کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کے چھاپہ مار

بھارتی گرمائی حملہ

اپریل 1948 کے وسط میں کشمیر میں بھارت کا ایک شدید حملہ واقع ہونے کی توقع کی گئی تھی۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے وادی میں مزید فوجیں پہنچ رہی تھیں۔ ہمارے مخبروں کے ذریعے موصولہ روکے گئے پیغامات، خبریں اور شدید بھارتی پروپگنڈہ، یہ تمام برے واقعات کا اشارہ دے رہے تھے۔
سلامتی کونسل نے ہندوستان اور پاکستان دونوں سے درخواست کی تھی کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر غور خوض کئے جانے کے دوران صورتحال کو مزید بگڑنے سے باز رکھیں۔ لیکن بھارتی رہنما اس بات سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کے ابتدائی اعلامیوں کا خلاصلہ یہ تھا کہ وہ صرف بغاوت کو روکنا چاہتے ہیں اورا س کے بعد ایک منصفانہ رائے شماری منعقد کروانا ہے۔ چاہے اس کے نتیجے میں کشمیر پاکستان کو چلا جائے۔ تاہم اب ان کا متحرک ایک منصفانہ رائے شماری کے انعقا د کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی اس خواہش کے تحت ہے کہ پاکستان کے ذریعے قانونی مداخلت پر اسے سزا دی جائے بلک اس کا پورا زور اپنے عظیم تر کھلے مقاصد کے تحت کشمیر کے حتمی ملکیت حاصل کرنا ہے ۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد، پنڈت نہرو نے اس بات کو قانونی سازش اسمبلی کے سامنے کچھ اس طرح پیش کیا تھا کہ ہم یقیناً مکمل طور پر ایسے فیصلے پر دلچسپی رکھتے ہیں جس کا ریاست فیصلہ کرے گی۔ (الحاق سے متعلق) اپنی جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان ، سوویت یونین، چین اور افغانستان کی سرحد سے راست طور پر ملحق ہونے کی بنا پر کشمیر کا بھارت کی سلامتی اور بین الاقوامی روابط سے قریبی طور پر جڑا ہوا ہے۔ (جواہر لال نہرو، آزادی اور اس کے بعد صفحہ 60)
مسٹر گوپال کے الفاظ میں اس بات کو زیادہ واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ یہ چالیس لاکھ کشمیریوں کے مفادات نہیں ہیں جو بھارت کو متحرک رکھے ہوئے ہے۔ بلکہ اس کا مقصد وسطی ایشیا کے سیاسی نقشے میں اس کے اپنے کردار کے خواب ہیں، جو اسے متحرک رکھے ہوئے ہے۔ مسٹر گوپال کہتے ہیں ک کشمیر کے بغیر بھارت وسطی ایشیا کے سیاسی نقشے میں اہم مقام حاصل کرنے سے محروم ہو جائے گا۔ عسکری لحاظ سے کشمیر بھارت کی سلامتی کےلئے سب سے زیادہ اہم ے۔ تاریخ کے آغاز سے ہی اس کی یہی اہمیت رہی ہے۔ اس کے شمالی صوبے ہمیں پاکستان کے شمال مغربی صوبے اور شمالی پنجاب کی طرف راست باب الداخلہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ شمال میں بھارت کےلئے وسطی ایشیائی جمہوریہ یو ایس ایس ار، مشرق میں چین اور مغرب میں افغانستان کی جانب کھڑکی ہے۔ (کاروان نئی دہلی فروری 1950 صفحہ 67)
یہ ا س قسم کے خیالات تھے جن کے زیر اثر بھارت نے حملے کےلئے تیاریاں شروع کی تھیں اور صورتحال اس قدر خوفناک بنتی جا رہی تھی کہ اسے اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
چنانچہ 20اپریل کو پاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے ان الفاظ میں پاکستانی حکومت کو اطلاع دی کہ بھارتی فوج کی خصوصاً مظفر آباد کے علاقے میں ایک آسان جیت قبائلی لوگوں میں پاکستان کے ذریعے انہیں زیادہ راست تعاون فراہم کرنے میں ناکامی سے پاکستان کے خلاف نفرت پیدا ہونا تقریباً یقینی ہے ،یہ بات انہیں پاکستان کے خلاف ہونے پر آمادہ کر سکتی ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اگر پاکستان کو 25لاکھ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالے جانے کے نتیجے میں ایک اور شدید پناہ گزینوں کے مسئلے کا سامنا نہیں کرنا چاہئے۔ اگر بھارت کو پاکستان کے پچھلے پہلو کے دروازے پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی ہے۔ اگر شہری اور فوجی حوصلے کو ایک خطرناک حد تک متاثر نہیں کرنا ہے ، اگر تخریبی سیاسی قوتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی ہے اور انہیں پاکستان کے اندر آزاد نہیں چھوڑنا ہے تو یہ بات لازمی ہے کہ بھارتی فوج کو عمومی اوڑی ۔پونچھ۔ نوشہرہ سے آگے پیش رفت کرنے کی جازت نہیں دی جائے۔ (سیکورٹی کونسل ایس پی سی 464 صفحہ 36، 8فروری 1950۔
