کھیل کود نوجوان پود کےلئے انتہائی لازمی عمل ہے کیونکہ اس عمل سے نہ صرف نوجوان جسمانی اور ذہنی طور تندرست رہتے ہیں بلکہ ان کھیلوں کی بدولت بچوں کو اپنی مہارت ،قابلیت و ذہانت ثابت کرنے کا بہترین موقع بھی مل جاتا ہے۔ کھیلوں کی بدولت ایک دوسرے سے پیار کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا بھی موقع ملتا ہے ۔جہاں تک ملک کے کھیل شعبے کا تعلق ہے یہ شعبہ روزبروز ترقی کی اور بڑھتا جارہا ہے ۔نئے کھلاڑیوں کو اپنا ہُنر دکھانے کابھر پور موقع مل رہا ہے۔
وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان کھلاڑیوں جن میںلڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں، نے نہ صرف ملکی سطح پر اپنالوہا منوایا ہے بلکہ عالمی سطح پربھی یہاں کے کھلاڑیوں نے مختلف کھیلوں میں کامیابی حاصل کی ہے ۔کھیل کود کے شعبے کو فروغ دینے کا ہی یہ پھل ہے کہ آج ملک میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں بہترین کھیل کا مظاہر کر رہی ہیں، جنہیں ایک دور میں گھر سے نکلنا بھی مشکل تھا اور عورتوں کے کھیل کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔وادی کشمیر کے درجنوںکھلاڑیوں نے مختلف کھیلوں میں نمایا ں کارکردگیکی بنا پر ملک کے لئے سونے ،چاندی اور پیتل کے تمغے حاصل کئے اس طرح ملک ،جموں وکشمیر ، اپنا اور والدین کانام روشن کر دیا۔آج کل ملک میں عالمی کرکٹ کپ کھیلا جارہا ہے اور ملک کے مختلف میدانوں میں عالمی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلے جارہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں کھیل شائقین ان کھیلوں کا لطف اُٹھاتے نظر آرہے ہیں۔بھارتی ٹیم کا جہاں تک تعلق ہے اس نے ابھی تک بہترین کھیل کا مظاہرہ کر کے ملک کے عوام کو خوش کر دیا ہے۔لیکن کھیل میں کسی ایک ٹیم کی ہار ہوتی ہے اور کسی کی جیت۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہارنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کے گھروالوں اور اُن کے رشتہ داروں کے ساتھ غلط سلوک کیا جائے۔
اُن کیجائیدادوں کو نقصان پہنچایا جائے۔گذشتہ دنوں کئی مرتبہ رہ چکے عالمی چمپین آسٹریلیا کو افریقہ اور بھارت سے بُری طرح ہار کا سامنا کرنا پڑا۔شری لنکا جیسی بہترین ٹیم کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔کھیل شائقینکو بہترین کھیل کا مظاہرہ کرنے والیٹیم کی تعریف ضرور کرنی چاہئے لیکن من پسند ٹیم یا من پسند کھلاڑی کو بُرا بھلا ہرگز نہیں کہنا چاہیے۔کل بھارت اور پاکستان کے درمیان جو میچ کھیلا گیا ،وہ کوئی سیاسی جنگ نہیں بلکہ ایک کھیل تھا ۔ جس میں ایک ٹیم کی جیت اور دوسری ٹیم کی ہار بہر حال ضروری تھی ۔اس پر رونا دھونا یا غمگین ہو نا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ کھیل کے اصل مقاصد پورے ہوئے ہیں یا نہیں۔کھلاڑیوں میں نظم و ضبط تھا کہ نہیں ۔اگر اس کھیل سے محبت کیبجائے نفرت پیدا ہو گئی ہے یا کھلاڑیوں کے درمیان نفرت اور عداوت بڑی ہے، پھر یہ انتہائی نقصان دہ مانا جائے گا۔کھیل کو اپنے اصل دائرے میں دیکھنا اور پرکھنا چاہئے نہ کہ اس دائر سے باہر نکل کر اس کو نفرت اور عداوت کا ذریعہ بنا دینا چاہئے جو کہ ہر ملک کے عوام کے لئے نقصان دہ بات ہے۔