کشمیر میں سرمائی تعطیلات۔ ایک تجزیہ

کشمیر میں سرمائی تعطیلات۔ ایک تجزیہ
معراج زرگر
کشمیر میں سرمائی تعطیلات کو لیکر پچھلے کچھ دنوں میں بڑی زبردست ہنگامہ آرائی اور کچھ ہلکی پھلکی اور کچھ جذبات سے بھرپور کھلبلی دیکھنے میں آئی۔ حسب معمول نیم حکیم صاحبانِ مائیک و کیمرہ نے بغیر کچھ کھوجنے بوجھنےاور بغیر کسی تحقیق و تعلم کے اپنی اپنی لمبی چونچ چلائی۔ کچھ ہمارے ناظم صاحب تعلیمات نے بھی اکثریت کو چڑانے میں زرا بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ کل ملا کر کڑاکے کی سردیاں اپنے پیر جمانے سے پہلے گرما گرمی کا بھی کچھ سامان فراہم کرتی نظر آئیں۔
سرمائی اور گرمائی تعطیلات نظام تعلیم کا ایک جُزوِ لایَنفَک ہیں۔ اور صدیوں دہائیوں سے تعطیلات کا باضابطہ ایک شیڈول دنیا کے ہر ملک میں موجود ہے۔ دنیا بھر میں جدید نظام تعلیم کے اصول و ضوابط متعین کرنے سے پہلے بھی چھٹیوں یا تعطیلات کے ایک نظام کی مثال ہمیں ملتی ہے۔ کرسمس یا حضرت عیسی علیہ الاسلام کا جنم دن منانے سے پہلے رومن  لوگ ستارہ زحل کو زراعت کا دیوتا سمجھ کر دسمبر کے وسط میں ایک دو ہفتوں کی چھٹیاں لے کر خوب تہوار مناتے تھے اور شاندار کھانوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری دیگر خوشیاں مناتے تھے۔ جب کرسمس کا تہوار منایا جانے لگا اور رومیوں نے بھی عیسایت قبول کی تو بعد میں یہ تعطیلات یا چھٹیاں کرسمس کے تہوار کو منانے کے لئے متعین کی گئیں۔
افریکی ممالک بھی زمانہ قدیم سے Kwanza کا تہوار مناتے چلے آرہے تھے اور اس تہوار کی نسبت سردیوں کے موسموں میں کچھ ہفتوں کی تعطیلات کا رواج قائم تھا۔ مورخین کا اس بات پر پورا اتفاق ہے کہ موجودہ کرسمس کی چھٹیاں اور تہوار ہی رومن Saturnalia تہوار اور اس کے ضمن میں چھٹیوں کا متبادل ہے۔
تعلیم کا جدید نظام قائم ہونے کے بعد با ضابطہ دنیا کے ہر ایک ملک میں تعطیلات یا چھٹیوں کا ایک متعین نظام معرضِ وجود میں آیا۔ دنیا کے ترقی یافتہ مملک میں تعطیلات کا ایک مستقل اور بہترین نظام اور شیڈول قائم ہے۔ اور کم ترقی یافتہ یا ایسے ممالک میں جہاں سیاسی یا انتظامی امورات بدنظمی اور افراتفری کا شکار ہیں وہاں تعطیلات وغیرہ بھی بدنظمی کا شکار ہیں۔
کہا جاتا ہے امریکی صدر Jimmy Carter کے زمانے میں خلیج ممالک سے امریکہ کی تیل کی درآمد متاثر ہوئی تو پورے امریکہ میں توانائی کی کمی کے باعث جمی کارٹر نے اسکولوں کو سردیوں میں بند کرنے کا حکم جاری کیا۔ اور چھٹیوں کو بڑھایا گیا۔ کہتے ہیں کہ فقط اس ایک اقدام سے توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے اور اس کے بہتر استعمال میں بڑی مدد ملی۔ مختصراََ یہ کہ تمام یورپی اور امریکی ممالک میں کرسمس کی چھٹیوں کو بڑھاکر سرمائی تعطیلات کا نام دیا گیا۔ البتہ ان سرمائی تعطیلات کا دورانیہ مختلف ممالک میں مختلف ہے۔
روس, نیدر لینڈ, ڈنمارک, ایسٹونیا, پولینڈ, بیلجیم, جاپان, متحدہ عرب امارات, رومانیہ, انڈونیشیاء, ترکی, انگلینڈ اور دیگر کچھ ممالک میں سرمائی تعطیلات دو ہفتہ یا پندرہ یوم کی ہوتی ہیں۔ جبکہ برازیل میں جولائی کا پورا میہنہ اور روم میں بھی ایک مہینہ کی سرمائی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ فرانس, جرمنی, آسٹریا, وغیرہ میں بھی سرمائی تعطیلات دو ہفتے سے لیکر تین ہفتے تک ہوتی ہیں۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ان تعطیلات کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔ جو دو ہفتوں سے لیکر ایک مہینے تک بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بات مگر حیران کن ہے کہ سرمائی تعطیلات کے برعکس گرمائی تعطیلات کا دورانیہ تمام ممالک میں بڑا لمبا ہوتا ہے۔ اکثر ممالک میں گرمائی تعطیلات کا دورانیہ تین مہینے تک ہوتا ہے۔ اور یہ وہ دورانیہ ہوتا ہے جب طلباء اور طالبات اور ان کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی گرمیوں کی چھٹیاں گذارنے کے لئے سیر و تفریح کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہ اب جدید دور کے تقریباََ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایک رواج سا بن گیا ہے۔ آسٹریلیا, برازیل, پاکستان, بنگلہ دیش, ہندوستان, ڈنمارک, جرمنی وغیرہ میں پورے تین مہینوں کی چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ جبکہ بلگیریا میں 104 دن, رومانیہ 91 دن, پرتگال 88 دن, اٹلی 87 دن, ایسٹونیا 86 دن, روم 85 دن, اسپین, پولینڈ, سویٹزرلینڈ میں 83 دنوں کی گرمائی چھٹیاں ہوتی ہیں۔
