کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کا لمبا سایہ
جنگ بندی کے بعد کشمیر کا لمبا سایہ نہ صرف کئی افراد پر پڑنے والا تھا بلکہ مجموعی طور پر پورے ملک پر پڑنے والا تھا۔ زیادہ تر لوگوں کو اس سے پڑنے والے اثرات محسوس کرنا آسان نہیں ہے کہ اس نے ہماری پالیسیوں اور کارروائیوں پر کس قدر اثر ڈالا ہے اور انہیں مسخ کیا ہے جو کہ کسی بھی طرح اس سے جڑی ہوئی نہیں تھیں۔ تاہم اس نے در حقیقت کئی ایک مشکلات پیدا کی ہے حتیٰ کہ 22 سال بعد بھی ہمارا کوئی دستور نہیں تھا، نہ ہی ہمارے پاس کوئی قابل ستائش معاشی پروگرام ، خواندگی کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں اور خود تعاون والی دفاع کےلئے کوئی حقیقی بنیاد کی عدم موجودگی ۔
”جنگ بندی کے چند ماہ بعد کشمیر میں آئندہ کیا “کے موضوع پر میں نے ایک مقالہ لکھا۔ یہ مقالہ پنڈی سازش کے معاملے دستاویزات میںہے۔ اس مقالے کا مقصد اس بات کو ظاہر کرنا تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد بھارت کو رائے شماری کروانے کےلئے مجبور کرنے کےلئے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے اور وہ یقینا ایسا نہیں کرے گا اور دریں اثنا تاخیر اور وقت بھارت کے حق میں فائدہ مند ہوگا ۔جو وجہ اعلیٰ حلقوں میں پیش کی جاتی ہے وہ یہ تھی کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے سے پہلے ہمیں اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے لئے وقت پر درکار ہے۔ لیکن ایک سادہ لوح شخص بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اس دوران بھارت اپنے آپ کو کئی گناہ زیادہ مضبوط کر سکتا ہے۔ بنیادی طور پر اس فلسفے کے سلسلے میں یہ خیال ہے کہ کشمیر میں کچھ کئے جانے کی صورت میں جنگ ہوگی اور یہ کہ ہماری طاقت کی پیمائش دیگر بے شمار عوامل کو مد نظر رکھے بغیر صرف مادی اور تعدادی موازن سے پیمائش کرنی ہوگی جیسا کہ وہ اکثر اس قسم کی صورت حال میں کرتے ہیں۔ میں نے یہ مقالہ لکھ کر وزیر اعظم کو بھیج دیاور مجھے فوری طور پر وزیر اعظم کے ساتھ اڑھائی گھنٹہ گفتگو کےلئے پنڈی بھیج دیا گیا ۔ میں اس تاثر کے ساتھ واپس آیا کہ انہوں نے میرے نقطہ نظر کو سمجھا ہے اور اس کی ستائش کی ہے۔
تاہم کئی ماہ گزر گئے اور کچھ نہیں ہوا۔ دریں اثنا ہماری فوجی صلاحیت کو بڑھانے کے تعلق سے کوئی اقدامات نہیں لئے گئے۔ صرف ایک سمت ہمارے لئے کھلی تھی وہ یعنی کسی ایسی چیز یعنی عوامی ملیشا کو بڑھاوا دینا۔ نوجوانوںکو فوجی تربیت فراہم کرنا اور دیسی ہتھیاروں کی تیاری اس سے قبل میں وزیر اعظم کو شہروں کے اندر ورکشاپ میں چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری کی حوصلہ افزائی کے لئے10 لاکھ روپے کا مالی امداد مختص کرنے پر قائل کیا۔ مجھے اس وقت خوشگوار حیرانی ہوئی جب لوگوں نے مقامی طور پر اسٹین گن وار حتیٰ کہ 303 کارٹریج بنائی تھی۔ ان ہتھیاروں کی تیاری کی شاخ میں ابتدائی جانچوں سے جسے میں انجام دیا تھا۔ کامیاب تیاری کے یقینی امکانات سامنے آئے۔ لیکن اس کے چھ ہفتوں بعد میری غیر موجودگی میں اس پوری اسکیم کو آئی جی پولیس قربان علی خان کے مشورہ پر بند کروایا گیا کہ مقامی پیداوار کے نتیجے میں پاکستان کے لئے نظم و ضبط کی خطرناک صورتحال پیدا ہو گی۔
تقریباً ایک سال بعد میں نے ایک اور مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا۔ عبداللہ کے کشمیر میں ہنڈی کو پکنے دیجئے۔ اس مقالے میں ،میں نے اس بات کا مشورہ دیا کہ جیسا ک اب ہم اقوام متحدہ کے مشاہدین کی موجودگی میںجنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے، اب ہمارے لئے درست اور ضروری لائحہ عمل مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضہ کے خلاف ان کی اندرونی آزادی کی تحریک کو مضبوط بنانے اور اس میں اضافہ کرنے کے لئے لوگوں کا تعاون کرنا ہے۔ اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور بر سر اقتدار لوگوں نے اقوام متحدہ کے پاس اپنی درخواست کو دہرانے تک مطمئن نظر آئے۔
لیکن پھر ایک بار یہ کسی بھی سمجھدار شخص کے سامنے یہ بات واضح تھی کہ اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو اقوام متحدہ کچھ نہیں کر سکے گا جنگ بندی کے معاہدے میں اقوام متحدہ نے بھارت کے ذریعے رائے شماری نہ کروانے پر کسی کارروائی کا وعدہ نہیں کیا تھا اور اس کے علاوہ اقوام متحدہ کےلئے اس کے علاوہ کرنے کے کچھ باقی ہی نہیں تھا۔ بھارت کو اس بات پر خوشی تھی کہ معاملہ جوں کا توں ہے کیونکہ اسے وہ سب کچھ مل گیا تھا جس کی اسے خواہش تھی۔ پاکستان کسی بھی طریقے سے بھارت کو دھمکی نہیں دے رہا تھا اور کشمیر میں داخلی آزادی کی تحریک کو مدد نہ کرتے ہوئے امن کے لئے کہیں بھی کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس لئے اقوام متحدہ کی مداخلت کےلئے کوئی جواز نہیں تھا۔
ان معاملات میں میرے نظریات اب تک کافی معروف تھے۔ انہیں چھپانے کی کوئی وجہ نہیں تھی اور میرے لئے درست بات فوج چھوڑنا تھی ۔ در حقیقت میں نے دو بار اس خواہش کا اظہار کیا، تو مجھے بتایا گیا کہ اس وقت جو صورت حال تھی، ایسے وقت میں ایسا کروں تو میں غدارٹھہرایا جائے گا۔ تاہم جس چیز نے مجھے استعفٰی دینے سے حوصلہ شکنی کی تھی وہ یہ تھی کہ فوج سے باہر کشمیر کے کاز کےلئے میرے لئے کچھ کرنے کے امکانات مزید کم تھے ۔ قائد اعظم کا انتقال ہو چکا تھا ۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان آرزو مند اور ہمدرد تھے۔ لیکن ان کے گرد موجود مشیر احتیاط اور تاخیر کی وکالت کرتے تھے۔ کوئی حقیقی پارلیمنٹ یا حزب مخالف کا سایہ نہیں تھا کہ جس کے سامنے میں مسئلہ رکھ سکوں۔ دستور کی غیر موجودگی میں عوامی انتخابات کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ اس کے بر خلاف ایک جمہوری ملک میں لوگ اس قسم کے اختلاف آراءکو عوامی پلیٹ فارم پر لا سکتے ہیں۔
دسمبر 1950 میں مجھے ترقی دے کر میجر بنایا گیا اور ساتھ ہی مجھے جی ایچ کیو پنڈی میں چیف آف دی جنرل اسٹاف بنایا گیا ۔ اس وقت جنرل ایوب خان ڈپٹی کمانڈر ان چیف اور چند ہفتوں میں کمانڈر ان چیف کے طور پر عہدہ لینے والے تھے ۔ میں نے کھلے طور پر ان کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا کہ نہ تو میری ترقی اور نہ ہی چیف آف دی جنرل اسٹاف کے طور پر میری تقرری کشمیر کے معاملے پر حکومت کے ساتھ میری معلوم اختلاف رائے کی وجہ سے مناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بذات خود میرے لئے اس کی درخواست کی تھی اور مجھے اس تقرری کو قبول کرنا ہوگا۔ ایسا لگا کہ میں کچھ نہیں کر سکوں گا ۔ حالانکہ دو نکات کے بار میں مجھے پورا یقین تھا۔ ایک یہ کہ ہر ماہ کی تاخیر کا مطلب کشمیر کے تابوت میں مزید ایک کیل ٹھوکنا ہے اور دوسرا یہ کہ نہ تو جنرل ایوب خان اور نہ ہی اس وقت کی حکومت اس کے تدارک کے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
کشمیر پہلے ہی فاصلے میں مدھم ہوتا جا رہا تھا اور جنرل ایوب خان روس اور چین کے خطرے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ جن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چمٹی حرکت جس کی گرفت میں پاکستان آجائے گا اور پاکستان اخروت کی طرح ٹوٹ جائے گا۔ ان کے دل میں یہ خیال کس بات اور کس نے پیدا کی ۔ مجھے اس وقت معلوم نہیں تھا یہ خوف تاہم واضح طور پر غیر معقول بھی نظر آرہا تھا۔
روس کا توسیع پسندانہ خدشہ زیادہ قابل فہم تھا اور موجود تھا لیکن ایران کی سمت میں تھا، کیونکہ روایتی روسی کو بحرہ عرب میں بصرہ جیسی بندرگاہ کی ضرورت تھی اور ایران کے بے پناہ تیل کے ذخائر کو مغربی قوتوں کومحروم رکھنے کے لئے۔ لیکن اس قسم کی توسیع جیسا کہ نقشہ دیکھنے پر ظاہر ہوتا ہے۔ راست طور پر ایران کے روس کے ساتھ مشترکہ سرحد پر ہوگی۔ اس تعلق سے افغانستان کی طرح مغربی پاکستان روس کے راست راستے میں نہیں ہے۔ اسی طرح مشرق میں چین کی توسیع فطری طور پر جنوب مشرق میں براہ راست تھائی لینڈ اور غالباً برما ہوگی۔ وہاں پر بھی مشرقی پاکستان چین کی راہ میں نہیں پڑتا۔
