑے کے دن تھے۔ انسپیکٹر ولیم اکبر دفتر سے چھٹی لے کر اپنے آبائی گاؤں چلا گیا۔ میجر رندھاوا اکیلا تھا۔ شام کا اندھیرا دھیرے دھیرے خوشحال پور کی فضا میں تحلیل ہو رہا تھا۔ رندھاوا اپنے کمرے میں بیٹھ کر گلاس میں وہسکی انڈیل رہا تھا۔ حسین شاہ چارپائی پر لیٹ کر سو رہا تھا۔ رندھاوا نے حسین شاہ کو جگایا اور اپنے ساتھ شراب پینے کے لیے مدعو کیا۔ حسین شاہ نے تیکھے لہجے میں میجر رندھاوا کی فرمائش کو ٹھکرا دیا۔
” میں مسلمان ہوں۔ شراب ایک حرام چیز ہے۔ شراب پینے سے بہتر ہے کہ موت اسی حالت میں مجھے گلے لگائے۔ میجر رندھاوا  تم ایک نہایت ہی گھٹیا قسم کے انسان ہو۔ شراب نوشی کے ساتھ ساتھ تم نے ہماری بہو بیٹیوں کی عزت کو نیلام کیا ہے۔ نہ جانے انسپیکٹر اور رحیم نور  سے مل کر تم نے کتنے لوگوں کے گھر اجاڑ دیے ہیں،  کتنے لوگوں کا قتل کیا ہے، کتنوں کو غائب کر دیا۔ یہ طاقت کا غرور تم کو ایک دن مٹی میں ملا دے گا۔ مجھے شرم آتی ہے کہ تم ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوئے ہو۔”  حسین شاہ کا لہجہ تند اور تیکھا تھا۔
 میجر رندھاوا آدھی بوتل وہسکی ختم کر چکا تھا۔ نشہ اس کی رگ رگ میں گردش کر رہا تھا۔ اس نے وسکی کی بوتل اٹھائی اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے حسین شاہ کی جانب بڑھا  اور گلوکوز کی بوتل وہسکی کی بوتل سے تبدیل کی۔ اب شراب دھیرے دھیرے حسین شاہ کی رگوں میں گھسنے لگی۔ درد سے حسین شاہ کا برا حال تھا۔ وہ زور زور سے چیخ رہا تھا۔ میجر رندھاوا حسین شاہ کی یہ حالت دیکھ کر زور زور سے ہنس رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی حسین شاہ کے چلانے کی آواز بند ہو گئی۔ وہ زندگی کی جنگ ہار چکا تھا۔ اس کی روح آسمانوں میں اپنی بہن  کی متلاشی تھی۔ میجر رندھاوا نے اپنے مکان کے عقب میں حسین شاہ کی لاش کو گاڑ دیا۔
 خوشحال پور کی عوام انصاف پانے کے لیے سرگرداں تھے لیکن کرپٹ، جابر اور ظالم حکومت کے سامنے ہمیشہ ان کو شکستگی کا سامنا کرنا پڑا۔ رحیم نور نے بلا مقابل الیکشن جیتنے میں کامیابی حاصل کی اور خوشحال پور کا ایم۔ ایل۔ اے بن گیا۔ انسپکٹر ولیم اکبر کو ترقی سے نوازا گیا اور ایس۔ پی کے عہدے پر تعینات ہوئیے۔ میجر رندھاوا ریٹائرمنٹ لے کے اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
 رحیم نور کی اپنی شاندار کوٹھی ہے۔ اور اس کے بیٹوں کو رحیم نور کی حرام وراثت میں اس کا گندا خون بھی ملا ہے۔ اور اس کے بیٹے بھی غلط کاری اور حرام کاموں میں ملوث ہیں۔
 میجر رندھاوا  اور انسپکٹر ولیم اکبر اولڈ ایج ہوم میں اپنی زندگی کے آخری لمحات کاٹ رہے ہیں۔ آج بھی حسین شاہ کی وہ  دردناک چیخیں  میجر رندھاوا کے کانوں میں گونجتی ہیں۔ حسین شاہ کی بہن کا بھیانک چہرہ آج بھی انسپیکٹر ولیم اکبر کی نظروں کے سامنے بار بار گردش کر رہا ہے۔
وقت کا منحوس چرخہ اپنی رفتار چل رہا ہے۔ اور خوشحال پور کی تقدیر بھی گندگی اور نحوست کے گرد طواف کر رہی ہے۔ شاید کسی آسمانی بلا کا انتظار ہے۔ جو ساری گند اور نحوست کا ناش کرسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.