چند ہی دنوں بعد، حکومت پاکستان نے ذاتی دفاعی کارروائی کے طور پر کچھ فوجیوں کو کشمیر بھیج دیا۔ تاہم یہ فوری آخری ممکنہ لمحات تک بھارتی فوج کے ساتھ کسی بھی راست جھڑپ کو ٹالنے کےلئے تھی وہ آزاد افواج کے پیچھے رہنے کے مقصد سے تھیں جو کہ بھارتی فوجیوں کی طرف سے پاکستان کی سرحد میں کسی بھی حملے کو روکنے کےلئے تھی۔ کشمیر میں ہماری فوج کے داخلے کے ساتھ مجموعی کمانڈجی ایچ کیو پاکستان کے ماتحت چلی گئی۔ میں اب چھٹی پر تھا اور فوج کے ساتھ میری اگلی آمد پر مجھے صرف ایک محدود سیکٹر کی ذمہ داری سونپی جانے والی تھی۔
اپریل کے آخر میں میں این ڈبلیو ایف پی میں کو ہات میں اپنی بریگیڈ کے ساتھ تھا۔ جہاں سے ہمیں پنڈی تک جانے کا حکم دیا گیا۔ وہاں سے 10مئی کو ڈویژنل کمانڈر نے میری بریگیڈ کے حصوں کو ان کے ذریعے پہلے سے منتخب شدہ چند مقامات پر تعیناتی کےلئے بھیجا (جیسا کہ ذیل کے خاکے میں دکھایا گیا ہے)۔

بھارتی فوجیوں کا نیا اجتماع سرینگر پر مبنی تھا اور ان کی افواج کے مورچے اور مختلف مراکز سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ان کا اصل ہدف بارہمولہ اور اوڑی کی سڑک سے ہوتے ہوئے مظفر آباد میں میرے سیکٹر کی طرف آنا تھا۔
11مئی کو اس بنیادی محور پر اوڑی کی طرف جانے والی سڑک کے پہلو میں ہماری طرف والی فوج ایک با قاعدہ بٹالین۔ کچھ سرحدی اسکاﺅٹس ، کچھ قبائلی لوگ اور کچھ آزد اکائیوں پر مشتمل تھی۔ اسکاﺅٹس ایک سو سے بھی کم جوانوں پر مشتمل تھی۔ قبائلی لوگ معمول کے مطابق نا قابل پیش گوئی تھے اور اس علاقے میں آزاد ابھی تک حقیقی طور پر لڑائی کےلئے موزون نہیں تھے۔ آزاد حالانکہ انہیں برائے نام بٹالینوںمیں ترتیب دیا گیا تھا وہ در حقیقت بس رضا کاروں پر مشتمل ایک بے قاعدہ ٹیم تھی وہ صرف ایک رائفل سے لیس نہیں تھی۔ انہیں کوئی تنخواہ نہیں دی جاتی تھی نہ ہی وہ یونیفارم میں تھے ، انہیں با قاعدہ مقادر والا راشن دیا جاتا تھا اور نہ ہی ان راشنوں کی تقسیم کا مناسب نظم تھا۔ اس علاقے میں وہ لوگ زیادہ تر ایسے شہریوں پر مشتمل تھے۔ جنہیں مشکل سے کسی سابقہ فوجی تجربہ حاصل ہو۔
شمال کی طرف آگے ، کشن گنگا وادی میں ٹیٹوال سے دور ظاہری طور پر پہاڑیوں کے ذریعے علا حدہ تھا لیکن اسی سیکٹر کا حصہ تھا ہمارے پاس با قاعدہ فوج والی ایک رائفل کمپنی اور کچھ آزاد تھے۔
اس کامطلب یہ ہے کہ اصل لڑائی کے علاقے میں ہماری فوج با قاعدہ فوجوں کی ایک بٹالین اوڑی کے مقابل ایک بٹالین اور ٹیٹوال کے دوسری طرف ایک کمپنی پر ہی مشتمل تھی۔ میرے پاس مزید تین کمپنیاں جو کہ کافی پیچھے یعنی مظفر آباد کو بالا اور باغ میں ایک ایک کمپنی موجود تھی۔ لیکن یہ صرف مقامی دفاع کےلئے ہی تھیں اور انہیں آگے نقل و حرکت کی اجازت نہیں تھی۔ بریگیڈ کی تیسری بٹالین میں سے ایک کمپنی میری کشمیر سے باہر میں واقع تھی اور بقیہ فوج پونچھ کے مقابل میں میرے کنٹرول سے باہر تھی۔ بریگیڈ کے فوجی مرکز اور مجھے مری میں رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔
آگے والی فوجوں کو سونپا جانے والا کام عمومی طور پر کسی بھی اچانک حملے کو روکنا تھا۔ اس بات کی صراحت نہیںکی گئی تھی کہ شدید دباﺅ پڑنے دوسروں کے پسپائی اختیار کرنے پر بھی یا اس طرح کی کسی صورت میں کسی بھی حال میں کسی مخصوص مقامات کا دفاع کرنا تھا۔ ان کی قوت میں کسی بھی مزید اضافے کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا اور نہیں اپنے پاس موجود طاقت کی بنیاد پر اپنی پوری صلاحیت کو استعمال کرنا تھا۔
