باغبانی کا شعبہ جموں وکشمیر کی معیشت میں اہم اور کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 33 لاکھ آبادی کے لیے یہ شعبہ روزگار کا اہم ذریعہ ہے جبکہ تقریباً 7لاکھ خاندان بالواسطہ یا بالواسطہ اس شعبے سے وابستہ ہیں اور باغبانی کے شعبے پر انحصار کرتے ہیں۔جموں و کشمیرکو سیب اور اخروٹ کے لیے ’ایگری ایکسپورٹ زون‘ قرار دیا گیا ہے۔شعبہ باغبانی”مجموعی گھریلو پیداوار“میں اہم شراکت دار ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 1972-73 میں جموں وکشمیر میں1.83میٹرک ٹن کی پیداوار تھی ،جو بڑھ کر 24.94لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ چکی ہے ۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2015-16میں اس شعبے نے تقریباً6000.00کروڑ ٹرن اﺅور رہا یعنی منافع رہا ۔ باغبانی کا شعبہ دیگر متعلقہ کاروبار جیسے کھاد، کیڑے مار ادویات، زرعی مشینری، تاجروں اور پھلوں کی پروسیسنگ وغیرہ کو ملازمتیں بھی فراہم کرتا ہے۔
محکمہ ہاٹیکلچر پلاننگ اینڈمارکیٹنگ بروقت ،کاشتکاروں کو ’مارکیٹ فیڈ بیک اور راہنمائی ‘فراہم کرتا ہے ۔ باغبانی کی ترقی ایک اہم شعبہ ہے اور متعدد پروگراموں پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں میں زیادہ آمدنی پیدا ہو رہی ہے، اس طرح دیہاتوں میں معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے۔جموں وکشمیر کے مختلف اقسام کے پھل اپنے اچھے معیار اور ذائقے کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کر چکے ہیں۔اب تو کشمیر میں مختلف اقسام کے پھلوں کی کاشت بھی کی جاتی ہے ،جسکے بارے میں پہلے یہاں تصور ہی نہیں تھا ۔جنوبی کشمیر اور وسطی کشمیر میں تربوز کی کاشتکاری کا بڑھتا رجحان ،اس شعبہ کی ترقی کی نئی دلیل کو بیان کرتا ہے ۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ باغبانی کے شعبے کی ترقی کو حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے مختلف اقدامات سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔تاہم اس شعبہ کو شدید موسمی اور دیگر چیلنجز کا سامنا رہتا ہے ۔ناموافق موسمی حالات کے سبب اس شعبہ سے وابستہ خاندانوں کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ سرینگر ۔جموں شاہراہ کی خستہ حالی یا میوہ ٹرکوں کو چلنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے بھی یہ شعبہ متاثر ہوتا ہے ۔کیوں کہ بیرون ریاستوں کی منڈیوں تک کشمیری پھل وقت پر نہیں پہنچ پاتا ہے ۔
گزشتہ روز چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا نے ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں یہ ہدایت دی کہ شاہراہ پر میوہ سیزن شروع ہونے سے قبل ٹرکوں کے چلنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو ۔انہوں نے افسران کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ میوہ سیزن شروع ہونے سے قبل ہی اچھی طرح سے منصوبہ بندی کریں ،تاکہ جموں وکشمیر شاہراہ پر میوہ ٹرکوں کی بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی دی جاسکے ۔گزشتہ برس بھی ایسی ہی ہدایات دی گئی تھیں ،لیکن زمینی صورت ِ حال اس کے برعکس دیکھنے کو ملی اور میوہ صنعت سے وابستہ افراد کو صدائے احتجاج بلند کرنی پڑی ۔سرکاری ہدایت دیتی ہے اور زمینی حالات بدل جاتے ہیں ۔لہٰذا ضروری ہے کہ سڑک سے لیکر ائر کنڈیشنرکمروں تک تال میل کے فقدان کو ختم کیا جائے اور زمینی سطح پر ہدایات کو عملی جامعہ پہنا نے کے لئے ایک خود مختار نگران کمیٹی تشکیل دی جائے ،جسے یہ اختیارات ہو کہ وہ موقع پر ہی کسی بھی غفلت شعار یا خلاف وزری کے مرتکب فردکے خلاف کارروائی کرسکے ۔سنجید گی کا مظاہرہ کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔کہنے اور ہدایات دینے سے اہداف کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