مزے کی بات یہ کہ امریکہ کی اکثر ریاستوں اور یورپی ممالک میں صرف مستقل اساتذہ کو سرمائی اور گرمائی چھٹیوں کے لئے وظیفہ یا مشاہرہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ دیگر اساتذہ کو نہیں دیا جاتا ہے۔ اور اگر ان غیر مستقل وغیرہ اساتذہ سے کوئی لوکل ایجنسی یا لوکل گورنمنٹ چھٹیوں کے دوران کام لینا چاہے گی تو تب وظیفہ یا مشاہرہ ملتا ہے۔
ہندوستان کی دیگر ریاستوں اور جموں ڈویژن کے برعکس کشمیر میں سرمائی چھٹیاں کم و بیش تین مہینے کی ہوتی ہیں اور گرمائی چھٹیاں دس سے پندرہ دن کی۔ اس کی خاص وجہ یہاں کا موسم ہے۔ چونکہ سرما میں سخت ترین سردی ہوتی ہے اور اسکولوں اور کالجوں میں ویسے انتظامات کا بندوبست نہیں ہوتا ہے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے,اس لئے بہتر سمجھا گیا کہ سرمائی تعطیلات لمبی ہوں تاکہ بچوں کو تکلیف نہ ہو اور توانائی کے زرائع کو بھی بچایا جائے۔ کیونکہ کشمیر جیسے خطے میں ترقی کے اتنے بڑے اور ماڈرن دور میں بھی گاؤں دیہات تو کیا, شہروں میں بھی مشکل سے بارہ یا چودہ گھنٹے کی بجلی آتی ہے۔ اور آج بھی اکثر دفاتر میں گرمی کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ سرمائی تعطیلات لمبی ہوں اور سود مند ہوں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان تعطیلات کا اسکولی بچوں پر کوئی اثر ہوتا ہے یا کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔۔؟ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر باقی تمام بچے کڑاکے کی سردیوں اور برف باری وغیرہ میں بھی ٹیوشن سینٹروں پر پڑھائی کے لئے جاتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ گاؤں قصبہ جات میں وہی اسکول والے اساتذہ یا ان ہی اسکولوں کی انتظامیہ ٹیوشن کا اہتمام کرتی ہے جہاں ان بچوں کا داخلہ پہلے سے ہی ہوتا ہے۔  اور حال ہی میں دیکھنے میں آیا ہے کہ مارچ سیشن کے احکامات کے ساتھ ہی کچھ اسکول پورے سال سیلیبس دانستہ طور مکمل نہیں کراتے اور پھر بچوں اور ان کے والدین کو بلیک میل کرکے بچوں کو اسکول آنے کا کہتے ہیں تاکہ دانستہ طور چھوڑا ہوا ادھورا سیلیبس مکمل کرایا جائے۔ اس طور اسکول کی فیس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ اور ٹیوشن فیس حاصل کی جائے۔
چونکہ اکثر آبادی غریب اور متوسط سماجی طبقوں پر مشتمل ہے اور ان کے بچے سیر و تفریح یا مہنگے ٹیوشن وغیرہ کا سوچ بھی نہیں سکتے, اس طور تقریباََ سارے بچے اپنے اپنے گھروں میں ہی یا تو پڑھتے رہتے ہیں یا گھر والوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ سردیوں کے ایام میں کھیلنا بھی اکثر بچوں کا مشغلہ ہے۔ اور امیر طبقہ جات اور قدرے خوشحال گھرانوں کے بچے ہندوستان کی باقی ریاستوں میں سیر و تفریح کے لئے بھی جاتے ہیں یا جموں وغیرہ میں بھی جاتے ہیں جہاں ان لوگوں کے اپنے اپنے مکانات تعمیر شدہ ہیں۔
خیال کیا جاتا کہ ہمارے یہاں اسکولوں اور کالجوں میں سینٹرل ہیٹنگ سسٹم اور اس کے ساتھ دیگر بہترین سہولیات بہم ہونا ناممکن ہے۔ اور یہ بھی ناممکنات میں سے ہے کہ ہزاروں پڑھے لکھے اور قابل اساتذہ سے تین مہینے کے لمبے اور قیمتی وقفے میں کوئی ایسا کام لیا جائے جس سے قوم کی ترقی ہو اور بچوں کو بھی اس لمبے تعطیلات کے دورانیے کے دوران رٹے اور حافظے سے بڑھ کر تعلیم کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ ایک جاندار معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔ لیکن اس کے لئے جدید سوچ, انفرا اسٹرکچر, ہیومن ریسورس اور سرکاری یا انتظامی سطح پر دیانتداری اور ایمانداری کی ضرورت ہوگی۔ والدین کو بھی تعلیم کے نئے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا اور جذبات اور دیکھا دیکھی کو چھوڑ کر اپنے بچوں کے لئے ایک نئی سمت کا تعین کرنا ہوگا۔
نوٹ:اس صفحہ میں شائع مضامین کا ادارہ ایشین میل کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ مصنفین کی ذاتی رائے ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.