صورتحال کی بنیاد پر مجھے ایسا لگا کہ اوڑی کے مقابل سمت میں ہماری قوت کسی بھی معقول حملے کا مقابلہ کرنے کےلئے کافی نہیں ہے۔ لیکن ہم اپنی قو ت میں اضافہ نہیں کر سکے اور اس وجہ سے یہ بات ضروری تھی کہ دشمن فوج کی قوت شدت میں کمی کی جائے جو کہ اس علاقے میں ہماری ناکافی قوت پر حملہ آور ہونے والی تھی ۔ میں نے سوچا کہ اگر دشمن کے آگے بڑھنے پر ہم اپنے قبائلیوں اور آزاد کو استعمال کرکے انہیں پریشان کر سکیں تو اس طرح ان کی فوج کے کچھ حصے کا رخ سڑک سے دوسری طرف مبذول کر کے ہم ایسا کر سکیں گے۔ تاہم اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں اپنے جوانوں کو اونچی پہاڑیوں سے کافی دور مارے دائیں پہلو پر رکھنا ہوگا۔ جہاں سے ہم صرف اسی صورت میں ان کی فراہمی کر سکیں گے۔ جب ہمیں کہولا سے باغ کی طرف دائیں پہلو میں سڑک مل سکے۔ یہ تجویز قبول کی گئی اور ہمارے سرنگ بنانے والوں نے فوری طور پر سڑک پر کام کرنا شروع کیا ۔ ایک پرانی مٹی والی پگڈنڈی پہلے سے موجود تھی اور اب ہمیں اسے ٹرک گزارنے کےلئے موزوں بنانا تھا۔ جس کی مسافت 50میل پر مشتمل تھی۔ مقامی لوگ جو کہ بہت زیادہ پر جوش تھے، انہوں نے روزانہ تقریباً ایک ہزار بنا مزدوری والے مزدور فراہم کئے۔ لیکن ان کے باوجود اس کی تکمیل کےلئے طویل مدت درکار تھی۔
اس علاقہ میں ہماری آمد کے 4 دنوں بعد، 15 مئی کو جب کہ بریگیڈ اپنے کام میں مصروف تھا اور حملہ شروع ہونے سے تین دن قبل مجھے ایک نئی ہدایت موصول ہوئی جس کا خلاصہ ی تھا کہ مجھے بریگیڈ کو کسی دوسرے کی سر پرستی میں چھوڑنا تھا اور ٹیٹوال کے راستے پیش رفت کرنی تھی۔ جہاں پر شمالی دستہ تھا۔ جہاں 5000قبائلی میری ماتحتی میں ہونگے اور ہمیں سرینگر کی طرف ایک گہرا چھاپہ انجام دینا تھا جو کہ بھارتیوں کو شمالی جانب موڑ دے گا۔ اس طرح انہیں مظفر آباد کی طرف حملہ کرنے سے روکنا تھا۔ اگر یہ بات پہلے بتائی جاتی تو یہ خیال یقیناً ایک اچھا خیال تھا۔ اس مرحلہ میںمجھے ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ 5000 قبائلیوں کو سنبھالنا، جس کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ ایک بہت بھاری کام ہے۔ جسے بنا کسی منصوبہ بندی کے انجام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مجھے محاذ کے سب سے اہم حصے کو چھوڑنا ہوگا اور اکیلے پہلو میں جانا ہوگا اور وہاں پر کچھ کئے بغیر طویل مدت تک انتظار کرنا ہوگا۔ کیونکہ5000قبائلی فی الحال دستیاب نہیں تھے۔

قبائلیوں کو جمع کرنے کےلئے تقریباً 15 دن لگ جائیں گے۔ اس کے بعد مظفر آباد سے نکال کر ٹیٹوال کے دوسری طرف محاذ پر نکلنا تھا۔ اس کے لئے تقریباً 60 میل پہاڑوں پر پیدل چلنا تھا۔ کیوں کہ تقریباً4 دنوں پر مشتمل سفر تھا۔ اس کا مطلب چار دنوں کا راشن اپنے ساتھ لے جانا جس کے لئے تقریباً 4 دنوں پر مشتمل سفر تھا۔ اس کا مطلب چار دنوں کا راشن اپنے ساتھ لے جانا جس کےلئے تقریباً 800 قلی کی ضرورت پڑے گی دور افتادہ علاقے میں دو دنوں کی رسد کو بر قرار رکھنے کےلئے مزید 400 قلی درکار ہونگے اور چار مزید دستوں کی ضرورت ہو گی اور وہاں پر روزانہ کی رسد کو بر قرار رکھنے کے لئے فی ٹیم 200 قلیوں پر مشتمل 4مزید ٹیمیں درکار ہوں گیں۔ اگر ہم گولہ بارود سامان اور طبی ذخیرہ وغیرہ کو لے جانے کےلئے اسمیں مزید 200 قلی شامل کریں تو جملہ 2200 قلی درکارہوں گے جس کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ عجلت میں اتنی بڑی تعداد میں قلیوں کو جمع کرنا نا ممکن ہے۔ چنانچہ 19مئی کی صبح میں نے اس تجویز کے ساتھ اپنی رپورٹ جمع کی کہ گر میں تیاریاں مکمل ہونے تک انتظار کروں تو یہ بہتر ہوگا ورنہ میں ایک ایسے وقت میں وسائل کے بغیر سفر کر رہا ہوں گا جبکہ بھارتی فوج اوڑی سے پیش رفت کر رہی ہوگی۔
اس رپورٹ پر دستخط کئے ہوئے مشکل سے ایک گھنٹہ گزرا تھا کہ اچانک یہ خبر آئی کہ بھارتی پیش رفت پچھلی رات ہی شروع ہو گئی تھی۔ دن بھر مسلسل پیغامات آتے رہے اور شام تک جو تصویر سامنے آئی اس کا خاکہ نیچے پیش کیا گیا ہے۔
ہمیںواضح طور پر تین حملوں کا سامنا تھا یعنی اوڑی میں دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر اور شمال میں ٹیٹوال کی سمت میں۔
ایسا لگ رہا تھا کہ ہمارے ہر اول دستے پسپائی کا شکار ہو رے ہیں لیکن وہ دھیرے دھیرے اور ایک اچھے نظم کے ساتھ اور ہر بار مورچہ لگاتے ہوئے ایسا کر رہے تھے ۔ ہمیں بتایا گیا کہ بعض مقامات پر ہمیں شدید نقصانات کا سامنا ہے۔ جبک دیگر مقامات پر صورت حال مبہم تھی۔