حقیقت میں اس وقت مغربی طاقتوں کو سوویت یونین اور چین کے اندرون کو گھیرے میں لینے کےلئے ہوائی اڈوں کے ایک حلقے کی ضرورت تھی۔ مغرب میں اس قسم کا اڈے یو کے یا مغربی یورپ ہو سکتا ہے۔ مشرق بعید میں جاپان فارموسا اور فلپائن ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن درمیان میں کوئی اور علاقہ نہیں دیکھا گیا۔ ترکی اور ایران روس کے زد میں آنے والی سرحد رکھتے ہیں۔ وہ زیادہ محفوظ نہیں ہو سکتے ۔ افغانستان نہ تو اس کا خواہش مند ہوگا اور ن ہی اس کے لئے محفوظ ہوگا۔ مصرف ( اس وقت شاہ فاروق کے ماتحت) بہت دور تھا۔ اس وجہ سے صرف بر صغیر ہندو پاک جہاں پر حد اور حفاظت دونوں ممکن تھے۔ بھارت نے مشرق مغرب کی طاقتی لڑائی میں شمولیت اختیار کرنے سے انکار کر دیا تھا اور پاکستان میں عوام عمومی طور پر غیر ملکی طاقتوں سے کسی وابستگی کی توقع نہیں رکھتے تھے۔

یہاں پر اس قسم کے عہد و پیمان، زمین تیار کرنی ہوگی۔ میں اس غور و خوض کا کوئی فریق نہیں تھا ۔ اس لئے نچلی سطح پر پھیلا سکا۔ میں نے بریگیڈیئر حبیب اللہ (بعد میں لیفٹنٹ جنرل ) سے یہ خیال سنا تھا کہ پاکستان ایک خوبصورت عورت کی طرح ہے، جسے اپنے آپ کو سب سے زیادہ قیمت دینے والے کو فروخت کرنا چاہئے اور بالآخرامریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات اس قسم کے بیان سے بہت دور نہیں تھے۔ زیادہ قابل قبول وجہ جو آہستہ آہستہ ترقی پائی تھی وہ یہ تھی کہ کشمیر کو آزاد کرنے کےلئے ہیں۔ بھارت سے اپنے دفاع کے لئے طاقت درکار ہے۔ لیکن بارہ سالہ قرضے امداد ہتھیاروں اور گولہ بارود کے اجتماع نے جنرل ایوب خان کو 1965 میں سترہ دنوں سے زیادہ لڑنے کے قابل نہیں بنایا ۔ اس کے بعد ان کی اخروٹ توڑنے والی چمٹی کے ساتھ جس کی طرف انہیں مڑنا تھا۔ لیکن ان کے پاس مددکے لئے اور دوسرے ساتھ امن کےلئے ۔
23 فروری 1951 کو میرے گھر پر آخری میٹنگ منعقد ہوئی، جو کہ پنڈی سازش کے طور پر معروف تھی۔ اس وقت دیگر لوگوں کے ساتھ پاکستان ٹائمز کے مدیر فیض احمد فیض اور محمد حسیب عطا موجود تھے۔ 7گھنٹوں کے غور و خوض کے بعد اس میٹنگ نے فیصلہ کیا کہ مجوزہ کارروائی کو واپس نہیں لیا جائے۔
میٹنگ کے سامنے میری تجویز کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں حکومت کے وجود میں آنے کے بعد کشمیر میں کارروائی کو مقدم رکھنا ہوگا۔ جو ہمیں تقویت دے گی۔ گورنر جنرل کے نام لکھا گیا مجوزہ اعلامیہ میرے ہاتھوں سے لکھا گیا تھا۔ جو کہ پنڈی سازش کے معاملے کے ریکارڈز میں اب بھی موجود ہے ۔ اس اعلامیہ کی اہم خصوصیات میں پرانی حکومت کی بر طرفی ایک نگران حکومت کی تشکیل بالغوں کی رائے شماری پر مشتمل عوامی انتخابات کے لئے تاریخ، دستوری ڈھانچے کی تشکیل کے لئے ایک قانون ساز اسمبلی، فوج کی غیر جانبدارانہ مشنری کے استعمال کے ذریعہ انتخابات میں غیر جانبداری کو یقینی بنانا تمام جنرلوں پر مشتمل ایک فوجی مشاورتی کونسل۔
یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ اس اعلامیہ اور جنرل ایوب خان نے بعد میں جو کچھ کیا ان میں مماثلت نہیں ہے۔ انہوںنے دو بار دستور کو منسوخ کیا، جبکہ یہ اعلامیہ ایک جمہوری آئین کو واپس لانے کےلئے تھا۔ ملک میں دو بارمارشل لا نافذ کیا، جبکہ یہاں پر عمومی قانون کے ساتھ کسی قسم کی مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انہوں نے دو بار آمریت کو لایا جبکہ یہاں منشا یہ تھی کہ دستور کو بالائے طاق رکھ کر آمر بننے کی راہ میں حائل خطرات کو ختم کرنا تھا۔ اس وقت بہت کچھ کہا گیا تھا اور کہاجاتا رہا حائل خطرات کو ختم کرنا تھا۔ اس وقت کچھ کہا گیا تھا اور کہا جاتا رہا ہے کہ اگر م اس وقت کارروائی کرتے تو بہت سے لوگ مارے جاتے اور اس جیسی دوسری باتیں۔ یہ مکمل طور پر غلط ہے۔ سازشی مقدمے کے شنوائی کے دوران خود استغاثہ کے گواہوں نے وعدہ معاف گواہوں نے عدالت کے مخصوص سوالات کے جواب میں اس بات کا حلفیہ بیان دیا کہ کسی کو بھی گولہ سے مارنے کا ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی کو گرفتا رکرنے کا ارادہ تھا۔ ٹریبیونل کے چیرمین جسٹس عبدالرحمن کو جو جوابات موصول ہوئے تھے، ان سے انہیں اس بات سے کافی تعجب ہوا کہ میں نے اس بات کا حکم دیا تھا کہ بندوقوں کو ان لوڈ رکھا جائے او ر یہ کہ کوئی بھی گرفتاری کے قابل نہیں ہے۔ اس بات کے باوجود کی یہ بات سب کو معلوم تھی کہ انہیں یا تو گولی ماری جاتی یا گرفتار کیا جاتا ان تمام کا مقصد اپنے لئے حکومت کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ میرے نقطہ نظر سے 23 تاریخ کے فیصلے نے معاملے کو ختم کر دیا تھا ور مجھے اب مز کچھ نہیں کرناتھا۔ میں نے نہیں سوچا تھا کہ حکومت کو معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوا تھا لیکن میں کارروائی سے آگا نہیں تھا جو میرے خلاف شروع کی گئی تھی۔ ہماری گرفتاریوں کا منصوبہ پنجاب میں انتخابت کے موقع پر 9مارچ 1951کی صبح کیا گیا تھا۔
گرفتار سے پہلے والی رات لیفٹنٹ کرنل صدیق راجا جو کہ حکومت کے وعدہ معاف گواہ بننے والے تھے اور جنہوں نے پہلے بھی اپنی رپورٹ جنرل ایوب خان کو سونپی تھی وہ مجھے اس بات کی اطلاع دینے کےلئے آئے کہ میرے خلاف کارروائی کی جائے گی اور مضبوط افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ انہوں نے بظاہر میری حفاظت کے تعلق سے تشویش کا اظہار کیا اور مجھے مشورہ دیا کہ مجھے احتیاط برتی ہوگی ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اپنی کارروائیوں کے لئے تمام ذمہ داری قبول کروں گا۔ میں نے توقع کی تھی کہ اگر میرے خلاف کوئی کارروئی کی جائے گی تو یہ کارروائی قانون کے مطابق ہوگی یعنی ایک افسر کے لئے نظر بندی ، کمانڈر ان چیف کے سامنے حاضری ایک چارج شیٹ تحقیقات اور اس کے بعد کورٹ مارشل اگر ایسا ہے تو میرے پاس چھپانے کےلئے کوئی بات نہیں ہوگی۔یہی وجہ تھی کہ میں نے کسی بھی کاغذات خطوط وار دستاویزات وغیرہ کو تباہ نہیں کیا اور گزشتہ رات کے باوجود اس کے کہ مجھے دو مختلف ذرائع سے انتباہ دیا گیا تھا۔ میں نے ایک پُر سکون نیند نکالی مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ کسی بھی قانونی طریقہ کار پر بالکل عمل نہیں کیا جائے گا۔
چنانچہ جب میں پُر سکون نیند میں تھا ، جوانوں نے صبح کے ابتدائی اوقات میں میرے گھر کا محاصرہ کیا اور کامیابی کے ساتھ ایک چوکیدار کو اپنے قبضہ میں کرلیا۔اس کے بعد صبح 6 بجے میجر جنرل حیاءالدین نے میرے بیڈ روم کی کھڑکی کو کھٹ کھٹایا اور انہوں نے مجھے سے کہا کہ انہیں کسی ضرورت کام سے فوری طور پر مجھ سے ملنا ہے تو میں نے فوری طور پر جوتے پہنے بغیر اپنے اسٹدی ڈور سے ان سے ملاقات کےلئے چلا گیا۔ جیسے ہی میں باہر آیا تینوں طرف سامنے اور دونوں پہلوﺅں سے سنگینوں اور بندوقوں سے لیس جوان میری طرف لپک پڑے۔
اس سے قبل ایک بار جنگ کے دوران لڑائی میں مصروف جاپانی بھی اسی طرح میری طرف لپکے تھے۔لیکن 20 کے مقابلے میں 1نہیں اور اس وقت نہیں جبکہ میں غیر مسلح تھا میرے پاس سوچنے کے لئے ایک سیکنڈ سے بھی کم لمحہ تھا ۔ میں نے انہیں آنے دیا اور میں نے سوچا کہ مجھے متاثر کرنے کی سنسنی خیز ڈرامے کی مکمل ناکامی تھی۔ اس بات سے جوانوں کو فاصلے پر ہی روک دیا۔ کوئی سنگین یا بندوق میرے جسم کو نہیں چھوئی اور چند ہاتھ جو میرے کاندھوں پر رکھے گئے تھے واپس ہوئے۔
