کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کے چھاپہ مار

جنگ بندی
31 دسمبر کی نصف شب دونوں طرف جنگ بندی کا حکم دیا گیا اور یہ جنگ ختم ہو گئی۔ جنگ بندی کا واقع ہونا غیر متوقع یا اچانک نہیں تھا۔ در حقیقت چند مہینوں سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ جنگ بندی ہونے والی ہے اور مسئلے کو دوسرے طریقے پر حل کرنا ہوگا ۔ آزاد کے لوگوں نے اس بات کی توقع نہیں کی تھی کہ وہ طاقت کے ذریعے بھارت کو کشمیر سے باہر پھینک سکتے ہیں۔ وہ بس اتنا چاہتے تھے کہ ان کے رائے شماری کروانے کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ یہ حق اب تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اس لئے جنگ بندی کا واقع ہونا اصولی لحاظ سے اچھا تھا۔ تاہم ہم میں سے چند لوگوں کو نظر میں۔ جن خطوط پر جنگ بندی واقع ہوئی تھی وہ غیر اطمینان بخش معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ معاملہ اب پوری طرح سے بھارت کے حق میں گیا ہے اور بھارت جو کچھ بھی چاہتا تھا اسے وہ سب کچھ مل گیا ہے۔
وادی لداخ اور جموں میں مستقل سلامتی کو یقینی بنانے کےلئے بھارت کو اب مزید کسی علاقے ، پہاڑی کے اہم مقام یا خطے کی ضرورت نہیں تھی۔ کشمیر کے ساتھ مواصلات کے لئے بھارت کے پاس پہلے سے کٹھوعہ روڑ پہلے سے موجود ہے اور مزید ایک سڑک جو پاکستانی سرحد سے زیادہ کافی دور واقع تھی زیر تعمیر تھی۔ چنانچہ ہماری ملکیت میں کوئی دباﺅ والا مقام اور نہ یہ مجبور کرنے والی کوئی عامل موجود تھا۔ جس کی بنا پر ہم بھارت کو رائے شماری میں تاخیر یا اس سے انکار کرنے کی حوصلہ شکنی کر سکیں۔ جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط میں بھی اس قسم کی کوئی رائے نہ ہی رائے شماری کے لئے وقت کی کوئی حد مقرر کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ نے فطری معاہدہ ترتیب دینے کےلئے صرف اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا تھا۔ اس نے کشمیر کے مسئلے کو اس کی اپنی ذمہ داری نہیں بنائی تھی اور اس میں رائے شماری کو منعقد کرنے کےلئے کسی دباﺅ یا پابندی والی شرائط یا وعدے نہیں تھے۔
اس میں تمام تر غیبات بھارت کے لئے تھیں کہ آیا وہ چاہتا ہے کہ معاملہ وہ یوں ہی چھوڑ دے اور جنگ بندی کی شرائط کی روح کا احترام کرنے کےلئے ہمیں مکمل طور پر بھارت کی نیک نیتی پر انحصار کرنا تھا۔ لیکن چونکہ ہمارا خیال تھا کہ کشمیری لوگ پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ رائے شماری کے انعقاد کا مطلب بھارت کشمیر کو تھالی میں رکھ کر ہمارے حوالے کرے گا۔ کیا اس ریاست کی ملکیت کےلئے بھارت کے ساتھ ایک شدید جنگ لڑنے کے بعد اس بات کی توقع کرنا منطقی بات ہوگی۔
تاہم اس قسم کی کچھ باتوں کے واقع ہونے کی امید ہو سکتی ہے۔ اگر کسی دن” دو اور لو“ کی روح دو ممالک کے درمیان پیدا ہو۔ لیکن یہ بات نا ممکن معلوم ہوتی ہے کیونکہ” دو اور لو“ کا مطلب کچھ” دو اور کچھ لو“ ہوتا ہے اور بھارت کےلئے اس میں لینے کےلئے کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اگر کچھ لینا ہے تو اس کے پاس جونا گڑھ اور حیدر آباد موجود ہیں، جنہیں اس نے پہلے ہی لے لیا ہے۔ اس لئے اس تمام رائے شماری کے حصول کا مطلب یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے اپنی گاڑی کو امید کے ساتھ باندھا ہے۔ ایک ایسی امید جس کے ساتھ ہمارے لئے بھارت کی طرف سے نہ تو غیر معمولی امید وابستہ ہے اور نہ ہی غیر معمولی فراخدلی ہے۔