یہ بات واضح تھی کہ جہاں تک ٹیٹوال کے شمالی علاقہ کا تعلق ہے، وہاں پر ہمارے پاس نہ تو فوج تھی اور نہ وقت کہ ہم اس وقت جاری صورتحال پر قابو پانے کےلئے فوری طور پر کچھ کر سکیں۔ اس وجہ سے اسے اس وقت تک کےلئے تقدیر کے حوالے چھوڑ دیا گیا۔
شاہراہ پر واقع محاذ ایک اہم تھا اور وہاں پر موجود بٹالین، پیچھے کی طرف دھکیل دیا جائے تو چکوٹی ٹھہرا جا سکتا تھا جو ایک اچھا خاصہ مورچہ تھی۔ لیکن میں نے سوچا کہ اسے اس اتنی دور تک پیچھے دھکیلنے کےلئے چند دن لگیں گے۔ تاہم دریا کے دوسرے کنارے پر ہمارے پاس صرف چند کمزور پارٹیاں تھیں، جن کی پشت پر جو کوئی دفاعی پوزیشن نہیں تھی۔ ہم انہیں اتنی دور تک پیچھے ڈھکیلنے کی حالت میں نہیں تھے۔ کیونکہ اس سے شاہراہ پر واقع بٹالین کی پوزیشن خطرے میں پڑنے کا اندیشہ تھا۔ اس لئے میں نے مری سے اس علاقے میں اپنی تنہا فاضل کمپنی بھیج دی۔ جہاں پر اسے دشمن سے رابطہ کرنا ہوگا اور ممکنہ حد تک ان کی پیش رفت میں تاخیر کرنی ہوگی۔
20 مئی کو چند گھنٹوں بعد صبح کے 5بجے آنے والی خبر کچھ اچھی نہیں تھی۔ ہم واضح طور پر ہر طرف پسپا ہو رہے تھے اور وہ بھی کافی تیزی سے دو پہر تک ملنے والی خبریں پریشان کن ہو گئیں۔ بٹالین کمانڈر سے ملنے والی ایک خبر میں بتایا گیا کہ بھارتی فوج اوڑی اور چکوٹی کے درمیانی علاقے میں کہیں پر پہنچ گئی ہے۔ آزاد نے پہلے جھٹکے لگتے ہی پسپائی اختیار کی اور منتشر ہو گئے ہیں۔ چنانچہ میدان میں صرف با قاعدہ فوج باقی رہ گئی تھی۔ جو کہ ایک بہت بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی۔
یہ ایک سنگین صورتحال تھی اس لئے میں نے خود ہی محاز پر آگے بڑھنے کےلئے اجازت حاصل کی ۔ نکلنے سے پہلے میں نے ایک اور بٹالین طلب کی جس کو بریگیڈ سے واپس لیا گیا تھا۔ میری اس درخواست پر اتفاق کیا گیا اور اگلے دن ایک دوسری بٹالین کو پہنچانے کا وعدہ کیا گیا۔
اس شام میں مری سے نکل گیا۔ اس وقت میرے ہمراہ دو سٹاف افسران ور پاکستان ٹائمز کے مدیر جناب فیض احمد فیض صاحب تھے۔ ہم شام کے تقریباً ۷ بجے مظفر آباد پہنچ گئے اور وہاں سے منظر کچھ شناسا لگ رہا تھا۔ سراسیمگی اور دہشت ایک بار پھر اس علاقے پر چھائی ہوئی تھی۔ شہری مظفر آباد جیسے علاقوں کو بھی چھوڑ کر جا رہے تھے اور چکوٹی کی راستے کی طرف گامزن تھے۔ وہاں پر پناہ گزینوں کا ایک بڑا ہجوم جمع تھا جو اپنی بکریوں، مینڈھوں اور دیگر سامان کے ساتھ فرار ہو رہے تھے۔

ایک جگہ پر میں نے سرحدی سکاﺅٹس کے دو دستوں کو رکوایا جو کہ فرار ہو کر جا رہے تھے۔ وہ حکومت کے تنخواہ دار ملازمین تھے اور فوجی قانون کے ماتحت آتے تھے اور اس لئے میں نے انہیں محاذ پر واپس جانے کا حکم دیا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا ۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال تھی۔ یہ کافی تربیت یافتہ جوان تھے جو کہ برطانوی حکومت کے دوران اپنی جنگی خصوصیات کی بنا پر مشہور تھے۔ اب وہ کھلے عام اپنی ذمہ داری کی انجام دہی پر سے انکار کر رہے تھے اور ان کی پست ہمتی کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ انہیں عملی طور پر کوئی جسمانی یا جانی نقصان کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ کہیں پر کچھ غلط ہوا ہے اور ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خوش قسمتی سے وہاں پر اطراف میں کچھ قبائلی موجود تھے اور ان کے لوڈ کی ہوئی بندوقوں کی نشانے پر میں نے سکاوٹس کی مدد سے انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد ان کے دو افسران کو گرفتار کیا۔ میں نے انہیں اپنے ساتھ لے گیا اور لاریوں سے محروم کئے گئے جوانوں جو اگلا حکم ملنے تک انتظار کرنے کےلئے کہا کچھ آگے بڑھنے کے بعد میں نے ایک جیپ بھی روکی جس میں ایک میڈیکل افسر اجازت کے بغیر علاقے کو چھوڑ کر جا رہا تھا۔ اسے جیپ سے باہر نکالتے ہوئے میں نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنا بوریا بستر اٹھا کر 15 میل پیدل چل کر اپنے یونٹ میں واپس چلا جائے اور ایک فوجی کو ایک نصب شدہ سنگین کے ساتھ بھیج دیا۔
