بے روزگاری یا کہالت۔۔۔؟

بے روزگاری یا کہالت۔۔۔؟

جموں کشمیر میں سبھی لوگ اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ یہاں بے روزگاری ہے۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ ملک کے باقی حصوں کی طرح جموں کشمیر کی آ بادی کے تناسب میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ہر علاقے میں اسکول کالج اور یونیورسیٹیاں قائم ہو رہی ہیں جہاں سے روزانہ سینکڑوں کی تعد داد میں بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے فارغ ہو رہے ہیں۔انجینئر ،ڈاکٹر،اسکالر ،وکیل اور دیگرشعبوں سے وابستہ ماہرین کی قطاریں ہر طرف نظر آرہی ہیں ۔جہاں تک وادی کا تعلق ہے ابھی یہاں دیگر ریاستوں کی طرح صنعتیں یا دیگر پرائیوٹ کارخانے نہیں ہیں جہاں یہ لوگ بہ آسانی ملازمت حاصل کر سکیں ۔جہاں تک سرکاری محکموں کا تعلق ہے وہاں پہلے سے ہی لاکھوں کی تعداد میں ڈیلی ویجر برسوں سے معمولی اُجرت پر کام کر رہے ہیں اور سرکار کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے کہ وہ ان ڈیلی ویجروں کی ملازمت مستقل کر ے۔جہاں تک پرائیوٹ اداروں کا تعلق ہے ،وہاں ان اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کو بہت ہی کم تنخواہ مل رہی ہے جس پر مشکل سے وہ اپنے آپ کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔یہ بھی ایک وجہ ہے کہ عمر کی حد پار کرگئے یہ جوان لڑکے اور لڑکیاں ابھی تک شادی نہیں کر پائے ہیں کیونکہ ہر گھر سے یہی آواز سننے کو مل رہی ہے کہ ابھی ہمارا بچہ کچھ کماتا نہیں ہے لہٰذا اُس پر ازدواجی زندگی کا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔مشاہدے میں یہ بات بھی آرہی ہے کہ یہ نوجوان ذہنی تناﺅ کاشکار ہو چکے ہیں۔جہاں تک تعلیم وتربیت کا تعلق ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ تعلیم ہی بچے کے لئے روزگار کی سبیل بن سکتی ہے بلکہ اس کے لئے محنت،مشقت اور جُرات درکار ہے،جس کے لئے وادی کے جوان ہرگز تیار نہیں ہیں۔

وادی میں زمینداری کے ایام میں بیرونی ریاستوں کے مزدور یہاں سے کروڑوں روپے کماکے لے جاتے ہیںلیکن وادی کا یہ پڑھا لکھانوجوان خود کام کرنے کے لئے تیار ہی نہیںہے۔جہاں تک دیگر شعبوں کا تعلق ہے اب ان پر بھی باہر کے لوگوں نے قبضہ جما کے رکھا ہے۔ترکھان ہو یا رنگساز،گلکار ہو یا لوہار ہر سو باہر کے لوگ کام کرتے نظر آرہے ہیں ۔ان حالات میں یہ کہنا کہ یہاں بے روز گاری عروج پر سراسر غلط اور ناانصافی ہے۔

اسکولوں،کالجوں اور دیگر تربیت گاہوں میں مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو یہ تعلیم بھی دینی چاہئے کہ انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے محنت ،مشقت اور جُرت سے کام لینا چاہئے نہ کہ آرام طلب بن جائیں۔ان بچوں کو دنیا کے امیر ترین شخصیات کی زندگی سے متعلق پڑھنا چاہئے کہ کس طرح وہ لوگ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں اور آج ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں۔انتظامیہ کی بھی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان بچوں کو عملی طور کام کرنے کے گُر سکھائیںتا کہ وہ دوران تعلیم ہی چار پیسے آسانی سے کما نے کے قابل بن جائیں اور ہو سکے تو مختلف سرکاری محکموں میں کام کر رہے ڈیلی ویجروں کی ملازمت مستقل کرے تاکہ وہ بھی آرام دہ زندگی گزار سکیں اور ان کے بچے بھی بہتر تعلیم اور پرورش پاسکیں ۔

وادی میں پرائیویٹ صنعتوں کو مضبوط کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو بغیر کسی خوف و ڈر کے مختلف مالی اداروں سے آسان قسطوں پر قرضے فراہم کرے تاکہ وہ محنت کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہوں اور اس طرح بے روزگاری کے نام پر سیاست کرنے والوں کی بولتی بھی بند ہوجا ئے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.