کچھ عرصہ قبل جموں وکشمیر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ’ جموں وکشمیر روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن ‘ کا رول انتہائی اہم تصورکیاجاتا تھا ۔ایک دہائی قبل ’ ایس آر ٹی سی ‘ایک خود مختار اور خود کفیل ادارہ تھا ۔سرینگر سے لیکر دہلی تک اس کے اپنے اثاثہ جات ہوا کرتے تھے ۔سینکڑوں بسیں ،ٹرکیں، ڈرائیوروں ،کنڈیکٹروں سمیت سینکڑوںملازمین،ورکشاپس ،پیٹرول پمپس ،بس اڈے اور بھی بہت کچھ، اس ادارے کی شان ہوا کرتے تھے ،لیکن وقت کیساتھ ساتھ یہ ادارہ مالی خسارے میں چلاگیا۔نہ تو ملازمین کی تنخواہیں واگزار ہوا کرتی تھی اور ناہی بسوں کی حالت سفر کرنے کے حوالے سے بہتر تھی ۔نتیجتاً ملازمین سڑکوں پر اہلخانہ سمیت سراپا احتجاج نظر آئے ۔ اب اس ادارے کا صرف نام اور شناختی تختی ہی ہے اور یہ قومی پبلک ٹرانسپورٹ ایک محدود دائرے میں سمٹ کر رہ گیا ۔اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ایس آر ٹی سی کے پاس 570بسیں،308ٹرکیں ہیں، روزانہ گاڑیوں پر حاصل ہونی والی آمدنی 4ہزار670روپے ہے ،روزانہ98گاڑیوں کا استعمال ہوتا ہے ،144روٹوں پر ایس آر ٹی سی گاڑیاں چلتی ہیں ،ان گاڑیوں میں سالانہ 23.01لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں اور سالانہ کارگو لیفٹ (یعنی سامان اٹھانا)28.64میٹرک ٹن ہے ۔یہ اس ادارے کا موجودہ خاکہ ہے ۔
ایس آر ٹی سی کیوں خسارے میں گئی؟ ،وجوہات بہت ساری ہیں ،ایک وجہ بے ضابطگیاں اور جوابدہی وشفافیت کا فقدان ہے۔نجی ٹرانسپورٹروں نے اس دوران کافی ترقی کی ۔جس ٹرانسپورٹر نے ایک گاڑی خریدی ،چند برسوں میں ہی وہ بڑا ٹرانسپورٹر بن گیا ۔وجوہات کیا ہیں ؟دراصل وہ گاڑیوں کی دیکھ بھال سے لیکر سڑکوں پر چلنے تک ہر ایک چیز پر نظر گزر رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نجی ٹرانسپورٹر ترقی کیساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کرنے میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔سمارٹ سٹی کا منصوبہ ہاتھ میں لیا گیا ہے ،شہر سرینگر اب سمارٹ بن رہا ہے ،اس لئے حکام نے سمارٹ بسیں چلانے کا فیصلہ لیا ۔لیفٹیننٹ گور نر منوج سنہا نے حال ہی وادی کشمیر میں 100سمارٹ بسوں کو ہری جھنڈی دکھا کرعوام کے نام آرام دہ سفری سہولیت وقف کی ۔سمارٹ بسوں کے لئے روٹ مختص کیا گیا ہے ۔
سمارٹ بسیں شہر میں گھوم رہی ہیں اور لوگ بھی ان میں سفر کررہے ہیں ۔جدید سہولیات سے لیس سمارٹ بسوں کو متعارف کرانے سے پبلک ٹرانسپورٹ سہولیات میں مزید بہتری آئی ہے،اس پر کسی کو نہ تو اعتراض ہے اور ناہی انکار ہوسکتا ہے ۔تاہم سمارٹ بس ٹرانسپورٹ کا مستقبل کیا رہے گا؟ اس پر کوئی بھی رائے زنی کرنا قبل از وقت ہوگا ۔تاہم ضروری ہے کہ سمارٹ بسوں کی نگرانی کے لئے ایک ٹاسک فورس شکیل دیا جائے ،جوابدہی کو یقینی بنایا جائے اور اس قبل سمارٹ بسوں کا حال بھی ایس آر ٹی سی جیسا ہو۔گاڑیوں کی دیکھ بھال سے لیکر ملازمین کو جوابدہ بنانا ناگزیر ہے ۔تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بہتری آنے کیساتھ ساتھ جموں وکشمیرکی اقتصادی خود مختاری اور باختیاری کو مزید تقویت ملے ۔اس حوالے سے بیرون ریاستوںکے سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ کے نقش راہ سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔
کیوں کہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ خسارے کی بجائے مالی فائدے میں ہے ۔اگر جموں وکشمیر کی انتظامیہ سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ پر اپنی توجہ مرکوز کرے تو یہ ادارے اقتصادی ترقی کے ضامن بن سکتے ہیں ۔