کوٹی میں بٹالین کمانڈر اور دیگر جوان اب بھی حوصلہ مند نظر آرہے تھے۔ لیکن وہاں پر ایک عمومی تاثر تھا کہ صورتحال کافی امید افزا نہیں ے۔ چکوٹی ایک ایسی جگہ تھی جہاں پر ہم نے نومبر میں قیام کیا تھا۔ مجھے اچھے دفاعی مورچے کے طور پر اس کے امکانات کا علم تھا۔ اب کسی بھی قیمت پر اس کا دفاع کرنا تھا۔ ہمیں اگلی صبح دن کے اجالے میں میدان میں آنا تھا۔
کچھ فاصلہ واپس جا کر میں اپنی جماعت کو پہاڑ کی طرف لے گیا اور ایک کھائی میں قیام کیا جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ یہ جگہ ہوا سے محفوظ رکھے گی۔ صبح کی اولین کرونوں کے ساتھ اس علاقے میں حملہ آور ہوائی جہازوں کے ذریعے مشین گنوں سے گولیوں کو بوچھار کی گئی میں تعجب میں پڑ گیا کہ کشمیر کے تمام مقامات میں سے صرف اسی کھائی پر حملہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کا جواب نیچے دیا گیا ہے ہم ایک سربراہی کے مقام کے اوپر تھے۔ اس کے بعد مزید ہوائی جہاز آئے۔ ایک لاری تباہ کی گئی۔ اور سامان کے ایک ذخیرے کو نذر آتش کیا گیا۔
کچھ مسافت آگے سرن میں ایک جھونپڑی کی چھت پر ایک سفید کپڑے میں لپیٹی ہوئی ایک شکل نظر آیا۔ یہ ایک گتی جنگلاتی افسر تھا ہوائی جہازوں کونیچے سے اڑتے دیکھ کر جو کہ اس کی طرف آرہے تھے وہ آگے بڑھا میٹاڈور کے انداز میں اور خاموش کھڑا ہو گیا ۔ گو کہ وہ مشتعل بیل کو بھگا رہا ہو۔ اس نے اپنی روش تبدیل کی اور اسی وقت چھت سے چھلانگ لگائی۔ لیکن اس کی جیپ کو آگ لگا دی گئی تھی۔ موڑ کے اطراف تقریباً 100 گز کے فاصلے پر مزید دو شکلیں نظر آئیں ،ان کی خفیہ نقل و حرکت کسی حد تک خلاف معمول والی تھی۔ وہ یونیفارم میں تھے۔ہمارے دو بھگوڑے سکاﺅٹس تھے جو بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے غصے سے چلا کر ایک عملے کے افسر کو دور کر انہیں روکنے کےلئے کہا ۔ انہیں ایک کھلی جگہ پر ایک بم نے انہیں دبوچ لیا۔
دشمن کے ہوائی جہاز علاقے میں مسلسل طور پر اڑ رے تھے کسی بھی چیز کو نہیں چھوڑا گیا۔ ٹرکوں، جھونپڑیوں یا تنہا افراد، فوجیوں حتیٰ کہ شہریوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ پہلا وقفہ پاتے ہی میں دو بارہ چکوٹی کی طرف جانے کےلئے نکلا۔ افسر دگی کی حالت میں سڑک کے دوسری طرف میں نے کچھ لوگوں کو یونیفارم میں دیکھا ،یہ جان کر مجھے شدید دہشت ہوئی کہ یہ وہ کمپنی تھی جنہیں میں نے 36 گھنٹوں قبل مری میں بھیجا تھا کہ وہ دریا پار کرے اور دشمن کی پیش رفت میں تاخیر پیدا کریں۔ بظاہر وہاں پر پہنچنے کے بعد انہوں نے دریا پار کیا تھا۔ لیکن دیہاتیوں کے ذریعے یہ سننے کے بعد دشمن پہنچ چکے ہیں۔ کمپنی کے کمانڈر نے اپنے جوانوں کو سڑک سے محفوظ حصے کی کی طرف لایا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے خود دشمن کو نہیں دیکھا تھا اور یقیناً دشمن فی الحال وہاں پر موجود نہیں تھے۔ اپنی فیلڈ گلس کے ذریعے دور دور تک دیکھنے پر مجھے ایسی کوئی علامت نظر نہیں آسکی۔ اس لئے انہیں فوری طور پر واپس جانا تھا ور دریا پار کرنا تھا۔ لیکن مجھے ان کے پہلے پہاڑ پر پہنچنے کا نظارہ کرنے کےلئے دو گھنٹے انتظار کرنا تھا۔

چکوٹی میں پہنچ کر دفاعی مورچے منتخب کئے گئے اور ان پر کام شروع ہو گیا۔ اب اس بات پر غور کرنا تھا کہ نئی بٹالین کو جو اس شب آنے والی تھی، اسے کہاں تعینات کیا جائے۔ اس کے لئے مجھے عمومی صورتحال پر غور کرنا تھا۔
میرے بریگیڈ کے انٹیلی جنس افسر نے جی ایچ کیو آزاد سے دشمن سے متعلق میرے خبریں لائی تھیں۔ اس میں اگلے علاقوں سے بڑی تعداد میں موصول ہونے والے پیغامات کی نقول پر شامل تھیں۔ جو کہ گزشتہ چار ہفتوں یا اس کے آس پاس سے موصول ہوئی تھیں اور ان اطلاعات کی بنا پر وہ بھارتی طاقت اور ان کی یونٹوں کے ناموں سے متعلق معقول طور پر درست بیان دے سکا تھا ۔یہ بات واضح ہوئی کہ دشمن دریا کے دونوں کناروں سے ہمارے سامنے ہے جو کہ کافی توپوں کے ساتھ دو بریگیڈ پر مشتمل تھا۔ ان کے پاس اوڑی میں کچھ ہلکی ٹینکیں بھی موجود تھی اور یقینا انہیں بھارتی فضائیہ کے ذریعے پوری طرح تعاون حاصل تھا۔ جہاں تک ہم بتا سکتے ہیں اس علاقے میں بھارتی گیارہ بٹالین مع دو پیادہ کمپنیاں کچھ کشمیری ملیشیاءدو فیلڈ توپ خانے کی بیڑیاں دو پہاڑی توپ خانوں کی بیڑیاں، ایک بیٹری اینٹی ٹینک بندوقویں کے مساوی تھی، لیکن چونکہ صرف دو بریگیڈ پڑاﺅ کے مرکز میں فوج دو بڑے سائز والے بریگیڈز میں تقسیم کی گئی تھی ۔یہ اس بات پر قیاس کرتے ہوئے کہ دو یا تین بٹالین کو اوڑی کیمپ کی حفاظت کے لئے پیچھے چھوڑا جائے گا، ان کے پاس ہم پر چڑھائی کرنے کےلئے آٹھ یا نو بٹالین اب بھی موجود ہے۔