مجھے یہ بتانے کے لئے ایک کال کی کافی تھی کہ میں گرفتار کیا جانے والا ہوں۔ لیکن اس معاملے میں بہت زیادہ سنگین سمجھا گیا۔ فوجیوں کو چوکس کر دیا گیا تھا اور ان تمام لوگوں کو بظاہر کسی قسم کے وحشیوں کے ذریعے گولیوں سے اڑا دیا جانے والا تھا۔ کافی مدت کے بعد مقدمے کی شنوائی کے دوران استغاثہ کی کاونسل مسٹر اے کے بروہی اب بھی مسلسل طور پر عدالت کے سامنے میرے پہلو میں لوڈ کی ہوئی سروس روالور پائے جائے گا ،حوالہ دے رہے تھے یہ کامیابی لائن جنرل ایوب خان کے دماغ سے نکلی تھی کہ میری مدد کرنے کے لئے میری کال پر تقریباً دو ڈویژن میرے پاس موجود ہیں کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ی دو ڈویژن کہاں پر تھیں۔ یہ فوج میں نہیں ہو سکتیں کیونکہ انہیں بریگیڈر حبیب اللہ اور لیفٹنٹ کرنل صدیق راجا کے بارے میں معلوم تھا اور اس لئے کہ وہ بذات خود تمام ڈویژنل کمانڈر کے ساتھ رابطے میں تھے اور بنا کسی ثبوت کے اس طاقت والی کوئی خانگی فوج جس میں تیس ہزار جوان تھے ،نہیں میرے گھر کے اندراور آس پاس چھپایا نہیں جاسکتا۔ یہ بات نا قابل یقین لگتی ہے ۔ لیکن یہ بات حیران کن تھی کہ کسی شخص کا تصور کس حد تک جا سکتا ہے۔ ایک ایسے شخص کے لئے جو روسی چمٹے کو ہمالیائی پہاڑوں پر وجود میں لا سکتا ہو، اس کے لئے یہ بات بہت زیادہ حیران کن نہیں ہوگی۔

یہ جوانوں کے ساتھ گیٹ کے باہر منتظر پولیس کار کے پاس چلا گیا ۔گیٹ پر ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس نے معذرت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کی اور پیچھے سے میجر جنرل حیاءالدین دو بارہ ظاہر ہوئے۔ دوسروں کاندھوں سے انہوں نے مجھے گورنر جنرل کی طرف سے جاری فرمان میرے ہاتھوں میں تھمایا۔ جس پر مجھے پڑھ کر دستخط کرنا تھا۔ اس فرمان میں لکھا تھا کہ اس کے موصول ہونے تک مجھے انڈین آرمی ایکٹ کے سیکشن 13 کے تحت سروس سے خارج کیا جاتا ہے۔ میں نے اس حکم نامے پر لکھا کہ یہ حکم نامہ غیر قانونی ہے کیونکہ میں انڈین آرمی ایکٹ کے تحت نہیں آتا مجھے جس کے تابع بنایا گیا ہے۔ گورنر جنرل کو کسی افسر کو معذول کرنے کا اختیار نہیں ہے۔میں نے مزید یہ بھی لکھا کہ میرے سروس میں ہونے کے دوران شہری پولیس کے ذریعے میری گرفتاری بھی غیر قانونی اور غلط ہے۔ ان تبصروں کے ساتھ میں نے انہیں کاغذ واپس تھما دیا اور اس کے بعد ایک نا معلوم منزل کی طرف ہمارا سفر شروع ہوا۔
ابتدائی تین ماہ تک مجھے اور دیگر لوگوں کو عملی طو رپر الگ الگ جگہوں میں علیحدہ قید میں رکھا گیا۔ ہمیں کوئی اخبار، خطوط، رشتہ داروں کے ساتھ رابطہ ، وکیلوں کے ساتھ مشورے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کوئی چارج شیٹ دی گئی۔ اس کے بعد حیدر آباد کی جیل میں مقدمے کی خفیہ شنوائی شرو ع ہوئی۔ مقدمے کی شنوائی کے دوران 285 گواہوں کا استغاثہ کے لئے معائنہ کیا گیا۔ دفاع کے پاس کوئی گواہ نہیں تھا۔ یہ مقدمہ راولپنڈی کا نسپریسی اسپیشل ایکٹ کے تحت چلایا گیا جو کہ ایک بے ایمان وکیل کی دماغی اپج تھی۔ جسے ٹریبونل کے ایک جج نے عدالت میںخوشی سے کہا کہ یہ سب سے زیادہ غیر انسانی قوانین میں سے ایک ہے جس کا انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی مشاہدہ کیا ہو۔ یہ ایکٹ ہمیں اپیل کی حق سے محروم کرتا ہے، یہ آگے انڈین آرمی ایکٹ کی شرائط کا مجھ پر اطلاق کرتا ہے۔ جس کا تعلق ماضی سے ہے۔ حالانک ماضی کے قانون کا اطلاق اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے چارٹر سے ٹکراتا ہے، جسے ہم نے قبول کیا ہے۔ یہ قانون ثبوت کے بنیادی اصولوں کے قانون کو توڑ مروڑ کر استعمال کیا جاتاہے جس میں پولیس کے بیانات ور ڈائریوں کو قابل قبول ثبوت مانتا ہے۔ ایف آئی آر (ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ) کو متعلقہ معائینہ کے لئے آدمی کو پیش کئے بغیر قبول کی گئی۔ اس کے نتیجے میں سامنے آنے والا نتیجہ غالباً قانون اور مقدموں کی تاریخ میں منفرد ہے۔ متعدد صفحات پر عمدہ انگریزی فقروں اور ادبی طرز تحریر اور لا طینی امریکی پلاٹ میں لکھا گیا تھا۔ ایف آئی آر واضح طور پر یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اسے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر ملکی شخص کے ہاتھوں سے لکھاگیا ہے ۔یہ بات کہی گئی کہ اسے ایک پاکستانی سب انسپکٹر نے اپنی طرف سے منسوب کیا تھا۔ جس کی ناقص تحریر اور بے شمار بنیادی ہجے کی غلطیاں اور خامیاں کسی دوسرے کی لکھی تحریر کو درست طور پر نقل کرنے میں اس کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ جب میرے دفاعی وکیل سہروری نے اسکے بعد پاکستان کے وزیر اعظم اس بات کی طرف عدالت کی نشان دہی کی، اس نے اس معاملے کو مستحکم کیا۔ پہلے تو مسٹر بروہی نے وعدہ کیا کہ اس شخص کو ثبوت دینے کےلئے پیش کیا جائے گا۔ لیکن مہینوںپر مہینے گزر گئے لیکن آخر میں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ شخص فرار ہے اور اس کا کہیں بھی پتہ نہیں لگ سکا۔ چند دنوں بعد اس وقت اس کی مکمل طور پر تردید کی جب ایک اور استغاثہ کا گواہ کرنل سلطان جو کہ غالباً مسٹر بروہی کےلئے نا معلوم تھے کہ سلطان سب انسپکٹر کے بھائی تھے۔ حلفیہ بیان میں کہا کہ سب انسپکٹر اب بھی سروس پر تھے۔ پنڈی میں موجود ہیں اور دستیاب ہیں۔ اس کے باوجود انہیں عدالت میں نہیں لایا جا سکا۔ کیونکہ وہ اس شاہکار کے راقم نہیں ہو سکتے تھے۔ حالانکہ دو وعدہ معاف گواہوں نے ایک مجسٹریٹ کے ذریعے معافی دئے جانے کے بعد عمومی انداز میں بوت پیش کیا، یہ قانون اس قدر شاطرانہ طور پر فراہم کیا گیا کہ 45 دیگر نے معافی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے ثبوت پیش کیا کہ وہ اس سازش کا حصہ تھے۔ ان کے خود کے ملوث ہونے کے بیانات دینے کے ٹریبونل پر ان کے مقدمہ چلانے پر پابندی عائد کی گئی۔اس مقدمے کو ختم ہونے کےلئے 18ماہ لگ گئے اور دی گئی سزائیں، 14 سال کی نقل و حمل سے لے کر 4سال قید با مشقت تک تھیں۔ اس مقدمے کی کارروائی تقریباً 3000 صفحات پر مشتمل تھی اور فیصلہ مزید 1000 یا زائد صفحات پر مشتمل تھا۔ ہمیں نقول یا نوٹس لینے کی اجازت نہیں دی گئی تاکہ ہم یہ جان سکے کہ آیا اس بیان میں کوئی سچائی تھی یا نہیں کہ ایک جج نے اختلاف رائے ولا فیصلہ لکھا تھا یہ مکمل ریکارڈ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے ۔ مئی 1954 کے اختتام پر گورنر جنرل غلام محمد نے کابینہ کو بر طرف کیا اور اسمبلی تحلیل کی۔ بر طرف شدہ اسمبلی کے تعلق سے سندھ چیف جسٹس نے اس بات کا اعلان کیا کہ اسمبلی کی تحلیل غلط تھی۔ وفاقی عدالت نے گورنر جنرل کو اس مشکل سے جزوی طور پر بچایا۔ لیکن اس پورے عمل میں سے پہلے منظور کردہ چند قوانین کے تعلق سے سوالات اٹھائے گئے۔چنانچہ اپریل 1955 میں لاہور ہائی کورٹ نے ہمیں ’ ہیبیس کورپس پٹیشن ‘کے تحت رہا کر دیا۔

حکومت نے چند گھنٹوں کے اندر ہمیں دو بارہ گرفتار کر لیا لیکن تین ہفتوں بعد جسٹس ایم آر کیانی کے تحت بنچ نے ضمانت پر ہماری رہائی کا حکم صادر کیا۔ تاہم مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا اور اس لئے ہم نے خود ہی نئی حکومت کی توثیق پر سوال اٹھاتے ہوئے کارروائی کا آغاز کیا جن میں جنرل ایوب خان وزیر دفاع کی حیثیت سے بھی ایک ممبر تھے۔ اس کے بعد میں نے صدر اسکندر مرزا سے ملاقات کی اور انہوں نے مجھے بتایا کہ پوری کابینہ اس معاملے کے خاتمے کےلئے راضی ہے لیکن جنرل ایوب خان نے تن تنہا ہمارے واپس جیل جانے پر اصرار کیا اور بظاہر ایوب خان کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہیں خوف تھا کہ اگر میں باہر نکلا تو میں انہیں گولی مار ڈالوں گا۔ میں نے ان سے سوات کے گورنر کے کمرے میں ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ میرا گولی مارنے کا ارادہ نہیں ہے۔
جب اکتوبر 1955 میں نئی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا اور حکومت نے پنڈی سازش خصوصی ایکٹ کو منظور کرنے کی کوشش کی تو حکومت کو حزب ا ختلاف کے ساتھ کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر باتفاق رائے سے اسے منظور کر لیا گیا لیکن صرف اس شرط پر کہ کسی بھی ملزم کو جیل رسید نہیں کیا جائے گا۔ مسٹر کیتھ کالارڈ کے مطابق 1957 میں شائع ہونے والی کتاب پاکستان میں صفحہ 279 میں سازشوں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کا بنیادی مقصد کشمیر پر فوجی حملہ تھا وہ مزید لکھتے ہیں، اس نظریہ کے حتمیٰ شواہد کو عام نہیں کیا گیا۔
