جموں کشمیر میں گڈگورننس کے حوالے سے شہر و دیہات میں تقریبات کا اہتمام ہو رہا ہے اور ان تقریبات میں سیاسی،سماجی شخصیات کے علاوہ سرکاری افسران بہتر انتظامیہ کے حوالے سے اپنی آراءپیش کرتے ہیں۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتاہے کہ جموں کشمیر میں گزشتہ چار برسوں سے جس طرح انتظامیہ اپنا کام کاج چلارہی ہے، وہ قابل تعریف ہے ۔سرکاری محکموں میں کام کر رہے ملازمین اپنی اپنی ذمہ داری بخوبی بہتر دھنگ سے نبھارہے ہےں ۔اس سے قبل بھی یہ افسران تھے مگر تب رشوت ستانی ،کنبہ پروری کا بول بھالا تھا،اثر و رسوخ کی بنیاد پر سب کچھ ہو رہا تھا۔سرکاری خزانے کو مال غنیمت سمجھ کر دو دو ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔
اثر ورسوخ کی بنیاد پر ملازمین کو بھرتی کیا جارہا تھا، غریب دن بہ دن غریب ہوتا جارہا تھا جبکہ امیر لوگ خوب کمائی کرتے تھے۔جہاں تک سرکاری افسران کاتعلق تھا ،وہ وزیروں اور مشیروں کے غلام نظر آرہے تھے، اس کے برعکس آج کسی حد تک اس بگڑے نظام میںبہتری آچکی ہے۔سرکاری ملازمین جو سرکار سے اچھی خاصی تنخواہ حاصل کرکے علحیدگی پسندوں کے خیموں میں دن راتیں گزارتے تھے ،کسی حد تک جواب دہ بن گئے ہیں ۔وہ اپنی مرضی کے خود مالک ہوتے تھے جب مرضی ہوتی تھی دفتر آتے تھے جب چاہتے تو چھٹی مناتے تھے ۔آج ایسا نہیں ہو رہا ہے بلکہ سرکار نے بائیومیٹرک حاضری کا نظام رائج کر کے اُن ملازمین کی لگام کس لی۔اسی طرح آن لائن نظام کے تحت رشوت ستانی پرقددغن لگ گئی۔زمین دلالوں ،ڈرگ مافیاﺅں اور دو روخی پالیسی اپنانے والے ملازمین اور سیاستدانوں کا قافیہ حیات تنگ کیا گیا۔تعمیر و ترقی کے منصوبے عملائے گئے۔ہر گھر میں نل کےذریعے جل پہنچایا گیا،بجلی چوری کو رکنے کے لئے کارگر اقدامات اُٹھائے گئے۔
مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان چار برسوں کے دوران کچھ سرکاری ملازمین نے جان بوجھ کر ایسے کام کئے جن کی وجہ سے عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس طرح ایل جی انتظامیہ کو بد نام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔محکمہ بجلی میں تعینات چند افسران نے لوگوں کو ایک منصوبے کے تحت ستانا شروع کیا ،جس کی مثال حبک نسیم باغ علاقے میں تعینات ملازمین اور افسران ہیں جن کے بارے میں کئی مرتبہ اخبارات میں شکایتیں منظر عام پر آگئیں ۔پھر بھی ان ملازمین کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔اسی طرح محکمہ مال کے پٹواری صاحبان نے ڈیجیٹل جمع بندی کے بہانے احمدکی ٹوپی محمود کے سر پر رکھ دی تاکہ زمین مالکان سے اسی بہانے اچھی خاصی رشوت حاصل کی جائے۔لوگوں کا وقت ضائع کیا جارہا ہے ۔سرکاری زمین پر ناجائزہ قبضہ کرنے والوںکے خلاف مہم چلائی گئی ،اس مہم کی بھی بیچ راستے میں ہی ہوا نکال دی گئی ۔آخر کیوں ؟عوامی حلقوں میں اس طرح کے سوالات اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔اگر ان معاملات پر دھیان نہیں دیا گیا تو یہی کہا جائے گا کہ یہ انتظامیہ بھی سیاسی اثر و رسوخ کی نذر ہو گئی ہے۔اگر واقعی ایل جی انتظامیہ جموں کشمیر میں صاف و شفاف انتظامیہ کا اپناہدف پورا کرنا چاہتیہے، پھر ان مسائل کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ عام انسان کو بغیر کسی ابہام کے یکساں بنیاد پر انصاف مل سکے، تب جا کرگڈ گورننس کا جشن منایا جاسکتا ہے۔