اس کے بر خلاف نئی بٹالین کی آمد پر میری طاقت دو بٹالین ہو جائے گی۔ ایک دوسری رائفل کمپنی اور ایک مشین گنوں والی پلیٹون۔ اس میں اسکاﺅٹس کو شامل کرنے پر جملہ ڈھائی بٹالین ہو جائے گی۔ مجھے معلوم ہے کہ کچھ قبائلی اور آزاد واپس آجائیں گے۔ فی الحال وہ وہاں پر موجود نہیں تھے۔ اس لئے موازناتی پوزیشن کچھ حسب ذیل اس طرح سے نظر آتا ہے۔
پچھلے علاقوں میں پیادہ فوج دشمن 2یا 3بٹالین ہماری فوج ایک سے کم بٹالین
جنگی علاقے میں پیادہ فوج دشمن 8یا 9بٹالین ہماری فوج 1 1/2 بٹالین
مشین گنیں دشمن 12 ہماری فوج 4
توپیں دشمن 24 ہماری کچھ نہیں
اینٹی ٹینک بندوقیں دشمن 12 ہماری فوج کچھ نہیں
بکتر بند گاڑیاں دشمن 9 ہماری فوج کچھ نہیں
فضائی مدد بھارتی فضائیہ ہماری کچھ نہیں
ہماری طاقت میں موجود اس قدر فرق کی وجہ مجھے ناگزیر طور پر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ مجھے بھارتیوں کو راست طور پر میری تھوڑی سے طاقت پر حملہ کرنے نہیں دینا چاہئے۔ تاہم اگر میں مکمل طور پر دفاعی حالت اختیار کروں تو یہ اچھی حالت جلد یا بعد میں افرادی اور ہتھیاروں کی طاقت کی وج سے مغلوب ہو جائے گی۔
اس لئے ہمارے لئے زیادہ امید افزا بات یہ تھی کہ بھارتیوں کو پہاڑوں کی طرف بھگانے کی کوشش کی جائے اور ان کو منتشر کیا جائے تاکہ وہ ایک موثر حملہ کرنے کےلئے اپنی توجہ معقول طور پر مرتکز کرنے کے قابل نہ رہیں۔ چونکہ وہ ہمیشہ قبائلیوں سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی مرکزی فوج کی حفاظت کو یقینی بنانے کےلئے آسانی سے پہلوﺅں میں پھیل جائیں گے۔ تاہم اس مرحلے میں اس علاقے میں قبائلی لوگ موجود نہیں تھے۔ لیکن وہ دو بارہ آ رہے ہوںگے۔ اسلئے دریں اثنا کچھ با قاعدہ فوج کو قبائلیوں کا کردار ادا کرناہوگا۔ غالباً بھارتیوں کو چند دنوں تک یہ فرق معلوم نہ ہو سکے گا۔ چونکہ باغ روڑ بھی کچھ مدت تک تیار نہیں ہوگا اس لئے ہمیں فی الحال وقفے وقفے سے جگہیں تبدیل کرنے والی چھوٹی چھاپہ مار دستوں کی صورت میں رہنے پر اکتفا کرنا ہوگا ۔ اس عمومی پالیسی کے حصول میں میں نے دریا کے دونوں کناروں پر ایک اچھا دفاعی مورچہ اپنانے کا فیصلہ کیا جس کے تحت ہر ایک کنارہ ایک بٹالین کے حوالے کیا جائے گا۔ جبکہ بقیہ نصف بٹالین کو پہلوﺅں پر پریشان کرنے کے کام کی انجام دہی کے لئے فوجیں مہیا کر ے گی۔ میں نے اس بات کی امید کی کہ دو دفاعی پوزیشنوں سے ہم دشمن پر ایک سنگین دباﺅ ڈال سکیں گے جو انہیں چند وقت کےلئے خاموش کر سکتی ہے اور اس کے بعد اس وقت تک آزاد اور قبائلیوں کے واپس آنے کی صورت میں ہم زیادہ موثر طور پر دشمنوں کے پہلوﺅں پر چھا جائیں گے (جیسا کہ نیچے دیئے گئے خاکے میں واضح کیا گیا ہے)۔
دو بٹالینوں کے حقیقی محل وقوع کے تعلق سے ایک کےلئے چکوٹی میں سڑک پر پہلے ہی مورچہ دیا گیا ہے وہ یہ کہ ایک اچھا مورچہ تھا اور دریا کے دوسری جانب موجود بٹالین کےلئے میں نے بیب دوری کا انتخاب کیا جو کہ 6000 فٹ اونچا پہاڑ، کیونکہ اس کے پہلوﺅں تک رسائی حاصل کرنا کافی مشکل تھا اور اس کا اگلا حصہ ایک جھرنے سے گھرا تھا جو کہ اسے کچھ تحفظ فراہم کرتا تھا۔ ایک واحد سنگین دشواری یہ تھی کہ بیب ڈوری چکوٹی کے پیچھے 5 میل دوری پر تھا اور اسکی مدد نہیں کی جا سکے گی۔ کیونکہ ہمارے پاس پانڈو پہاڑی 9000 فٹ اونچی ) پر قبضہ جمانے کےلئے وقت نہیں تھا اور پانڈو اور بیب ڈوری کا درمیانی علاقہ کافی حد تک محفوظ نہیں تھا ۔ اس طرح بیب ڈوری ایک ہی انتخاب تھا۔