میں نے رہائی کے کچھ مہینوں بعد 1956 میں 30 صفحات پر مشتمل ایک پرچہ تحریر کیا جس کا نام تھا مسئلہ کشمیر کو حل کرنےکا طریقہ اس کے 5000 کاپیاں چھپی ہوئی تھیں۔ یہ بھارتی پارلیمنٹ میں ایک اہم موضوع بحث بن گئی اور انڈین پریس میں کچھ اخبارات نے شہ سرخیاں بھی بنائیں ۔ بھارتی پریس کی اصل بات یہ تھی کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی اپیلوں کا اعادہ کرنے سے اقوام متحدہ کو ممکنہ سوالوں کے گھیرے میں نہیں لایا جا سکتا ہے کیونکہ حقیقت میں سلامتی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ہمیں مقبوضہ کشمیری عوام کو ان کی اپنی آزادی کی آواز بلند کرنے میں مدد فراہم کرنا ہوگی اور اگر وہ مدد کرتے ہیں تو بھارتی حکومت پاکستان پر بہتر مداخلت کا الزام عائد کر دے گی کیونکہ اس سے موجودہ بین الاقوامی امن کو خطرہ لاحق ہوگا اور تب ہی اقوام متحدہ کو ایک بارپھر اس مسئلے کا نوٹس ملے گا۔ اگر بدترین واقعہ رونما ہوا اور بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ،تو دنیا اس کے خلاف مداخلت پر مجبور ہوگی۔ کسی بھی صورت میں پوری ہندوستانی فوج صرف مغربی پاکستان کے آدھے حصے کو زیر کرنے کےلئے کافی نہیں ہوگی۔
صدر اسکندر مرزا نے خود ہی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا کہ ہمیں اس طرح کی داخلی کارروائی کی کیا ضرورت ہوگی۔ میری وضاحت پر وہ حیرت زدہ تھے کہ کشمیر کے اندر ایک وقت پر صرف 500 مرد کافی ہوں گے۔ کشمیر کے اندر کا علاقہ مثالی طور پر گوریلا اور تخریب کاری کی کارروائیوں کے لئے موزوں تھا۔ ایک ایک بڑی سڑک جو چند سو میل لمبی ہے ہر ایک گلیوں کے موڑ پر جو جنگلاتی پہاڑیوں اور وادیوں میں ان گنت پلوں اور نہروں سے گزرتی ہے۔ یہ سڑک اور بجلی فراہمی کی لائن ٹیلیفون اور ٹیلی گراف لائنیں ایک ساتھ چل رہی ہیں ،ہر جگہ ممکنہ طور پر محفوط نہیں رہ سکتی ہیں۔ اس لائف لائن کے ساتھ ہی کشمیر کی پوری تجارت کو لے جانے والی بیشتر سڑک اور ندی کی آمد و رفت بھی بے نقاب ہو گئی تھی ۔ میرا زور کم سے کم تعداد کے استعمال پر مرکوز تھا، تاکہ میرے پاس مردوں کی کم از کم ایک ایسی جوڑی ہو جو کام کرنے کے لئے خود کو چند میلوں سے منسلک رکھیں۔ اس طرح ان کا پتہ لگانا تقریباً نا ممکن ہو جائے گا اور انہیں فائر لائن کو عبور کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی جو اتنی جگہوں پر اس حد تک کھلی ہوئی تھی کہ اس کے آس پاس مردوں اور جانوروں کی غیر مجاذٹریفک مستقل طور پر جاری رہتی ہے۔
ان کو ترجیح طور پر مقامی افراد یا کم از کم مقامی کپڑوں میں رہنا ہوگا جو خود کش حملوں کے لئے بارود سے لیس ہوں اور تار کاٹنے کےلئے کٹر سے اپنی خود حفاظت کےلئے ہر ایک کے پاس چاقو یا چھوٹی سی مقامی ساخت پستول ہو سکتی ہے۔ انہیں پولیس کے خلاف لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ ان کا ہدف غیر منظم لمحہ، الگ تھلگ تاروں اور غیر محفوظ نقل و حمل ہوگا، ان کی جگہ پر رکھنے کےلئے 500 کا دوسرا بیچ ہونا ضروری ہے اور تربیت کے تحت 500 کا تیسرا بیچ ہونا ضروری ہے ۔ ان کی تکنیک میں صبر بڑی بڑی سرگرمی، استقامت اور راز داری و صوابدید ہونا چاہئے ۔انہیں 12 سے 18ماہ کی ضرورت ہوگی جو غیر مخصوص انداز میں کام کریں گے اور صرف اس صورت میں مقبوضہ کشمیر کے لوگ خود بھی حقیقی حوصلہ افزائی کریں گے۔ اس پورے منصوبے پر 60لاکھ لاگت آئے گی ،جب صدر نے پوچھا کہ یہ رقم کہاں سے آسکتی ہے، تو میں نے پی آئی ڈی سی کے چیرمین کے پاس بھیج دیا۔ تھوڑی دیر بعد فوراً ٹیلیفون پر تصدیق کی کہ کچھ لوگ اس اسکیم کو مالی اعانت کرنے پر راضی ہیں۔ منصوبے کے اصل انعقاد کے لئے میں نے تجویز پیش کی کہ یہ فوج کے ماتحت ہونا چاہئے۔
صدرنے مجھ سے مزید ایک سوال کیا کہ لاہور سے کیسے دفاع کیا جائے ۔ اگر بھارتی جارحیت کا فیصلہ کریں تو بھارتی کوچ کو کیسے سمجھایا جائے گا جبکہ لاہور ایک مکمل طور پر ملک کا مرکز ہے۔ اس لئے مناسب دفاع شہر کے آس پاس گہری اینٹی ٹینک خندقوں کا طریقہ ایک بہت اہم اور وسیع نظام ہے۔ پھر یہ کہ تقریباً 54 ٹینکوں کی ایک ٹینک ریجمنٹ کی قیمت کےلئے ہم 60 سے 65 بندوقوں کے ساتھ اینٹی ٹینک گنوں کی5 ریجمنٹ خرید سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چند طیارہ شکن توپیں لاہور میں ہونا چاہئے۔ مزید یہ کہ اس علاقے میں ہمارے شہروں کے ذریعہ ایک بڑی مدد شہر ملیشیا سے حاصل کی جاتی ہے جو با قاعدگی سے بریگیڈ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ یہ کہ ماری فوج جو بھی بکتر بند ہو سکتی ہے یا دوسری فوج کو بچا سکتی ہے وہ ایک وسیع پیمانے پر بطور موبائل اسٹرئیکنگ فورس کے لاہور سے بہت دور تعینات ہوگی۔
اگلی بار تین ماہ بعد جب میں صدر سے ملا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جرمن ٹانک کے مشور کارپوریشن جنرل گڈیرین کا بھی یہی مشورہ ہے کہ لاہور کا جواب خندق اور اینٹی ٹینک گنیں ہیں۔ چنانچہ صدر نے کہا کہ لاہور کی سیکورٹی کے بارے میں خود کو مطمئن کرکے جنرل ایوب خان کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اسی اسکیم کے پیش نظر مقبوضہ کشمیر میں آگے بڑھیں۔ حتیٰ کہ ایوب خان نے اس مقصد کے لئے ہتھیاروں کی خریداری کے لئے اٹلی جانے کےلئے وقت مانگا۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ اٹلی سے کونسا ہتھیار حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اور نہ یہ معلوم کہ یہ کام واقعتا کبھی شروع ہوا بھی تھا یا نہیں۔ ہاں یہ ہو کہ ان ہی دنوں مقبوضہ کشمیر میں کچھ چھوٹے دھماکے ہوئے اور ان کو اپنے پرچے سے جوڑتے ہوئے بھارت نے مجھ پر فوری طور پر ان سرگرمیوں کو چلانے کا الزام لگایا۔
صرف ایک بار کسی خاص استقبالیہ پر نئے وزیر اعظم ملک فیروز خان نے ایک طرف میرے کان میں سرگوشی کی اکبر آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہم نے اس کی شروعات کر دی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ میرے کانوں میں کچھ اور سرگوشی کرنا چاہتے تھے۔ مجھے لگا کہ شاید وہ کشمیر میں کارروائی کے موضوع کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے تھے اور انہوں نے مزید کہا کہ میں نے میاں انور علی ڈی آئی جی سی آئی ڈی کو اسی کام کے لئے معزول کیا تھا۔ تب سے میں نے بہت حیرت کا اظہار کیا کہ ملک صاحب کا واقعی کیا مطلب ہے۔ اگر کشمیر واقعتا ایسا ہی تھا جس کا انہوں نے حوالہ دیا تھا اور اگر انور علی ہی تھے جنہیں اس مشن کے لئے منتخب کیا گیا تو اس سے ظاہر ے کہ وزیر اعظم صحیح ملازمت کے لئے صحیح آدمی کا انتخاب کرنے کےلئے مخصوص خصوصیات کے حامل تھے۔
1970 کی بات ہے ہم نے ابھی تک کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ایک بھی صحیح اقدام نہیں کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنی قومی آمدنی کا بڑا حصہ دفاعی تقاضوں پر خرچ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لیکن فوجی اخراجات کے علاوہ میں نے سوچا کہ 1948 اور 1949 میں کشمیر میں مدد کےلئے ہم نے ہر سال آزاد حکومت کے خسارے کے بجٹ پر اور قبائلی علاقوں اور دیگر جگہوں پر ہر طرح کے دوسرے لوگوں کےلئے مختص رقم پر صرف 12 کروڑ خرچ کئے ۔ اگر یہ اخراجات سالانہ 12کروڑ کے اعداد و شمار پر باقی رہے تو اب تک ہم نے 250 کروڑ صرف پڑوسی ملک پر خرچ کیا ہوگا۔ اس کے بدلے میں یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں داخلی بغاوت کےلئے ایک کروڑ سے بھی کم لاگت سے یہ مسئلہ کئی سالوں پہلے ختم ہو سکتا تھا۔
