اس دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا ہے۔ کوئی دولت ، شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت، بھوک، افلاس اور محکومی کے ذریعے، کوئی صحت و تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اور معذوری کی صورت میں آزمائش کا سامنا کر رہا ہے۔
اوّل الذکر آزمائش سے سرخرو ہو جانا نسبتاً آسان ہے، مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے پاس بے تحاشا دولت یا اقتدار ہے تو وہ اس کے ذریعے دکھی انسانیت کی خدمت کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے لیکن دیگر کچھ آزمائشیں بہت سخت ہیں۔ مثلاً بہت زیادہ غربت، بھوک ، افلاس بیماری لیکن معذوری ایک ایسی کڑی آزمائش ہے جس کا اندازہ صرف اس میں مبتلا ہونے والے ہی کرسکتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی کل آبادی کا تقریباً 10فیصدحصّہ معذور افراد پر مشتمل ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں جموں و کشمیر نے اپنی معذور آبادی کوحاشیہسے کم کیا ہے۔سنہ2011مردم شماری کے مطابق جموں وکشمیر میں معذور افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے ۔معذور افراد ہر روز بہت سی مختلف قسموں کی رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ جسمانی، روئیوں یا نظام سے متعلق ہو سکتی ہیں۔ جداگانہ مطابقت پذیری کی درخواست یا شکایات کے جواب کا انتظارکرنے کی بجائے رضاکارانہ طور پر رکاوٹوں کو شناخت اور انہیں دور کرنا بہترین طریقہ ہے۔
معذور افراد کی فلاح وبہبود کے لئے سرکاری سطح پر کئی اسکیمیں مرتب کی گئیں ۔ان اسکیموں کے ذریعے معذور افراد کی فلاح وبہبود کو یقینی بنایا جارہا ہے جبکہ قوانین بھی موجود ہیں ،تاکہ جسمانی طور پر معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بنایا جاسکے ۔حالیہ چند برسوں کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی کہ معذور افرادکی کھیل کود کے ذریعے بھی باز آبادکاری یقینی بنانے کی کوششیں کی گئیں ۔کئی نوجوان معذورکھلاڑیوں نے نہ صرف مختلف کھیلوں میں جموں وکشمیر کی بلکہ ملک کی نمائندگی کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔
جبکہ اُنہیں اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے رکھنے کا مواقعے بھی فراہم ہوئے ۔تاہم ابھی بھی ان حقوق کے حوالے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ معذور افراد کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قوانین کو زمینی سطح پر سختی کیساتھ نافذ العمل میں لایا جائے ۔اس سلسلے میں اُ ن رضاکار تنظیموں اور رضاکاروں کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے ،جو معذور افراد کے حقوق کو اُجا گر کرنے میں نمایاں اور گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔جبکہ جعلی این جی اوز کے خلاف کریک ڈاﺅن کیا جائے جو معذور افراد کے نام پر اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں جبکہ ان این جی اوز کا محاسبہ کرنا بھی بہت ضروری ہے جو دولت کے حصول کے لیے جموں وکشمیر اور معذور افراد کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔سرکاری معذور افراد کے لئے کھیل کود ،تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں بھی مخصوص کوٹا رکھنا چاہیے ،تاکہ ایسے افراد با اختیار بن سکیں ۔