تاہم اس کا مطلب یہ تھا کہ دو بٹالین ایک دوسرے کی مدد کرنے کی پو ری حالت میں نہیں ہوں گے اور اس کا یہ مطلب بھی ہوگا کہ چکوٹی کے پیچھے واقع 5میلوں پر مشتمل سڑک دریا کی دوری جانب سے دشمنوں کے ذریعے نگرانی اور گولہ باری کی زد میں رہے گی۔ اس کو قبول کرنا پڑا ۔ چنانچہ 24 مئی کی شب جب نئی بٹالین پہنچ گئی تو یہ فوراً بیب ڈوری میں پڑاﺅ ڈالنے کےلئے چلی گئی اور اس کے بعد پریشان کرنے والے دستے دونوں پہلوﺅں میں چلے گئے۔

اگلے چند دنوں کے دوران دشمن نے اپنی پیش رفت جاری رکھی ان کے حملوں کو توپ خانوں کے ذریعے اچھی طرح تقویت دی گئی اور ان کی ہوائی جہازوں نے دن کے اجالے میں فعال طور پر ہم پر اپنا دباﺅ بڑھایا۔ ہمارے اگلے پوسٹس جو کہ کمزوری کے ساتھ ہمارے قبضے میں تھے ۔ انہیں توپ خانوں کی مدد نہیں حاصل تھی ۔ انہیں ایک کے بعد دیگرے شکست دی گئی تھی اور ہمیں مستقل طور پر چکوٹی اور بیب ڈوری کی طرف پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔
تاہم اس دوران پہلوﺅں میں طاقتور پریشان کرنے کی کارروائی جاری تھی اور چونکہ آزاد اور قبائلیوں کے چھوٹے دستے محاز پر واپس لوٹ رہے تھے اور پریشان کرنے والے دستوں کو تقویت دینے کےلئے انہیں بھیجا جا رہا تھا۔ دشمن کو باہر بھگانے کا منصوبہ کامیاب ہو رہا تھا اور وہ زیادہ تعداد میں پہلوﺅں میں منتشر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ چنانچہ وہ بے کار پہاڑوں پر قبضہ جمانے میں زیادہ تر قوت صرف کر رہے تھے۔ چنانچہ ان کی پیش رفت میں معقول حد تک سست رفتار لائی گئی۔ یہ تمام کام ایک ہفتے میں مکمل کیا گیا۔ مئی کے اختتام تک ہمیں اپنے دفاعی مورچوں میں واپس دھکیلا گیا تھا اور دشمن چکوٹی اور بیب ڈوری کے سامنے حملہ کرنے کی حالت میں کھڑا تھا۔
چکوٹی میں دشمن نے دو قدرے جلد بازی سے کوششیں کی۔ انہیں حقیقی طور پر حملہ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یہ زیادہ تر حملے سے قبل والی ابتدائی کاروائیوںکی طرح لگ رہی تھیں۔ میں نے گمان کیا کہ انہوں نے اسے اس لئے روک دیا ہے کہ وہ زیادہ گہرا فوجی جاسوسی کی انجام دینے اور حملے کے لئے زیادہ قوت مجتمع کرنے کےلئے اسے روک دیا ہے۔ لیکن حقیقت میں دشمن ہمارے پریشان کرنے والے دستوں کا تعاقب کرتے ہوئے اپنے بائیں پہلو کی طرف منتشر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس طرح اور مزید کئی دنوں تک حملہ نہیں ہوا۔ دریں اثنا دریا کے دوسرے کنارے پر بھی بھارتیوں نے بظاہر بیب ڈوری پر زور آزمائی کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور اس کے بجائے انہوں نے پہلوﺅں میں جانے اور نقل حرکت کو گھیرے میں لیتے ہوئے اسے خالی کرانے کے بارے میں سوچا۔ ممکن ہے کہ ان کا مقصد پچھلے بازو کو توڑنے کے لئے دائیں چکر کی طرف گئے ہوں تاکہ اس طرح بٹالین کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یا ان کا مقصد پوزیشن پر اس کے بائیں جانب سے حملہ کرنا تھا۔ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا مقصد کیا تھا یہ علاقہ بہت بڑا تھا۔ پہاڑ بہت ہی اونچے تھے اور وہاں پر کئی ایک گزر گاہیں تھیں۔ اس لئے تمام خطرے والے مقامات کی نگرانی کرنا ممکن نہیں تھا۔ بھارتیوں کےلئے اس کارروائی کےلئے کچھ شدیدکوہ ِ پیمائی کی مہارت درکار تھی اور ہمارے لئے ان کی نقل و حرکت کی پیشن گوئی کرنے اور پیش قیاسی کرنے کےلئے کافی سوچنا ہوتا ہے۔ اس کام کے لئے آزاد کے چند فوجی باقی رہ گئے تھے۔ اور ممکنہ خطرے والے مقامات پر دشمن کی پیش رفت کو روکنے کےلئے ہمیں اکثر اس کام کی شروعات دشمن کی نقل و حرکت کے شروع ہونے کے کئی گھنٹوں پہلے ایسا کرنا پڑا تھا۔ تاہم کئی دنوں کی نقل و حرکت اور جوابی کارروائی کے بعد بالآخر قسمت نے ہمارا ساتھ دیا اور ہر بار ہمیں درست مقامات ملے۔ دونوں کناروں پر ٹھہراﺅ آگیا تھا۔