مزیدیہ کہ تقریباً 10کروڑ کی لاگت سے پورے مغربی پاکستان کے لئے پرائمری اسکول مہیا کئے جا سکتے تھے۔ اور یہ بھی کہنا بجا ہوگا کہ شاید صرف 5کروڑ یا اس سے زیادہ کی لاگت سے اساتذہ اور تقریباً 50000 طلبہ کی چھٹیوں کے ایک حصے کے دوران ایک قومی رضا کارانہ کوشش ب تک پاکستان کے کونے کونے میں بالغ خواندگی مہم بیداری پھیل سکتی تھی۔ دوسرا کروڑ معقول حد تک قابل اعتماد گھریلو چھوٹے اسلحے تیار کرنے کےلئے کافی ہو سکتی تھی جس میں پستول، رائفل، شاٹ گن اور دستی بموں سے لے کر حتیٰ کہ بڑی بندوقیں بھی وہ بھی اسی ملک میں تیار کیا جا سکتا تھا۔ چار صدیوں پہلے باہر، پہلا مغل بادشاہ کے زمانے میں بنیادی اسٹی انڈسٹری کے قیام کا شاید ہی ذکر کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر 250 کروڑ کا توازن بھاری صنعت پر خرچ نہ کیا جاتا تو یہ ہمارے جوانوں کو چھ ماہ تک مناسب فوجی تربیت دینے میں کافی ہوتا۔ کھانا کپڑے اور تنخواہ کی ادائیگی کے ساتھ جس کی تعداد اب 50لاکھ ہو چکی ہوتی۔ اگر 50لاکھ کی تعداد نظر آرہی ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ دیگر مغربی پاکستان میں سمندر سے لے کر لاہور تک پوری طرح سے 1400 میل تک اور کشمیر سے گلگت تک پھیل جائے اگر وہ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ۔ یہ قابل فکرہے کہ آج پاکستان کے لئے اس سے زیادہ کار آمد اور کیا ہو سکتا تھا۔ پچاس لاکھ تربیت یافتہ افراد یہاں تک کہ اگر صرف گھریلو ہتھیاروں سے لیس ہوں یا سونے کے بھکاری جس کو ہم اپنے غیر ملکی آقاﺅں کے سامنے مستقل طور پر رکھتے ہیں ، دوست نہیں ہوتا ہیں۔
دوست حباب کےلئے صرف ایک صحیح اقدام نہ اٹھا کر کشمیر کی آزادی میں ہمارے قائدین خوف کے مارے خود اپنے آپ کو دبائے رکھا۔ خوف نے انہیں ہماری قیمتی آزادی کو پیسوں، آسائشوں اور ہتھیاروں کے لئے فروخت کر دیا۔ انہوں نے ہماری ادائیگی کرنے کی صلاحیت سے زیادہ قرض لے لیا۔ نتیجہ ہوا کہ ملک میں بے رحم صنعتی استحصال کرنے والوں کا جنم ہوا۔ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین با قاعدگی سے تجارت، معمولی تجارت اور آمد و رفت بند ہوئی تو دونوں طرف کے عام لوگوں کا نقصان ہوگا۔ انہوں نے غیرملکی ایجنٹوں کو جنم دیا اور ہماری قومی زندگی کے پورے تانے بانے میں مداخلت کے ہر فیصلہ حکومت کی ہر تبدیلی اور ملک کا ہر سیاسی ، معاشی معاشرتی مسئلہ غیر ملکی سازشوں اور ہیرا پھیری کا ایک میدان بن گیا ہے۔
کبھی کبھار عوام کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کےلئے آنے والے ہر رہنما نے اعلان کیا کہ ہمارے قرضے اتحاد اور بے حد فوجی اخراجات کشمیر کی آزادی اور بھارت کے خلاف دفاع کے لئے تھے، یہ سب غیر ملکی طاقتوں کی واضح اور کھلے عام اعلان کر دہ ضوابط کے باوجود بار بار کہا گیا تھا کہ ان ہتھیاروں اور اتحاد کو بھارت کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ سب ایک ابتدائی ناکامی سے شروع ہوا جس میں ہم بہادری کے ساتھ کشمیر کے حوالے سے اپنی پوری ذمہ داری نبھائیں گے۔ کوئی بھی فرد اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک ایمانداری کے ساتھ آزاد ہونے میں موروثی خطرات کا مقابلہ نہیں کرتا۔ ہمارے قائدین کے دماغوں پر شرو ع سے خوف حاوی تھا۔
خود قائد اعظم کی مثال ہی فراموش کر دی گئی۔ 27اکتوبر 1947 کی رات، اپنی زندگی کے مشن کو مکمل کر کے تین ماہ سے بھی کم عرصے میں ان میں ہمت نہ ہوئی کہ وہ جموں پر حملے کا حکم دے سکیں۔ اگر اس کا مطلب پاکستان کے وجود کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ اس میں واحد مرکزی نکتہ دیکھنے کی صلاحیت رکھی تھی اور اس میں تنہا اس آدمی کی ہمت تھی جو آزاد قوم کی رہنمائی کر سکے ۔ اس کے بعد شکوک اور خدشات پیدا ہونے، شہید ملت کی وفات نے اتحاد کا باب بھی بند کر دیا۔
دوسروں کےلئے اس کی شروعات خوف کے ساتھ ہوئی۔ اپنے مفاد کے لئے جلد ہی ایک آرام دہ پوشیدہ جواز فراہم کیا گیا، یہ مختصر چھپی جلد ہی غیر ضروری ہو گئی کیونکہ بہت سے لوگوں نے لوٹ مار میں حصہ لیا۔ اس کے بعد غلط فیصلے مکمل طور پر یا جزوی طور پر حقیقتاً تصوراتی خوف سے بے معنی ہو گئے۔ یہ بھارت کا خوف ہی تھا جس نے ابتداءمیں ہمیں اپنے دیسی ہتھیاروں کو تیار کرنے اور اپنے ہی جوانوں کو جنگ کی تربیت دینے سے روکا شاید ہمیں قابلیت خواندگی سے بھی خوف تھا۔ یہ جمہوری تبدیلی اور اقتدار کے ضائع ہونے کا خدشہ تھا جس کی وجہ سے کوئی آئین نہیں بن سکا۔ اسی وجہ سے خوف کا سبب بنا کہ کشمیری جنگ 48-47 حتیٰ کہ ہمارے قائدین میں سے کسی نے بھی فوجیوں سے ملنے یا محاذ پر صورت حال دیکھنے کے لئے کشمیر میں داخل ہونا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ دوسری طرف نہرو، عبداللہ کے علاوہ ان کے وزراءاور جنرل با قاعدگی سے محاذ کا دورہ کرتے رہے۔ ہماری طرف کسی نے سرحد عبور نہیں کی ۔ نہ رات میں نہ اندھیرے میں نہ کوئی وزیر نہ کوئی سیکریٹری اور نہ ہی وزیر اعظم کا انتہائی قابل اعتماد مشیر نظر آیا۔

آج بھی مسئلہ کشمیر ویسا ہی پر خطر ہے جیسا پہلے تھا۔ جب سے بھارت پر چینی دباﺅ آیا ہے۔ سرحد سے متعلق بھارت نے اپنی غیر جانبداری ترک کر دی تھی اور اب امریکہ اور سوویت مشترکہ چینی مخالف مفادات کی وجہ سے پاکستان اور اس کے سیاسی قائدین بھارت اور کشمیر کے حوالے سے خاصی قطبی قطار بن گئے۔ اس کے پیچھے سی راج گوپال اچاریہ کی نئی تجویز ہو سکتی ہے۔جس میں 10سال تک غیر جانبدار انتظامیہ کے لئے کشمیر کو اقوام متحدہ کے حوالے کرنے کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ ظاہری شکل مبینہ کافی ہے ضرور معلوم ہوتا تھا لیکن اس طرح کے قبضے سے بھارت کو ایک دشمنانہ چین کے خلاف پانچ سو میل کی سرحد کی حفاظت پر مامور سے بھارت کو مستثنیٰ قرار دیں گے۔ جبکہ ہم حتمی دن تک ہماری فوجی ذمہ داری میں اس قسم کی کوئی کمی نہیں لا سکیں گے۔
لہٰذا ہمارے لئے ابھی بھی واحد سمجھداری کا طریقہ بچا ہے کہ اولاد کشمیر پر حق رائے دہی کے اصل و عدے کی تکمیل کے لئے بھارت پر اصرار کریں گے اور دوسرا یہ کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے اپنی آزادی حاصل کرنے میں مدد فرام کریں۔ پاکستانی حکومت کو اس طرح کی مدد فراہم کرنا اسے جارحیت کا ارتکاب کرنے کے مترادف نہیں ہے اور نہ ہی فائر لائن کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ےہ کہ وہ پاکستانی عوام کو اور نہ ہی کسی اور کو مقبوضہ کشمیر کی مدد کرنے سے روکیں، باالفاظ دگر فائر لائن پر ہماری فوج کی موجودگی سے مقبوضہ کشمیر ی علاقے تک پہنچنے میں حائل نہ ہوں۔ اس طریقے سے جنگ کا کوئی بہانہ یا جواز نہیں ہو سکتا۔ لیکن لوگ اس غلط تصور کی وجہ سے اب بھی یہ کام کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو پاکستان کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ ہم بھارت کے ساتھ فوجی طاقت اور صلاحیت کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ اس دلیل کی بڑی سنجیدگی سے جانچ پڑتال کی جائے۔ جنگ شروع کرنے کے لئے جنگ کا ہنر ضروری نہیں پہلے اپنے آپ کو عادی اور مادی طور پر دشمن کے برابر بنائیں اور پھر کچھ کریں لیکن اس کے بجائے احتیاط سے جائزہ لیں، کسی کے پاس کیا ہے اور اپنی پوری کوشش میں آگے بڑھیں ۔ اکثر و بیشتر اچھی قیادت کی وجہ سے چھوٹا رخ متوازن عوامل کی ایک بڑی تعداد کی خدمت کرنے میں متحرک کرکے کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر نہیں تو جب غلبہ دوسرے فریق کے حق میں جانے لگا تو لوگ لڑائی تک ترک کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں برطانیہ کی کوئی جنگ نہ ہوتی۔ نہ کوئی چرچل یہ کہتا کہ میرے پاس خون ، محنت، آنسوﺅں اور پسینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی ڈی گال اپنے شکست خوردہ ملک کو یہ بتایاکہ فرانسیسی مزاحمت کا نہ شعلہ بنیں گے اور نہ مریں گے۔ اسٹالن نے روسیوں سے بات نہیں کی کہ شکست کھا کر پیچھے ہٹنا، دشمن کے پاس ایک انجن ایک ریلوے کی گاڑی ایک پونڈ اناج کا ایک گیلن ایندھن کو نہیں چھوڑنا چاہئے کوریا کوئی ویتنام نہیں۔
