پونچھ کی خلاصی
مظفر آباد کی جانب موسم گرما کے حملے کی ناکامی کے بعد بھارت نے مزید ایک حملے کےلئے تیاریاں شروع کیں۔ اس بار اس کی یہ تیاریاں جموں ، مغربی جانب اور شمال کی طرف سے پونچھ کی خلاصی کےلئے شروع کی گئیں۔ اس کے ساتھ میرا ذاتی تعلق نہیں تھا۔ لیکن میں اسے یہاں پر مختصراً بیان کر رہا ہوں تاکہ جنگ بندی تک تصویر مکمل ہو جائے۔
جموں سے ایک کچی سڑک نوشہر اور اس سے آگے کی طرف نکلتی ہے جو جنوب کی طرف چند ملیوں تک پاکستانی سرحد کے تقریباً متوازی ہے۔ جب اس سڑک پر ایک بھارتی بریگیڈ نے نومبر 1947 میں پیش رفت کی تھی۔ اس وقت آزاد قوت اسے روک نہیں سکی تھی۔ چنانچہ یہ نوشہرا پہنچ کر وہاں موجود ریاستی محافظ فوج کے ساتھ مل گئی۔ وہاں سے بھارتیوں نے میر پور کو فتح کرنے کی کوشش کی تھی۔ جو کہ نوشہرہ اور منگلا ہیڈ ورک کے قریب بالکل مغربی جانب واقع ایک گاﺅں ہے جہاں سے اوپری جہلم نہر شروع ہوتی ہے۔ یہ کوشش ناکام ہوئی تھی اور بھارتیوں کو جہلم کے قریب روک دیا گیا تھا۔ تقریباً اسی وقت شمالی مغربی جانب کچھ فاصلے پر کوٹلی میں باغیوں نے ریاستی فوجی چھاونی کو شکست دے کر اسے فتح کیا تھا ور اس وقت سے اگست 1948تک اس علاقے میں صورتحال کم و بیش یکساں تھی۔ بھارتی نوشہرہ اور اس کے عقب میں واقع سڑک تک محدود ہو گئے تھے۔ جب کہ سڑک کے دونوں طرف کا علاقہ آزاد کے ہاتھوں میں تھا۔ یہاں سے شمالی طرف مزید آگے پونچھ واقع ہے جو کہ پونچھ جاگیر کے حکمران کی پونچھ جاگیر کا پایہ تخت ہے۔ پونچھ جاگیر میں تقریباً 382000 پنجابی بولنے والے مسلم اور تقریباً 39000 غیر مسلم آباد ہیں۔ جنہوں نے آخری عالمی جنگ میں برطانوی بھارتی فوج کو کشمیری فوجیوں کا ایک بڑا حصہ (تقریباً 80000 بتایا جاتا ہے۔ ) فراہم کیا تھا۔ اس علاقے کے لوگ حالانکہ غیر مسلح تھے۔ انہوں نے بغاوت کی تھی اور بغاوت کے پہلے چند ہفتوں میں اپنے علاقے سے مہارجہ کی فوج کو خالی کیا تھا لیکن انہیں پونچھ کو خالی کرانے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ اس گاﺅں میں ریاستی فوجیں اور بڑی تعداد میں غیر مسلم مورچہ بند ہو گئے تھے۔ الحاق کے فوری بعد بھارتیوں نے اس شہر کو مستحکم بنایا اور چنانچہ اس کے بعد وہ سڑک بند رہی اور بھارتی فوجوں کو پونچھ کو رسد کی سربراہی صرف ہوائی راستے سے ہوتی تھی۔
مئی 1948 میں جب بھارتی فوج نے اوڑی سے گرمائی چڑھائی شروع کی تو غالباً وہ اپنے بنیادی مقصد کے حصوں کے بعد پونچھ کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی جارحیت ناکام ہوئی تھی اور ہمیں اوڑی پونچھ سڑک کو ہمیشہ کے لئے بند کرنا پڑا تھا۔ چنانچہ، جولائی کے اختتام پر پانڈو کے بعد اس علاقے میں یک قسم کا جمود طاری ہو گیا۔ پونچھ اب بھی محاصرے میں اور تنہا تھا۔