یہ انہیں خطوط پر مبنی تھا جس پر میں نے وزیر اعظم کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی کہ ہم نے اپنے آپ کو کس شدید کمزور موقف پر رکھا ہے۔ اگر انہوں نے مجھے یا کسی اور سے جو کہ محاذ پر لڑ رہے تھے۔ مشورہ طلب کیا ہوتا تو وہ یقینا انہیں بہتر مشورہ دیتے ۔ یقینا مجھے اس بات کا کوئی حق نہیں ہے کہ میں یہ سوچوں ک مجھ سے مشورہ کیا جاتا۔ لیکن ابتداءسے اس مسئلہ میں مصروف چند لوگوں میں سے ایک ہونے مقامی جغرافیہ کی معلومات اور عمومی صورت حال سے واقفیت ہونے کی بنا پر اسے بہتر طور پر استعمال میں لایا جا سکتا تھا۔
ہم سب اس بات سے واقف تھے کہ جنگ بندی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اس کے ایک ماہ پہلے قبول کرنے کے نتیجے میں پونچھ ہمارے ہاتھوں میں بطور یرغمال ہو سکتا تھا۔ یا پونچھ سے دستمبرداری کے بعد ایک یا دو مہینوں کے لئے جنگ بندی پر عدم اتفاقی کی صورت میں ہمیں ہندوستانی مفاد کے ساتھ توازن میں برابری کی صلاحیت حاصل ہو سکتی تھی۔ مثال کے طور پر ہم نوشہرا سے شمالی جانب ہندوستانی مواصلاتی لائنوں پر یقینی طور پر شدید سزا عائد کر سکتے تھے اور ہم یقینی طور پر پانڈو سے چند میل آگے بارہمولہ کی طرف جانے والے پہاڑوں کی طرف آسانی سے پیش رفت کر سکتے تھے۔ جس کے ذریعے چکوٹی سے بارہمولہ جانے والی پوری سڑک کو غیر محفوظ بنایا جا سکتا تھا اور ریاست کی بجلی کو مسلسل طور پر خطرے میں ڈالا جا سکتا تھا۔
تاہم اب اس قسم کی کارروائی کا وقت نکل چکا ہے اور دو بارہ جنگ بندی کو توڑا نہیں جا سکتا ۔ لیکن ہم جس قدر زیادہ انتظار کریں بھارت اسی قدر زیادہ مضبوط ہوگا ، اب ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اندرونی طور پر ہتھیاوں ، رقم اور پروپگنڈہ کی فراہمی کے ذریعے مدد کریں تاکہ وہ درست وقت پر بغاوت کرنے اور اپنے طور پر لڑنے کے قابل ہو سکیں اور یہ مدد ہم فوری طور پر شروع کر سکتے ہیں۔
تین ماہ بعد وزیر اعظم نے مجھے ایک انٹرویو کے لئے بلوایا جو کہ تقریباً دو گھنٹوں تک جاری رہا۔ انہوں نے مجھے مطلع کیا کہ انہوں نے کچھ ہتھیاروں کا انتظام کیا ہے اور یہ کہ کشمیر کو ہمارا تعاون چھ ماہ کی مدد میں شروع ہوگا ۔تاہم ان کے ساتھ مستقبل میں ہونے والی ہر ملاقات مجھے ان سے مزید دور کیا کرتی تھی۔ کشمیر کے ساتھ میرا کچھ بھی ذاتی مفاد وابستہ نہیں تھا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ مسئلہ آسان ہوگا۔ بلکہ مشکل تر ہوتا جائے گا۔ حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ انتظار کرکے ہم کامیاب ہوں گے۔
چنانچہ چھ ماہ والی وہ مدت کبھی ختم ہونے والی نہیں تھی۔ اور بالآخر مجھے جیل میں جانا تھا اور انہیں اپنے قاتل کے ہاتھوں اپنے ا فسوس ناک انجام کو پہنچنا تھا اور جنگ بندی کے بیس سال بعد ہم ابھی تک مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے کئے ہوئے وعدے کو پورا نہیں کر سکتے۔
کوئی سوال پوچھ سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو مدد بھیجنے کا معمولی اقدام کیوں نہیں لیا گیا ؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ بتائی گئی اور وہ وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے تعاون سے ہندو پاک جنگ کا خوف ہوگا اور یہ کہ حکومت کو اس قسم کے خطرے کو مول نہ لینے کا مسلسل طور پر مشورہ دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم آفیسروں اور ملاقاتیوں کے درمیان جس میں سردار ابراہیم اور اس کتاب کے مصنف دائیں طرف ہیں اور میجر جنرل نذیر، رحیم اللہ اور آغا شوکت علی ان کے بائیں جانب ہیں۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.