ایسا نہیں، حقیقت صرف یہ ہے کہ جنگ، لڑائیاں، فتح اور شکست کا انحصار بہت سارے عوامل اور ان کے باہمی تعامل پر ہے کہ نظریاتی طور پر ان کا حساب نہیں لیا جا سکتا۔ صرف جغرافیہ کا اثر اتنا بڑا ہے کہ اس کے تمام افکار کی فہرست بنانا مشکل ہو جائے گا۔ پہاڑی ملک میں محافظ عام طور پر زیادہ مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں ایک اوسط تحصیل کی جسامت، 1937 38 ۔ میں انگریزوں کو اپنی فضائیہ اور توپ خانوں کی مدد سے 50000 طاقت کی ایک نفری تعینات کرنا پڑی، لیکن وہ اس علاقے کو جزوی طور پر دبانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ آج کی پوری بھارتی فوج بھی صرف سرحدی قبائلی علاقوں کو موثر طریقے سے کنٹرول کرنے کےلئے کافی نہیں ہوگی۔ ندیوں، صحراﺅں، زرعی فیلڈوں میں ضرورت کے مطابق ایک مختلف کردار نافذ کیا جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان کا پانی اور ڈیلٹا زمینی جارحیت کے پیمانے پر ایک واضح حد رکھتا ہے۔ علاقائی وسعت، چالاکی کے ساتھ تسلی یکسانیت کے ساتھ استعمال کیا جائے، جیسا کہ روس نے نپولین کے خلاف کیا تھا اور پھر ہٹلر کے خلاف وہ دشمن کو شکست دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری طرف، بھارت کے معاملے میں اس کی فیاضی ہمیشہ اس کے اتحاد کی کمی کی وجہ رہی ہے۔ اس طرح ہمیشہ چھوٹاحملہ اور قوتوں نے بھارت کو بُری طرح سے شکست دی ہے۔
مغربی پاکستان میں بنیادی اتحاد، نسلی یکجہتی اور اتحاد کے وجود کی وجہ سے اگر ہم مغرب کی طرف فوجی طور پر زیادہ سے زیادہ دباﺅ ڈالتے ہیں تو یہ اس موسم بہار کی دباﺅ کی طرح ہوگا جو مضبوط تر ہوتا جاتا ہے اور آخر میں سکڑ جاتا ہے۔ بھارتی معاملے میں یکسانیت کی عدم موجودگی میں کسی بھی سمت میں دخل اندازی کا نتیجہ جغرافیائی طور پر اور اخلاقی طور پر مختلف اکائیوں کو الگ کرنے کا سبب بنے گا کیونکہ سکھوں، ہندوﺅں اور مسلمانوں کے مابین شودروں وار برہمنوں کے مابین بنیادی اتحاد نہیں ہے جس کی وجہ سے سب اپنے اپنے مفادت کی پیروی کریں گے۔ اس وقت اور ابھی آنے والے ایک طویل عرصے سے ہندوستان اسی پوزیشن میں ہے جس طرح وہ صدیوں پہلے تھا ہنگامی صورتحال میں منتشر ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔ آج کل اور آنے والے ایک طویل عرصے سے بھارت اسی طرح کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ وہ صدیوں پہلے تھا ہنگامی صورت حال میں منتشر ہونے کا ذمہ دار یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت ہمیشہ ہی ایک سلطنت رہا ہے یہاں تک کہ جب بھارتی خود فیصلہ کرتے تھے تب بھی کبھی بادشاہ نہیں تھا۔ اس لحاظ سے یہ بھارت سے مماثلت نہیں رکھتا ہے اور یہ دوسرے بڑے ممالک، روس، چین اور امریکہ جیسے ممالک سے بھی مشابہت نہیں رکھتا ہے یہاں تک کہ لوگوں کی عادات میں پلس یا مائنس بھی ہوتا ہے، تو ازن میں اثر، مثال کے طور پر مارے چھاپہ مار قبائلیوں کو اگر اجازت دی جائے تو وہ ہمیشہ بھارت کو سب سے زیادہ پرکشش مقام پائیں گے۔ دوسری طرف ایسا کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ خاص طور پر بھارت کو اس عومل کا مقابلہ کرنے کےلئے 300000 اعداد شدہ فوجی کمانڈوز کو تربیت دینا ہوگی۔ امن بھارت کے لئے کاروباری طور پر زیادہ منافع بخش اور مطلوبہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔
مخالفین کے حوصلے کا موازنہ نپولین کے کنے کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے کہ حوصلہ اتنا ہی مادیت پسند ہے جتنا تین میں سے ایک الجریا، کوریا اور ویتنام نے واضح طور پر دکھایا ہے کہ پر عزم افراد کیا برداشت کر سکتے ہیں اور پر عزم گوریلا کہاں تک داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اچھے حوصلے خود احترام کی ٹھوس بنیاد پر استوار ہوتے ہیں اور مطبع قرض اور انحصار پر خود اعتمادی نہیں بڑھتی ہے۔
ہمارے محدود مقصد کے لئے بڑے پیمانے پر بولی جا سکتی ہے ،بنیاد عام طور کہا جا سکتا ہے کہ جنگیں دو اقسام میں آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جس میں دو ممالک اس کے خاتمے کا مقابلہ کرتے ہیں اور دوسرے دو ممالک ان میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس طرح کی جنگ میں پوری طاقت اور صلاحیت کا غالب اثر و رسوخ ظاہر ہوگا۔ حالانکہ یہ کسی بھی طرح ضروری نہیں ہے کہ یہ فیصلہ کن عوامل ہونا چاہئے۔ انفرادی ممالک اور ممالک کے مابین اس طرح کی جنگیں تیز تر نقل و حمل سامر اجیت کی نمو اور اقوام متحدہ کی تنظیموں کی بڑھتی تاثر کے ساتھ غیر معمولی ہوتی جا رہی ہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ جہاں دونوں ممالک کے مابین تنازعہ جلد یا بدیر دوسروں کو بھی اس میں راغب کرتا ہے۔ ان معاملات میں ابتدائی طاقتوں اور نقل و حرکت کا زیادہ اثر ہو سکتا ہے حالانکہ یہاں نتائج اس مہارت پر منحصر ہیں جس کے ساتھ وہ استعمال ہو رہے ہیں۔
حتیٰ کہ دونوں اقسام کے حالات میں عمومی قوتوں کے استثیٰ کے ساتھ بازوﺅں کی دوڑ کی نوعیت میں پیشگی کسی بھی چیز میں داخل ہونا عموماً مضحکہ خیز ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ خود بڑی طاقتیں بین الاقوامی توزن کے ذریعے سلامتی کے حصول کی کوشش کرتی ہیں۔ زیادہ تر دوسرے افراد کو اس صورت حال کی دوسری قسم کے حالات کے ذرائع سے منصوبہ بندی کرنے پر راضی ہونا چاہئے ۔ ہم پاکستانی کی سب سے ابتدائی غلطی یہ ہے کہ صرف بھارت کے ساتھ عددی اور مقداری موازنہ کے معاملے میں سوچتے ہیں۔ ہر جنگ ہر طویل یا مختصر تنازعہ اور یہاں تک کہ ہر تصادم کے بارے میں بھی موجودہ صور تحال کے خاص حوالے سے سوچنا ہوگا اور خاص طور پر جغرافیہ کے کچھ نا قابل فراموش حقائق کو یاد رکھنا ہوگا ۔مثال کے طور پر کمانڈر کے اقدام مقام اور وقت کا انتخاب اور یہاں تک کہ اس کے منصوبوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ کوئی مہم عام طور پر حکمت عملی چالوں سے شروع ہوتی ہیے۔ اور جب ہم کمانڈر کا انتخاب کرتے ہیں تو ہم حکمت عملی فوج میں تدبیر کرنے کا فن اور عمومی طور پر مہارت دیکھتے ہیں۔
فائدہ مند پوزیشن مثال کے طور پر وہ حکمت عملی جو نپولین نے کامیابی کے ساتھ کئی بار استعمال کیا کہ جب بڑی طاقتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ تو وہ اکثر اتنے بڑے پیمانے پر تین گروپوں میں آگے بڑھتے کہ دشمن بھی اپنی فوجوں کو تقسیم کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا اور اس کے بعد ہی نیپولین کے پہلے سے ترتیب شدہ اقدامات کے پیش نظر اپنی پوری طاقت کو مرکوز کرکے شروع کر دیتے ۔ ایک وقت میں دشمن کے صرف ایک حصہ کے خلاف جنگ کےلئے اصل حتمی تعیناتی کا عنصر بھی ہے۔ شاید اچھے کمانڈر کی مہارت کا عروج ہی اس کا عہدہ ہے اور ذخائر کےلئے محفوظ ہے جس سے کمانڈر کو کسی بھی ہنگامی صورت حال کو بچانا ہوگا یا اسے مناسب وقت پر استعمال ایک اچھا کمانڈر حالات کے حساب سے طے کرتا ہے۔ شاید اب تک قارنین نے یہ نوٹس لیا ہوگا کہ مذکرہ بالا عوامل ہیں جو بنیادی طور پر کمانڈر کے ذہن کی برتری کے ذریعہ فائدہ اٹھایا جاتا ہے کمانڈر کا ذہن ایک بہت اہم جزو ہے جو اسے ثابت کرتا ہے کہ وہ کیا ہے بہت سے لوگ یہ سمجھنا بھول جاتے ہیں کہ کمانڈر کون ہے اور وہ کیسا ہے اور وہ اس کی قدرکو شامل یا منفی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی بھی بڑا کمانڈر یہ جاننے کےلئے اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ واقعی اس کا حریف کون ہے اور اس کے لئے کیا بھتے بنائیں جائیں۔