اگست 1948 میں بالآخر اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی تجویز عمل میں آئی اور 13تاریخ کو یہ اسکیم دونوں حکومتوں کو پیش کی گئی ۔ حالانکہ کے صف اول کے دستے نے پہلے اس کی موجودہ صورت میں اس کے نا قابل قبول ہونے کا اعلان کیا تھا ۔ نئی تجاویز اور ترمیمات جاری رہیں اور یہ بات واضح ہوئی کہ جلد یا بدیر جنگ بندی واقع ہوگی۔
یہ بات ممکن ہے کہ اس وقت بھارت خصوصی طور پر پونچھ پر قبضہ کے تعلق سے فکر مند تھا۔ اگر جنگ بندی کے وقت پونچھ آزاد علاقے میں رہ جائے اور بقیہ بھارت مقبوضہ کشمیر سے کٹ جائے تو یہ پاکستان کے ہاتھوں میں ہمیشہ یرغمال رہے گا اور یہ رائے شماری کے انعقاد کے متعلق کسی بھی وقت بے ایمانی کی صورت میں آزاد اسے دباﺅ بڑھانے کے جگہ کی حیثیت سے استعمال کرے گا۔ ہماری خواہش تھی کہ جلد از جلد رائے شماری کی جائے اور ہم اس کے نتیجے کے بارے میں یقینی تھے ۔ لیکن بھارت جلدی عمومی رائے شماری کا خواہش مند نہیں تھا۔ اسے لوگوں کے دل جیتنے کےلئے زیادہ وقت درکار تھا۔ اس لئے طویل تر تاخیر اس کے نقطہ نظر سے بہتر ہو گی۔ لیکن پونچھ کو یرغمال کے طور پر چھوڑ دینا اس کی نظر میں حتمی طور پر غیر دانشمندانہ بات تھی۔ اس لئے حالانک ہندوستان اور پاکستان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ صورتحال کو مزید ابتر نہیں بنائیں گے۔ بھارت نے جنگ بندی سے پہلے پونچھ کی خلاصی کے عمل کےلئے تیاری کی۔
اس کے بعد کیا ہوا مجھے اس کے بارے میں راست معلومات نہیں ہیں ،اس لئے میں خبروں کو جیسا کہ وہ اس وقت اخبارات میں شائع ہوئی تھیں، پیش کروں گی۔ وہ علاقہ جہاں پر چند مہینوں سے خاموشی بر قرار تھی۔ تیز سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ 24 اگست 1948 کو نو شہرا سیکٹر میں متعدد مقامات پر دشمن کے جمع ہونے کی پہلی خبر مشاہدے میں آئی۔ ایک ماہ بعد 24 ستمبر کو اس بات کی خبریں تھیں کہ بھارت نوشہرہ کے شمالی حصے میں راجوری کو مستحکم کر رہا ہے اور یہاں پر کچھ جھڑپیں ہوئیں۔ 10اکتوبر کو مضبوط دشمن فوجیوں نے راجوری کے شمالی مشرقی حصے پر حملہ کیا جہاں سے وہ پسپا ہوئی تھیں۔ دو دنوں بعد اسی مقام پر مزید جھڑپیں پیش آئیں۔ 19 اکتوبر کو راجوری میں شدید لڑائی چھڑ گئی اور دشمن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ تقریباً ایک بریگیڈ والی قوت کا حامل تھا۔ اسی دن نوشہرا شمال مغربی حصے میں لڑائی کی اطلاعات موصول ہوئیں جہاں پر بتایا گیا کہ مزید کمک آرہی تھی۔
مصنف اور دیگر حضرات کے ساتھ محترمہ جناح چناری محاذ پر 26اکتوبر کو پونچھ کی ہندوستانی فوجی چھاونی فعال ہو گئی۔ اس کے چار دن بعد آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم نے ان الفاظ میں پاکستانی لوگوں سے مدد کی اپیل کی۔ غاذیانہ جدو جہد نے تمام مشکلات کا بے جگری سے مقابلہ کیا ہے۔ لیکن اس بات کا پورا امکان ہے کہ اگر پاکستان کے لوگ آزاد فوجیوں کو محاذ پر زندہ رہنے کے لئے غذا، کپڑے اور دیگر ضروری اشیاءکی متوازن سربراہی میں ناکام ہو جائے تو یہ جدو جہد ناکام ہو جائے گی۔
