منیر احمد سرائے بلی :ایک گمنام کشمیری صوفی شاعر،جن کا قیمتی اثاثہ نذرِ آتش ہوا

منیر احمد سرائے بلی :ایک گمنام کشمیری صوفی شاعر،جن کا قیمتی اثاثہ نذرِ آتش ہوا

شوکت ساحل

سرینگر روالپورہ سرینگر سے تعلق رکھنے والے قاضی منیر الدین المعروف منیر احمد سرائے بلی گمنام کشمیری صوفی شاعر ہیں ،جن تک ایشین میل ملٹی میڈیا کی ٹیم پہنچ گئی اور اُن سے ادبی سفر کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ۔

ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ’بزم ِ عرفان ‘ میں وادی کشمیر کے معروف براڈ کاسٹر عبد الا حد فرہاد سے خصوصی گفتگو کی ۔ان کا کہناتھا کہ اُن کے والد قاضی سلام الدین کا نکاح وادی کشمیر کے مشہور ومعروف مورخ ومثنوی نگار حاجی محی الدین مسکین کی صاحبزادی سے ہوا تھا ۔ان کا کہناتھا کہ اس کے علاوہ اُن کے خاندان کا گہراتعلق شاعر کشمیر مہجور اور اُن کے خاندان سے بھی تھا ۔

منیر سرائے بلی کہتے ہیں کہ اُنکے ننہال میں اکثر وبیشتر ادبی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں اور وہ بچپن سے ہی ان محافل میں حصہ لیتے تھے ۔عمر میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے منیر سرائے بلی ادیبوں ،قلمکاروں اور شعراءکو کشمیری قہوہ پلایا کرتے تھے اور قہوے پلانے کی چاہت نے ہی اُن کے اندر شاعرانہ مزاج کو جنم دیا ۔

ان کا کہناتھا کہ علم حاصل کرنے کے دوران انہوں نے کشمیری زبان پر مکمل دسترس حاصل کر نے کی تگدو کی جس میں اُنہیں مسائل کا سامنا رہا ،کیوں کہ اُس وقت کشمیر میں فارسی نما کشمیری ادب کا مواد دستیاب تھا ۔

خالصہ ہائی اسکول مگر مل باغ سرینگر سے منیر سرائے بلی نے میٹرک پاس کیا ۔تاہم دوران تعلیم انہوں نے شاعری قلمبند کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا ،جو تادم جاری ہے ۔منیر سرائے بلی کہتے ہیں کہ اسکول میں ایک دن محفل مشاعرہ کا انعقاد ایک استاد وجی احمد اندرابی نے کیا ،جس میں شرکاءکو غزلیں اور نظمیں لکھ کر دی گئیں ۔

ان کا کہناتھا کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر پرتوی راج کھڈا نے ایک دن اچھہ بل کی تفریحی کرنے کا پروگرام بنایا اور سبھی طلبا کو تفریحی کے لئے اچھہ بل لیا گیا ۔یاد رہے کہ جنوبی ضلع اننت ناگ میں اچھہ بل واقع ہے ،جو کشمیر کے مشہور ومعروف سیاحتی مقامات میں سے ایک سیاحتی مقام ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دوران تفریحی ہیڈ ماسٹر نے دسویں جماعت میں زیر تعلیم طلبہ کو ایک جگہ جمع کرکے درس دیا کہ یہ مقام صرف سیر وتفریحی کے لئے ہی ہے بلکہ اس مقام کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہناتھا کہ ہیڈ ماسٹر نے سبھی طالب علموں کو اس مقام سے متعلق مضمون ،شاعری وغیرہ لکھنے کے لئے کہا ۔

منیر احمد سرائے بلی کہتے ہیں کہ اسکول میں ہر سنیچر وار کو ایک غیر نصابی سرگرمی سے متعلق تقر یب منعقد ہوا کرتی تھی ،جو طلبہ کی حوصلہ افزائی کا ایک بہترین طریقہ کار تھا ۔ان کا کہناتھا کہ ہفتہ وار تقریب میں انہوں نے بھی اردو میں ایک نظم سنائی ،جس پر ہیڈ ماسٹر نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ برقرار رکھیں ۔تاہم کشمیری زبان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے انہوں نے کشمیری زبان کو سیکھنے کو ناضابطہ عمل شروع کیا ۔

منیر سرائے بلی ،محکمہ سیلز ٹیکس میں ملازمت کرتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ دفتر میں ایک شاعر رفیق عبد الغفار مجبور نے ایک محفل مشاعرہ میں شرکت کرنے کے لئے اپنے ساتھ نٹی پورہ سرینگر سرینگر لے گئے ۔جہاں انہوں نے پہلی مرتبہ ’کشمیر کلچرل آر گنائزیشن ‘ کی جانب سے منعقدہ محفل مشاعرہ میں اپنا کلام سنایا ۔ان کا تھا کہ اسکے بعد 1968 میں نوجوان شعرا ءنے ایک ادبی تنظیم ’تلاش ِ ادب ‘ تشکیل دی ،جس کے بینر کے تحت کشمیری ادب کو فروغ دینے اور آبیاری کرنے کے لئے بہت کام کیا گیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ 90کی دہائی کے دوران آتشزدگی کے ایک واقعے میں اُن کا گھر واقع سرائے بالا سرینگر میں خاکستر ہوا ،جس میں اُن کی پہلی تصنیف جو اُن کے لئے کسی سرمایہ یا قیمتی اثاثہ سے کم نہ تھی ، شائع ہونے سے قبل ہی جل کر خاکستر ہوئی ۔منیر سرائے بلی کہتے ہیں کہ اس واقعے کی وجہ سے اُن کا دل کافی مجروح ہوا اور انہوں نے شعر وشاعری سے دوری اختیار کی ۔

وہ کہتے ہیں کہ روزنامہ’ خدمت ‘میں صفحہ گوشہ ادب کے مدیر ’مکھن لال محو‘ نے اُن کے کلام کو اس صفہ میں جگہ تھی اور اُن کے بڑے فر زند نے اخبار میں شائع اُن کے کلام کو جمع کیا اور مجھے سونپ کر آپ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ان کا کہناتھا کہ اس سے اُن کے اندر نئے سرے سے شعر وشاعری کرنے کا حوصلہ ملا اور انہوں نے دوبارہ یہ سلسلہ شروع کردیا ۔

اب انہوں نے جو کلام قلمبند کیا ہے ،اُسکی کتابت ہوچکی ہے اور یہ آنے والے وقت میں ”شہیج بونی“کے نام سے ان کا شاعری مجموعہ منظر عام پر آئے گی اور اس کو منظوری کے لئے کلچرل ایکڈمی کو بھی بھیج دیا گیا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.