یہ کسی کےلئے مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ دماغ خود جنگ کے سب سے بڑے ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ کسی عوام کا کسی قوم کا ذہن آسانی کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے ور اسے یاد کیا جاتا ہے جس نظریئے کی وجہ سے وہ لڑتی ہے۔لیکن کمانڈر کا دماغ اس کی پوری شخصیت کی گہرائیوں سے جکڑا ہوتا ہے یہ اس کے ذہن کے مظہور ہیں جو بہت ساری خصوصیات اور نتائج سامنے آتے ہیں اور جس کی وجہ سے وہ اکیلے کانفرنسوں سے ہے بہرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ان خصوصیات کی رفتار اور مختلف امتزاج غیر معمولی نتائج کا باعث بنتی ہے۔ اچھے کمانڈر کے ذہن کی رسائی اتنی ہی گہری دور رس ہوتی ہے جیسے خیموں کے اندر باہر خالص کام عملی طور پر ہم اس کی چند شکلیں دیکھ سکتے ہیں جیسے بصیرت، اصلیت، اپنے مخالف کے ارادوں کو دیکھنے کی صلاحیت حیرت اور جالائی نقل و حرکت، عزم لچک اور خطرہ مول لینے کی صلاحیت کا حساب کمانڈر کے ذہن کی قیمت نا قابل شمار ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ اتنا بڑا ہو سکتا ہے کہ عملی طور پر دشمن کو پہلے سے ہی مفلوج ہونے کا احساس کر دیتا ہے ۔ نپولین کے معاملے میں ان کے بہت سے مخالفین نے 60000 فوج کے برابر میدان جنگ میں اپنی ذاتی موجودگی پر غور کیا۔
اس طرح کے عوامل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنگ کی تاریخ چھوٹی چھوٹی قوتوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں کہ میدان جنگ میں کمزور ہونے کے باوجود اپنی حمایتی صلاحیتوں کی بنیاد، اپنے سے کئی گنا زیادہ مخالفین پر قابو پا لیتی ہے اور یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ ایسی فتوحات کس طرح دانشمندی سے حاصل کی گئیں جن کو مطالعہ کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔
خالد بن ولید 636 عیسوی کے موسم بہار میں اس وقت مجموعی طور پر 24000 کی طاقت تھی جب ہیر کلیوس نے ان کے خلاف 50000 سے زیادہ کی ایک نئی فوج اعلیٰ تربیت یافتہ اور جنی سازو سامان کے ساتھ بھیجی تھی۔ خالد بن ولید کو موقع نہ ملنے پر مایوسی نہیں ہوئی تھی اور نہ یہ انہوں نے گھمنڈ میں کہا کہ وہ پاک سر زمین کے ہر ایک انچ کا دفاع کریں گے وہ در حقیقت صحیح معنوں میں کمانڈر تھے۔ حکمت عملی کے ماہر نیاض تھے۔ اپنی تعداد کی کمی کے ساتھ وہ ساز گار زمین پر بھی برتری کے ساتھ مقابلہ کرنا جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بالکل نہیں ہچکچایا اور ایک لمحہ ہی دمشق کو ہتھیار ڈالنے کے بعد فوراً ہی پیچھے ہو گیا لیکن اس نے دشمن کو اس کی طرف راغب کیا۔ یہاں تک کہ اس نے وادی رموک کے جنوب مشرق میں اپنی فوج کو متحرک کر دیا۔ جہاں وہ دشمن کے مواصلات کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ نتیجہ نکلا کہ محض شکست نہیں بلکہ دشمن کا مکمل صفایا ہو گیا۔ تاریخ نے جنگ کو بڑے سنہرے الفاظ میں محفوظ کیا یہ صرف 7000 مردوں (تمام مورخین کے اتفاق)کے ساتھ تھا کہ طارق بن زیادہ 711 عیسوی میں جبر الٹر کے مقام پر اسپین کے ساحل پر اترا۔ اس میدان میں اس کی طاقت بہت کم تھی اور اس کے پیچھے کیا صلاحیت تھی؟ شمالی افریقہ کے گورنر موسی کی رضا مندی ۔ ہاں، لیکن کچھ مغربی مصنفین کے مطابق، دمشن میں خلیفہ کی منظور ی انتہائی دلیری سے اور صرف محدود قوتوں کو سمندر کے پار خطرہ میں ڈالنے کےلئے دی گئی تھی۔ لیکن ممکنہ جو کچھ بھی ہوا اور چاہے اس کی کشتیاں جلنا صرف ایک افسانہ ہے یا نہیں حقیقت یہ ہے کہ اس نے موسی اور کمانڈر کے پہنچنے کا انتظار تک نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے سامنے اس صورت حال کی رفتاراور پوزیشن غالب عنصر کے طور پر ظاہر ہو اس نے چٹان کو اپنی محاذ آرائی کی حیثیت سے مضبوط بنانے کےلئے صرف اتنی دیر تک ہچکچایا اور شاہ روڑ یرک سے ملنے کےلئے ساحل کے ساتھ مغرب میں وادی بیکا (سلا دو ) کا رخ کیا۔
حیرت انگیز واقعہ تھا، کوئی بھی دعویٰ نہیں کرتا تھا کہ طارق کو 5000 سے زیادہ کمک موصول ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس کی طاقت، زیادہ سے زیادہ فقط 12000 ہو سکتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے خلاف روڈیرک کی قوت 100000 تھی۔ یہاں تک کہ گزشتہ شکایات کی وجہ سے روڈیرک کے کچھ جاگیر دار سرداروں نے میدان جنگ چھوڑ دیا تھا۔ خود شاہی فوج بہتر سازو سامان اور نظم و ضبط کی وجہ سے ابھی بھی طارق سے پانچ گنا زیادہ تھی۔ نتیجہ نکلا، مغربی مورخین کے مطابق دونوں مسلم 19 جولائی کو روڈیرک کی فوج کی مکمل شکست اور ڈوبنے سے روڈیرک کی موت ہو گئی تھی۔

اربیلہ میں 331 قبل مسیح میں جب سکندر نے فیصلہ کن دار اوس کو کچل دیا، تو اس کی طاقت میدان میں نہیں تھی اور نہ ہی کسی بھی ممکنہ مدد کے امکان کو فارس کے ساتھ کوئی موازنہ برداشت کر سکتا تھا۔ نہ ہی فارس اپنی توازن کی کمی کے باوجود تربیت، ہتھیار و نیا جرات میں کمتر تھا۔ تاہم یونانی فتح اتنی مغلوب تھی اور فارسیوں کی 90000 افراد کی ہلاکتیں اتنی شدید تھیں کہ اگر جنگ کے بارے میں کچھ تفصیل ضروری ہے پھر اگر کوئی یہ دیکھنا چاہے کہ اس طرح کا انجام کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔
فارسی فورس، جیسے ہی میدان جنگ میں قائم ہوئی تھی 300000 پیادہ فوج اور 40000گھڑ سوار فوج سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ اس میں ہاتھی اور 200 رتھ بھی شامل تھے۔ جن میں خوفناک مشینیں تھیں ،جو اندھا دھند فائر اور ان کے بازو پیر اور سر کاٹ رہی تھیں، پورے میدان کو ہموار کرکے اور تمام رکاوٹوں کو سامنے رکھ کر خاص طور پر رتھوں اور عام طور پر لڑائی کے لئے ایک وسیع علاقہ تیار کر لیا گیا تھا۔
اس کے بر خلاف سکندر کے پاس صرف 40000پیداہ فوج اور 7000 گھڑ سوار تھے۔ اس طرح کے ایک مٹھی بھر کے لئے بہت بڑ فارسی صف آرائی نا قابل تسخیر دیوار ثابت ہو سکتی ہے۔ مختصر طور پر بیان کیا جا سکتا کہ جو کچھ ہوا وہ سکندر کے سوچنے کا طریقہ نہیں تھا۔ بے حد سادگی سے مورخین سے معذرت ہے۔ اپنی فوج کے لئے 4 دن آرام کے بعد پھر فارسیوں سے 3میل کے فاصلے پر چلا گیا، دشمن کے اقدامات کی مکمل جانچ پڑتال اور پوری میدان جنگ کا سروے کرنے کےلئے رخت سفر باندھا، سکندر کو فارسی کے بالکل خلاف اس مرکز میں تعینات کیا گیا تھا جہاں دار اوس تھا، تب سے سکندر کی تشکیل کو ایک عظیم الشان کھوکھلی چوک کہا جاتا ہے ،زاویوں پر کالم اپنے پروں تک اڑنے کے ساتھ وہ آمنے سامنے اور ہر طرف سے لڑنے کے قابل ہے۔
غیر متوقع وجوہات کی بناءپر اس نے کسی بھی حملے کے خیال کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بجائے، اس نے فیصلہ کن ضرب لگانے کا منصوبہ بنایا تھا جس کےلئے دن کی روشنی کی ضرورت تھی۔ اب اپنی پیش قدمی کا آغاز کرتے ہوئے اس نے براہ راست محاذ کے لئے نہیں بلکہ ایک زاویہ سے فارسی بائیں طرف جانے کا آغاز کیا۔ یہ دیکھ کر دار اوس نے اس کے ساتھ متوزی مارچ کیا اور انہوںنے گھڑ سوار کو حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا۔ متعدد اقدامات اور انسدادی کارروائیوں کے بعد لیکن سکندر نے اپنی جھکاﺅ والی تحریک جاری رکھی جب تک ایسا محسوس نہ ہوا کہ یہ خاص طور پر بنائی گئی زمین کے کنارے سے چل رہا ہے۔ دار اوس کو یہ خوف تھا کہ اس کے رتھ جلد ہی بیکار ہو جائیں گے۔ انہوں نے عارضے میں ڈالنے کےلئے سکندر پر حملہ کر دیا لیکن سکندر نے تیر اور نیزوں کا بیراج تیار کر لیا تھا۔ حتیٰ کہ جب فارسی پوری طاقت سے اس کو روکنے کےلئے اس کے دائیں طرف سوار ہوئے، سکندر نے وہ لمحہ آتے دیکھا جس کے لئے اس نے خصوصی منصوبہ بندی کی تھی۔ اب دار اوس خود کو گھڑ سوار فوج کے سربراہ میں خود کو رکھا۔ اس نے چاروں طرف یہی کیا اور ارد گرد کے پہیوں اور فارسی میں الزام عائد کیا کہ ان کے اپنے گھڑ سوار فوج کے اقدام کی طرف سے چھوڑ دیا گیا تھا اور اس طرح سیدھے سیدھے مرکزی نقطہ تک پہنچ گیا۔ اس کا نتیجہ پہلے بھی یہاں ہو چکا ہے۔ سکندر نے اپنے دشمنوں کے رد عمل کا فیصلہ کرنا صحیح سمجھا تھا اور سکندر کی دور اندیشی کی بدولت مورخین نے اس فتح کا سہارا اسی کو دیا ہے۔