2نومبر کو اخباری اطلاعات نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ بھارت نے کئی مقامات پر پیش رفت کی کوششیں کیں۔ 4نومبر کو آزاد کے ذریعے راجوری چنگاس روڑ پر رکاوٹ کھڑی کرنے سے راجوری میں دشمن کی پیش رفت رک گئی ۔ مزید یہ کہ پریسا اور کتھ گلی میں لڑائی جاری تھی۔ 5نومبر کو راجوری کے شمال میں مزید جھڑپیں ہوئیں۔8نومبر کو بھارتی راجوری کے شمال مغربی حصے میں وارد ہوئے۔ 11نومبر کو بھارتی ٹینکس دیکھے گئے۔ 13 نومبر کو تازہ حملے ہوئے۔ 15نومبر کو وہاں مزید کمک پہنچ رہی تھی۔ 18 نومبر کے اخبارات میں شہہ سرخی تھی کہ بھارت کشمیر میں جارحیت بڑھا رہا ہے۔ جموں کو کم از کم تین بریگیڈ اور دو توپ والی ریجمنٹ کے ذریعے کمک پہنچائی گئی۔ بتایا گیا کہ ریاستی پونچھ علاقے میں کل ملا کر تین ڈویژنیں سرگرم تھیں۔ جس کا صدر مقام نوشہرا تھا۔ مزید یہ بتایاگیا کہ بھارت نے راجوری سے کوٹلی اور مینڈھر کی جانب شدید حملے کا آغاز کیا۔
20 نومبر کو مینڈھروادی میں گھمسان کی لڑائی جاری تھی اور بتایا گیا کہ پونچھ کی فوجی چھاونی پسپائی کی کوشش کر رہی ہے، اس بات سے نقطہ عروج کا اشارہ دیا اور ایک یا دو دنوں کے اندر پونچھ کو آزاد کے ہاتھوں سے چھڑا لیا گیا۔ چنانچہ بھارتیوں نے پونچھ کو نوشہرا کے ساتھ جوڑ دیا اور ہم نے اس خطہ کے مشرقی حصے میں پورا علاقہ بشمول مینڈھر تحصیل گرینری آف کشمیر کو کھو دیا۔ چند دنوں بعد 28000 پناہ گزین جہلم (یکسان میں) پہنچ گئے اور مزید لوگ ان کے پیچھے آنے والے تھے۔
یہ اس جنگ میں ہمیں ہونے والا سب سے بڑا نقصان تھا اور یہ نقصان اس لئے واقع ہوا ، ہم نے علاقے کو کمک نہیں پہنچائی اور نہ ہی ہمارے پاس وہاں پر موجود وسائل کے ذریعے کسی شدید مزاحمت کرنے کےلئے کوئی منصوبہ بندی تھی۔
ہندوستانی حملے نے اپنے قدم جمانے کے لئے کافی طویل عرصہ لیا۔ حکومت اس کے بارے میں جانتی ہے، جی ایچ کیو پاکستانی فوج اس کے بارے میں جانتی ہے۔ بریگیڈر اعظم خان (بعد میں لیفٹنٹ جنرل۹ جو کہ اس سیکٹر میں کمانڈر تھے۔ وہ تفصیلی رپورٹیں بھیج رہے تھے۔ لیکن انہیں نہ تو فوجیں اور نہ ہی کسی کارروائی کے لئے ہدایات موصول ہوئیں۔ اس قسم کے پیش آمدہ خطرات کا سامنا کرنے کےلئے صورت حال کا انتہائی محتاط اندازہ لگانا ضروری تھا۔ دشمن کے ارادوں اور ممکنہ نقل و حرکت کی پیشن گوئی کرنا لازمی تھا۔ اس قسم کا اندازہ لگانا فوجی طریقہ کار کا ایک عمومی اور بنیادی حصہ ہے اور ہر فوجی فیصلہ صورتحال کا اس جیسے اندازہ کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ صرف اسی طریقہ سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خطرے کا مقابلہ کرنے کےلئے کتنی طاقت کافی ہوگی۔ یا کن علاقے یا علاقوں کو شدید لڑائی کے بغیر چھوڑنا ہوگا۔ اس قسم کے فیصلے عمومی طور پر فوجی کمانڈر پر نہیں چھوڑے جاتے۔ یہ حکومت کا فیصلہ ہوگا۔
