گزشتہ چار برسوں سے وادی میں نہ صرف تعمیر و ترقی کے کام شدومد سے ہورہے ہیں بلکہ امن و امان کی فضاءبھی کسی حد تک قائم ہو چکی ہے۔لوگ بغیر کسی خوف و ڈر کے اپنے اپنے کام انجام دے رہے ہیں اور بچے بھی بغیر کسی رکاوٹ کے اسکولوں ،کالجوں اور دانشگاہوں میں علم کے نور سے منور ہورہے ہیں اور تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنی پہچان قائم کرکے تابناک اور روشن مستقبل تلاش کررہے ہیں، جو ایک ترقی یافتہ قوم کی ضمانت تصور کی جاتی ہے۔گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جہاں تعمیر و ترقی کے شعبے متاثر رہے، وہیں تعلیمی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ۔ان ایام کے دوران جہالت اور بے روزگاری نے جنم لیا ۔ہزاروں ک کنبے متاثر ہوئے، جن کے کماﺅ بیٹے درغور چلے گئے اور ان گھروں میں مشکل سے چو لہے جل رہے ہیں۔ بے روزگاری اور جہالت کی وجہ سے ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان مختلف خرافات میں ملوث ہوئے ،بے راہ روی اور ڈرگ کے استعمال نے ان بچوں کی بنیادیں کھوکھلی کر کے رکھ دی، جو بُرے کاموں میں پھنس گئے۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وادی میں چند مٹھی بھر لوگ امن کو خراب کرنے میں لگے ہیں ،جو حالات کو بگاڑ کر اپنا الوسیدھا کرنا چاہتے ہیں ۔
حالیہ دنوں شیر کشمیر یونیور سٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم بعض نوجوانوں نے پو لیس کے بقول حالیہ کھیلے گئے، ورلڈکپ فا ئنل میچ کے دوران ملک کے خلاف نعرہ بازی کی اور آسٹریلیا ٹیم کی سپورٹ کی اور ایک بیرونی طالب علم کے ساتھ سخت لہجے میں بات کی۔ان طلبہ کے خلاف پولیس نے باضابطہ ایف آئی آر درج کی۔ان بچوں کے والدین اور رشتہ داروں اور سیاسی تنظیموں کے لیڈران کا جو ردعمل سامنے آیا ،اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حالات کو بگاڑنے کے لئے درپردہ کچھ لوگ کام کررہے ہیں۔گزشتہ دنوں سرینگر کے این آئی ٹی میں زیر تعلیم ایک طالب علم نے شوشل میڈیا پر ایک ایسا بے ہودہ پو سٹ اپ لوڑ کیا جس سے اہل وادی کے دل مجروح ہوئے۔
اس واقعہ کے بعد اگر چہ چند ایک کالجوں سے احتجاج کی خبریں بھی منظر عام پر آگئیں اور کچھ علاقوں میں پوسٹر بھی نظر آئے، تاہم پولیس نے بر وقت کارروائی کر کے حالات کو قابو میں کر دیا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اہل وادی ہمیشہ سے ہی امن و سلامتی کے طلب گار رہے ہیں ،انہوں نے ہمیشہ پیار و ہمدردی کا پیغام پھیلایا ہے کیونکہ وہ صوفی سنتوں،ریشیوں اور منیوں کی تعلیمات حاصل کر کے آگے بڑھے ہیں ۔ہاں اس بات میں بھی کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ وقت وقت پر یہاں بیرونی مداخلت کی وجہ سے امن کو تہس نہس کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے لئے منصوبوں کے تحت کام کیا گیا اور ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو سب سے پہلے زنگ آلودہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن بعد میں ان ہی نوجوانوں نے وطن کی فلاح و بہبود کے لئے ایسے کارنامے انجام دئے جو واقعی یاد رکھنے کے لائق ہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان نوجوانوں کی کونسلنگ کی گئی ،انہیں تعلیم و تربیت سے روشناس کیا گیا ،انہیں اپنی صلاحتیں اُجاگر کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اُن کی سابقہ غلطیوں کو معاف کیا گیا تھا۔آج بھی ان طریقوں کو عملانے کی ضرورت ہے ۔ بچوں کو مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم سے بھی آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔ایسی غلطیوں سے پرہیز کرناچاہئے ،جن کی وجہ سے دشمن ہمارے بچوں کو ہتھیار استعمال کے بطور استعمال کرنے کی کوشش کرے ۔