قومی سطح پر بچوں کادن نہایت ہی جوش و جذبے سے منایا گیا،اس حوالے سے ملک بھر کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں تقریبات کا اہتمام ہو ا، جہاں سماج کے ذی حس لوگوں نے بچوں کے حقوق کی اہمیت افادیت اور ان کے بہتر مستقبل پر روشنی ڈالی۔اس دن کو ملک کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے جنہیں ملک کے بچے” چاچا نہرو “کے نام سے جانتے تھے کیونکہ پنڈت جی بچوں سے بے حد پیارو محبت سے پیش آتے تھے، اُن کے سر وں پر شفقت کا ہاتھ رکھتے تھے ،انہیں بخوبی علم تھا کہ یہی بچے ہمارا آنے والا کل ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچے اللہ اور بھگوان کا روپ ہوتے ہیں، ایک نوزائد بچے کا دل و دماغ کورے کاغذ کی مانند صاف و شفاف ہوتا ہے ۔
اُس کو اپنے بڑے ،بزرگ ،استاد اور والدین جس طرح کی تعلیم وتربیت دیں گے ،وہ ویسا ہی بن جائے گا۔جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے ،گزشتہ تین دہا ئیوں کے دوران جس طرح کے حالات و اقعات ہمیں دیکھنے کو ملے ہیں اُن میں سب سے زیادہ ہمارے بچے متاثر ہوئے ۔ اُن کے ذہنوں میں اس طرح کے زہریلے خیالات لوگوں نے بھر دیئے ہیںکہ وہ اپنے اپنوں کے ہی دشمن ہوگئے ۔وادی میں آج کل ہمارے بچے مختلف خرافات ،بے راہ روی اور منشیات کی لت میں مبتلا ہو رہے ہیں، یہ تباہی ان کے ذہنوں میں کہاں سے داخل ہو گئی؟ اس کے لئے کون لوگ ذمہ دار ہیں؟ ۔آج ہمارے بچے اپنی مادری زبان سے دور ہورہے ہیں، انہیں اپنے اسلاف کی تہذیب و تمدن سے متعلق کوئی جانکاری نہیں ہے ،جن کی بدولت اس وادی کو پہچان مل گئی ہے۔
ان بزرگوں کے اخلاق ،آداب ،شرافت و سادگی سے نہ صرف ہمارے ملک کے لوگ متاثر ہوئے تھے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی وادی کی شرافت و سادگی کے چرچے ہوا کرتے تھے۔ یہاں کی مہمان نوازی ،اخوت ،مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارے کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔گاندھی جی جیسی عظیم شخصیت بھی یہاں کی شرافت و سادگی ،بھائی چارے ،مذہبی رواداری اور انسانی اقدارسے اس قدر متاثر ہو چکے تھے کہ تقسیم ہندکے وقت انہوں نے ملک کے عوام کو کہا تھا کہ وہ اہلیان کشمیر سے سبق حاصل کریں ،جہاں کسی بھی قسم کا تشدد نہیں ہو ا۔بہر حال یہاں بات بچوں سے متعلق ہو رہی ہے جو کل کے معمار ہیں ،جس قوم کے بچے تعلیم و تربیت سے لیس ہوں جن کے اداب و اخلاق بلند ہوں، وہی قوم کل کی تاریخ میں مضبوظ اور موثر بن سکتی ہے ۔
اُسی قوم و ملک کی شناخت قائم و دائم رہ جاتی ہے اور مستقبل روشن ہوگا۔بچوں کا قومی دن منانا اچھی بات،اسکولوں ،کالجوں اور دیگر تربیت گاہوں میں اس دن کی مناسبت سے تقریبات کا اہتمام کرنا بہتر قدم ہے، لیکن ہمارے اُساتذہ،بزرگوں اور مختلف انجمنوں کے ذمہ داروں کو روایتی پروگراموں سے اُوپر اُٹھ کر زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا اور چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اُن کی صحت مند مثبت سوچ کے لئے کام کرنا ہوگا تب جا کر ان بچوں کی زندگی سنور جائے گی اورقوم و ملت اور ملک کی ترقی و خوشحالی یقینی بن سکتی ہے۔