صورتحال ایسی نہیں تھی کہ سب کچھ اچانک بے خبری میں واقع ہوا ہو۔ بھارتی ہمیشہ پونچھ کی پسپائی چاہتے تھے اور وہ اس سے پہلے اس کی متعدد کوششیں کر چکے تھے۔ جب اگست 1948 میں جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی۔ منطقی طور پر یہ بات زیادہ واضح ہو گئی کہ بھارت جنگ بندی کے موقع پر پونچھ کو ہمارے حق میں چھوڑنا نہیں چاہئے گا۔ اس کے بعد حملے کے لئے تیاری کرنے میں کافی عرصہ لگا اور 100 میلوں والا فاصلہ جس پر حملہ ہونے جا رہا تھا۔ ہم ممکنہ طور پر اس کا سامنا کرنا چاہتے تھے۔
صرف ایک سبب جس کا بعد میں تذکرہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ ہمارے پاس فاضل فوج موجود نہیں تھی۔ اس کے باوجود ایک ہفتے بعد حیرت زدہ عوام نے اخبارات میں اس بات پر اپنے تعجب کا اظہارکیا کہ ہم نے آزاد، قبائلی اور با قاعدہ افواج کو ملا کر 25000 جوانوں پر مشمل فوج کا انتظام کیا۔ اس فوجی طاقت کے پاس غالباً پاکستانی توپ خانے کی 50 بندوقویں شامل تھیں۔ اس بات سے انکار کرنا مشکل ہوگا کہ اگر اس فوج کا ایک حصہ ہی لایا جاتا رابط سے بچا جا سکتا تھا۔ کافی منصوبہ بندی اور تیاریوں کے بعد ہم جموں سے پونچھ والی طویل مواصلات لائن کو کاٹنے کی حالت میں تھے۔ نوشہرا سے پرے بڑی تعداد میں ہندوستانی فوج کی موجودگی کو ہی خطرہ لاحق تھا۔ اس کے بعد دسمبر کے پہلے ہفتے میں ایک صبح بمباری شروع ہوئی اور 5000 گولے داغے گئے لیکن کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔ اگر یہاں پر حملہ کیا جاتا تو بھارتیوں کو جموں میں واقع ان کے فوجی مرکز سے کاٹ دیا جا سکتا تھا۔ اس کے لئے ہمیشہ سے ایک ہی وجہ پیش کی جاتی رہی ہے اور وہ یہ تھی کہ اس قسم کا حملہ جنگ کو ختم نہیں کرنا اور بھارتی افواج کو ہونے والے شدید نقصان کے نتیجے میں بھارت پاکستان کے ساتھ جنگ کا اعلان کرتا۔ اگر یہ حقیقی سبب تھا تو کوئی سوال کر سکتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اس خطرے کے امکان سے ہمارے اعلیٰ حکام کو منصوبہ بندی اور دو ہفتوں والی تیاری کے دوران نہیں تھا؟ بمباری اعلیٰ حکام کو منصوبہ بندی اور دو ہفتوں والی تیاری کے دوران نہیں تھا، بمباری شروع ہونے کے بعد اچانک یہ بات ان کے ذہن میں کیسے آئی ؟ چنانچہ رابطہ ختم ہونے کا خطرہ ختم ہو گیا تھا۔ لیکن بھارتی اب بھی دیگر خطرات کی زد میں تھے۔ انہوں نے آنے والے دنوں میں نوشہرا سے پرے 100 میل تک ایک کھلے بازو کی پیشکش کی جو بھارتی فوجی قافلوں اور پوسٹس پر قبائلیوں اور آزاد کے لئے گھات لگا کر حملہ کرنے اور قتل عام کرنے کے لئے ایک زبردست موقع تھا۔ یقیناً ان کے لئے جسم میں جلن پیدا کرنے کے مترادف ہو گا اور ہندوستانی فوج کے وسائل کو خالی کرنےکا امکان تھا۔ لیکن بد قسمتی سے دسمبر 1948کے جنگ بندی کے ذریعے انہیں بچا لیا گیا۔