216 قبل مسیح کنی کی کلا سیکی جنگ میں حنیبل نے رومن سر زمین پر رومانٹک کار تھاجس کا مقابلہ کیا جو ان کی تعداد اور صلاحیت دونوں سے بالا تر ہے۔ رومن 85000 پیادہ فوج اور 9700 کے خلاف گھڑ سوار، حنیبل کے پاس 35000 پیادہ فوج اور 10000 گھڑ سوار تھے ۔ یہ ان کی اعلیٰ حکمت عملی کی تعیناتی ہی تھی جس نے انہیں فتح دلائی۔ جب مرکز میں حملہ کیا گیا تو اس کا ہلال تشکیل رومی فوجیوں کی آمد تک اپنا راستہ بر قرار رکھا تھااور تب تک ان کے پیچھے ہلال سرے بند کر دیئے گئے تھے۔ پولیب یوس کے الفاظ میں رومن فوج کو ایسے نگل لیا گیا جیسے کسی زلزلے نے رومن نقصان 50000 سے زیادہ ہلاک اس سے کم قیمت پر 5000 قیدی 6000 کار تیگنین ہلاک وار زخمی ہوئے ۔ حنیبل کے بارے میں کہا جاتا ے کہ وہ سکندر سے زیادہ افہام و تفہیم اور نپولین سے زیادہ کار آمد جنگ کا ماہر تھا۔
مصطفی کمال نے بغاوت کی جب 1919میں پہلی جنگ عظیم کے 4 سال بعد ترکی کو شکست ہوئی تھی۔ ہم اپنے وقت کے قریب پہنچے۔ اتحادی فوج نے قسطنطنیہ پر قبضہ کیا تھا اور سلطان محج ایک کٹھ پتلی تھا۔ اس کے پاس صرف کچھ گروہ اور قبائلیوں کے چند با قاعد دستے تھے لیکن اس کے پاس آم دو رفت یا توپ خانہ نہیں تھا۔ یونانیوں کے ہاتھوں صرف دو سال کی محنت ، طویل پسپائی اور بہت سے دھچکیوں کے بعد ہی وہ 80000 فوجیوں کے ساتھ یونانی فوج کو دو حصوں میں کاٹنے میں کامیا ب ہو گیا جو خوف و ہراس میں مبتلا ہو گیا۔ آخر کار یہ کمال کا طویل انتظار تھا اور وہ دشمن کا تعاقب اور اسے ختم کرنے کا طویل انتظار تھا۔ لیکن اسے اپنے اور یونانیوں کے مابین برطانوی افواج کی سختی سے کھڑا پایا۔
وہ ممکنہ طور پر انگریزوں سے لڑ بھی نہیں سکتا تھا اور کوئی موقع چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا ،جو اس کی زندگی کے کاموں میں انجام پائے۔ کمال نے اب بہت نرالا قدم اٹھایا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے یا بعد میں کبھی بھی ایسا قدم اٹھایا گیا تھا۔ یہ بڑی احتیاط سے شمار کیا ایک خطرہ تھا۔ یہ کہتے ہوئے کہ برطانیہ جنگ سے تھک چکا ہے۔ اس نے برطانوی بلے بازی کے ساتھ آگے بڑھا ہتھیاروں کو تبدیل کر دیا برطانوی فوج حیرت زدہ تھی۔ انہیں کیا کرنا چاہئے۔ تقریباً غیر مسلح مردوں پر فائرنگ کی۔ یہ لمحہ ایک بین الاقوامی تناﺅ کا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں طرف سے ایک گولی باری سے ترکی کی تقدیر پر مہر لگ گئی ہو۔ لیکن کسی نے فائرنگ نہیں کی۔ ترک برطانوی خاردار تاروں تک پہنچے اور اس کے ذریعہ چکر لگانے لگے۔ انگریز اس الزام کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن کمال نے ٹھیک فیصلہ لیا تھا۔ آخر کار فوری طور پر کھڑے ہونے کے احکامات صادر ہوئے۔ اس کے بعد مسلح دستہ چل پڑا اور ایک نیا ترکی پیدا ہوا۔
ان سب سے ہمیں اب یہ دیکھنا چاہئے کہ جنگ ریکارڑوں کے تقابل سے کہیں زیادہ ہے اور یہ کہ فوجی تیاری سالحے کی دوڑ یا تعداد میں مستقل اضافہ نہیں ہے۔ اکثر بڑی فوجیوںکے واضح فوائد میں اضافے سے کہیں زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ مختلف کمانڈروں کے متضاد طرز عمل کے تحت کارروائیوں میں بڑے پیمانے پر تغیرات اور فراہمیوں اور آمد و رفت وغیرہ کی کمی کا زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔ دوسری طرف چھوٹی فوج میں نقل و حرکت بر قرار رکھنے کے زیادہ امکانات ہیں اور زیادہ تر فوجی مفکرین کے مطابق نقل و حرکت کو جنگ کا سب سے بڑا عنصر سمجھا جاتا ہے۔ یہ نقل و حرکت اور آسانی کی فراہمی اور پابند فراہمی کی رفتار ہے جس کے لئے ایک کمانڈر کو لازمی طور پر جدو جہد کرنا چاہئے۔ قرون وسطی کے مورخین نے چنگیز خان کی غیر معمولی کامیابیوں کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ لیکن کامل علم نے اس دعویٰ کی پوری مخالفت کی ہے۔ منگولوں کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی زمینی طاقت تھی، جس نے روم اور سکندر کی سلطنتوں کو اہمیت کا حامل بنا دیا۔
موازنہ ، گھڑ سواری کی بر تری کی حساب سے ہوتی ہے نہ کہ مقدار سے ان کی نقل و حرکت کی نا قابل یقین رفتار کے ذریعے فتح حاصل کی گئی جو اب صرف فضائی وقوتوں کے ذریعے ممکن ہے اور چنگیز خان کی حکمت عملی کی صلاحیت سے آگے نکل گئی جو تاریخ میں صرف نپولین کی مثال تھی کسی قوم کی مسلح افواج کی جسمات اور نوعیت کو اس کی مجموعی حکمت عملی سے قدرتی طور پر پیدا ہونا چاہئے اور دیئے گئے ملک کی حکمت عملی زیادہ تر اس کے جغرافیائی حالات اور تاریخ کا نتیجہ ہے ۔ لہٰذ ا میں نتیجہ اخذ کروں گا کہ کشمیر کے حوالے سے ہندسوں اور جسمانی موازنہ کے بارے میں ہمارا غلط نظریہ ہے جس نے اب تک بھارتی مداخلت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس خوف کی کوئی اصل وجہ نہیں ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو آزادی حاصل کرنے میں مدد کرنا ہم پر جنگ کا باعث بنے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو شاید یہ ایک محدود جنگ ہو گی لیکن چاہے وہ محدود ہو یا طویل حد تک یا پھر تلخ اختتام کو پہنچے، ہم در حقیقت بھارت کے ساتھ نا مناسب موازان نہیں کرتے ہیں۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ بھارت پاکستان کو چلانے کی پوزیشن میں ہے۔ اسے روکنے دیں۔ بیرونی دباﺅ کی صورت میں اس کی اپنی نا قابل تلافی داخلی تفریق اسے زیادہ خطرات سے دو چار کرے گی۔ امکان ہے کہ جنگ ہمیں مزید متحدکرے گی لیکن بھارت ایسا نہیں کرے گا۔
میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں جنگ کی تبلیغ کروں لیکن یہ صرف ہمارے متعلقہ منصب کی صحیح سمجھ سے ہی ممکن ہے کہ کیا اس سے زیادہ امکان ہے کہ امن بر قرار رہے۔ مجھے یہ نہیں لگتا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ ناگزیر ہے یا مطلوب ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے بلکہ شبہہ ہے کہ دونوں اطراف سے امن حاصل کرنے کے لئے اور بھی بہت کچھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی سیاسی اور علاقائی سالمیت کا احترام کر سکتے ہیں لیکن یہ صرف کشمیر میں منصفانہ ممنونیت اور باقی تمام بقیہ تنازعات کے منصفانہ حل کے بعد سامنے آئے گا۔ ہماری جانب ایک اصول ہے کہ ہم خود مختاری کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی اصول کی وجہ سے ہی دوسری اقوام کی اکثریت ہمارے ساتھ کھڑی ہے خود مختاری، جس کا اطلاق کشمیر پر ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ایک منصفانہ رائے شماری ہونی چاہئے ۔ کشمیر یہ منصفانہ رائے شماری بھارت کے ذریعہ کئے گئے ایک اچھے وعدے کی بات نہیں ہے یہ اس حق کی بات ہے کہ کشمیری عوام نے اپنی جدو جہد کے ذریعے کامیابی حاصل کی ہے اور اس حق کو اقوام متحدہ نے تسلیم بھی کیا ہے۔
ہمارے لئے یہ فرض تھا، اور خود ہمارا فریضہ ہے کہ یہی یقینی بنائیں کہ ایک منصفانہ رائے شماری منعقد ہو۔ یہ ایک ایسا فرض ہے جو ہمارے اپنے وجود کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس بنیادی حق اس بنیادی اصول، اس بنیادی مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ورنہ بالآخر ہماری آزادی کو کمزور کرنے اور ہماری حفاظت کو بتدریج کم کرنے کا نتیجہ بن سکتا ہے ۔ ہمارا مقصد تقسیم سے قبل جموں و کشمیر کے پورے خطے میں تنہا ایک رائے شماری کروانا ہے اور اس مقصد کے ساتھ بھارت و پاکستان کے تنازعہ کو ہر طرح سے پختہ رکھنا چاہئے اور مسئلہ اگر ہم کسی بھی دوسرے معاملات پر بھارت کے ساتھ کوئی بات چیت کرتے ہیں۔ کشمیر سے علیحدہ ہو کر ہم آہستہ آہستہ آشنا ہو جائیں گے۔ کشمیر کو جہاں چھوڑے ہیں وہیں چھوڑ دیں گے جیسا کہ اب تک یہ معاملہ رہا ہے۔

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.