کہا، پارلیمان میں فاروق عبداللہ کی تقریر وادی میں سیاحت کو زک پہنچانے کی کوشش
’’ کشمیریوں کے مصائب و مشکلات کی داغ بیل 1987 میں پڑی تھی، فاروق عبداللہ کو خود احتسابی سے کام لینا چاہیے‘‘

سرینگر: اپنی پارٹی کے سینئر لیڈر اور سرینگر کے میئر جُنید عظیم متو نے نیشنل کانفرنس کے صدر اور رُکنِ پارلیمٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی جانب سے بدنیتی پر منبنی گفتگو کو وادی میں نارملسی اور سیاحت کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
فاروق عبداللہ کی جانب سے لوک سبھا میں کی گئی تقریر پر اپنے مخالفانہ ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جُنید عظیم متو نے کہا کہ اگر چہ فاروق عبداللہ کو سیاسی مفادات کے حصول کا حق ہے اور اپنی پارٹی کو کشمیر کے حوالے سے بھاجپا کی پالیسیوں کا دفاع کرنے کا کوئی شوق نہیں لیکن یہ بات انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک ہے کہ فاروق عبداللہ نے یہ کہہ کر تمام حدیں پار کیں اور پوری دُنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر سیاحت کےلئے محفوظ نہیں ہے۔
اپنی پارٹی کے صدر دفتر سے جاری کردہ بیان میں جُنید عظیم متو نے کہا، ’’یہ اُن لاکھوں کشمیریوں کے ذریعہ معاش پر ایک کھُلا حملہ ہے، جن کے روزگار کا انحصار سیاحت پر ہے۔ ڈاکٹر فاروق کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ کشمیر کے سیاحتی شعبے نے ماضی قریب میں بھاری نقصانات کا سامنا کیا ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس شعبے سے وابستہ لوگ اب بھی اُس معاشی تباہی کے اثرات جھیل رہے ہیں۔ اگر ہر سیاسی جماعت کو اپنے سیاسی بیانیہ اور استدلال کو پیش کرنے کا پورا حق ہے، لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ نیشنل کانفرنس کو اپنے سیاسی مفادات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے اور یہ سیاسی مفادات کے حصول کےلئے کشمیر کی معیشت کو زک پہنچانے کی کوشش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی ہے۔‘‘
اپنی پارٹی کے لیڈر نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو خود احتسابی کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اُنہیں اس بات احساس ہونا چاہیے کہ کشمیریوں کے مصائب و مشکلات اور تباہی و دہشت گردی کی بنیاد 1987 میں اُس وقت پڑی تھی جب اقتدار کے حصول کےلئے جمہوریت کی بیخ کنی کی گئی تھی۔
اُنہوں نے کہا، ’’1987 میں اپنے سیاسی مخالفین پر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کے آمرانہ اور غیر جمہوری کریک ڈاون کے نتیجے میں کشمیریوں کی دو نسلیں معمول کی زندگی جینے کے اپنے حق سے محروم ہوگئی ہیں۔ دن دہاڑے کئے گئے اُس ظلم اور بربریت کے نتائج سے ہم آج بھی جھوجھ رہے ہیں۔ اپنی پارٹی کے سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے گزشتہ روز سویہ بُگ میں تقریر کرتے ہوئے بالکل صیح کہا کہ نیشنل کانفرنس نے 1987 میں عوام کی پوری نسل کو بد نظمی، تشدد اور تنہائی کی کھائی دھکیل دیا۔‘‘
نیشنل کانفرنس کو کشمیر میں امن اور نارملسی کو متاثر کرنے سے باز رہنے کا انتباہ کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے لیڈر نے کہا کہ ہر باشعور کشمیری اس بات پر متفق ہے کہ انصاف اور آئینی حقوق اور 2019 چھینے گئے اختیارات کو بحال کیا جانا چاہیے، لیکن کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کشمیریوں کو پوری دُنیا میں بدنام کرے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب اُن کی معاشی بقا داو پر لگی ہوئی ہے۔
جُنید عظیم متو نے مزید کہا، ’’کشمیر کو 1987 میں آگ لگادینے پر شرمندگی کا اظہار کرنے اور اس ضمن میں خود احتسابی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ڈاکٹر فاروق عبداللہ ایک بار پھر اپنے سیاسی مفادات کے حصول کےلئے کشمیریوں کو قربان کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرکزی سرکار کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب آپ اور آپ کی پارٹی دلی میں جانے پہچانے درمیانہ داروں کے ذریعہ بی جے پی کے ساتھ پس پردہ روابط بحال کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ دوہرا معیار اور منافقت آپ کی جماعت کی خصوصیت ہے اور اس پر کسی کو کوئی حیرانگی نہیں ہوتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے، بلکہ اس کا قوی امکان ہے کہ نیشنل کانفرنس پہلی جماعت ہوگی جو پی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملائے گی جیسا کہ اس نے ماضی میں کیا ہے۔ تاہم، ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ کشمیر کے بارے میں پورے ملک اور دُنیا کو گمراہ کرنے سے باز رہیں کیونکہ اگر سیاحتی شعبے کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے تباہ کُن اثرات کشمیری عوام کو جھیلنا پڑیں گے۔‘‘