اس کھیل کے درمیان میں نے صف اول والے چند بھارتیوں کو ان کے مرکزی دستے سے الگ کرنے کےلئے بچے کچھے قبائلیوں پر مشتمل ایک لشکر کو آگے کی طرف بھیج دیا۔ اس لشکر نے اپنے آپ کو قدرے تنہا اور بھارتی مورچوںکے درمیان پھنسا ہوا دیکھ کر اپنا کام انجام نہیں دیا ۔ لیکن ان کی اس حرکت سے ایک غیر متوقع اثر سامنے آیا۔ بھارتیوں نے واضح طور پر یہ گمان کیا کہ ہم پانڈو میں حملہ کرنے کےلئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے ایک وائرلیس پیغام میں کہی جسے ہم نے حاصل کیا۔ اس عجیب پیغام نے اس بات کا اشارہ دیا کہ ہم پر حملہ کرنے کے بجائے وہ اب اپنے ذاتی دفاع کےلئے فکر مند ہو گئے تھے۔ یہ ایک دہشت تھی۔ جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے تھے ۔ ان کے خوف کو مزید گہرا کرنے کے لئے ہم نے اپنی دو نئی آئی ہوئی پہاڑی بندوقوں کے ذریعے پہلی بار نصف شب کو پانڈو کے سامنے والے پہاڑ پر فائرنگ کرنی شروع کی ور اس کے بعد قبائلیوں نے آہستہ آہستہ پیش قدمی کرتے ہوئے عمدہ چھاپہ مارا۔ دشمن کارد عمل فوری تھا۔ ویریلائٹس چلنے لگی۔ پیرا شوٹ بھڑک اٹھے اور تمام سمتوں میں شدید خوف و ہراس کے عالم میں گولے اور مشین گنیں اندھا دھند چلنے لگی میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فی الحال کم از کم بیب ڈوری کے سامنے ڈرنے کی کوئی ضرور ت نہیں۔
حالانکہ دریا کے دونوں کناروں پر موجود بھارتی ہماری دفاعی محاذوں کے سامنے رک گئے تھے۔ لیکن صورتحال میں اب بھی تناﺅ تھا۔ اس وقت تک انہیں غالباً 500 جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان کی طاقت اب بھی اس حالت میں تھی کہ وہ اب بھی ہمارے لئے ایک مسلسل خطرہ تھے۔ دن اور رات کی چوکسی جاری رہی اور ہماری دہشت پیدا کرنے والی جماعتوں نے بڑھتی ہوئی شدت کے ساتھ کام کرتے ہوئے بھارتیوں کو پہلوﺅں میں بھگا دیا۔ چنانچہ مزید کئی دن گزر گئے ۔ ہم نے ایک بہت بڑے حملے کےلئے انتظار کیا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

دریں اثناءشمالی علاقے میں دشمن نے چار بٹالین والے ایک بریگیڈ کے ساتھ ٹیٹوال کی طرف پیش رفت کی جس کی ہماری ایک رائفل کمپنی والا چھوٹا سا دستہ مزاحمت نہ کر سکا۔ اس کے بعد اس علاقے کو بریگیڈئر حاجی افتخار احمد کے ماتحت ایک اور سیکٹر میں تبدیل کیا گیا۔ اس کے بعد یہ علاقہ میرے کنٹرول سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد واقع ہونے والی محاذ کی مجموعی تنظیم نو کے ذریعے میرے بریگیڈ کو ایک بٹالین اور دو فیلڈ بندوقوں کے ایک سیکشن کے ذریعے جو کہ جون کے وسط میں پہنچ گئیں، مزید مستحکم کیا گیا۔
جون کے اختتام تک چھ ماہ پہلے بڑے ہی دھوم دھام کے ساتھ شروع کی گئی۔ بھارتی حملہ مزید پانچ یا چھ سو جانی نقصانات اٹھانے کے بعد اب مکمل طور پر رک گیا۔ شدید جھٹکا جس کی ہم نے توقع کی تھی واقع نہیں ہوا۔ دشمن نے ہمارے منتخب مورچوں میں ہم پر حملہ نہیں کیا تھا۔ جہاں پر اس سے انہیں یقینی طور پر شدید جانی نقصانات ہونے والے تھے۔ چنانچہ گزشتہ چار ہفتوں کے دوران انہوں نے اپنے حملے کی بنیادی محور پر کوئی پیش رفت نہیں کی۔ حالانکہ وہ سامنے سے یا پہلوﺅں سے گھس کر ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہوئے۔ ہم نے ان پر راست طور پر سامنے سے چھاپے مارے۔ ان کے دفاعی مراکز میں گھات لگا کر حملہ کیا اور ان کے پہلوﺅں کو پریشان کر دیا اور ان کو 8تا 9 میل والی دوری پر دھکیل دیا۔
چنانچہ ، اصل بھارتی فوج جس نے پانچ بٹالین کے ساتھ دریا کے دونوں کناروں پر پیش قدمی کرکے چکوٹی اور بیب ڈوری پر پہنچ گئی تھی۔ اب 80 مربع میل والے علاقے میں بھوتوں کا تعاقب کرنے کے بعد منتشر ہو گئی۔
اس مرحلہ میں اس بات پر غور کرنا دلچسپ ہو سکتا ہے کہ بھارتی حملے میں ٹھہراﺅ کیوں آگیا۔ یہ ایسا نہیں تھا کہ اس لئے کہ ہم نے ان کا رخ پھیر دیا ہو کیونکہ کوئی شدید لڑائی نہیں ہوئی تھی۔ ان کے جانی اور مالی نقصانات بہت کم ہوئے تھے۔ ان کی طاقت میں اب بھی کچھ فرق نہیں آیا تھا۔ اس کے باوجود انہیں اپنے مقصد کو چھوڑنا پڑا۔
پہلی بات یہ ہے کہ بھارتی طاقت ایک طویل مدت کے دوران جمع ہوئی تھی۔ جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنا منصوبہ کافی پہلے بنایا تھا۔ شاہراہ اور ٹیٹوال کی جانب ان کے حملے کی سمت اور شدت یہ بات ظاہر کرتی تھی کہ وہ مظفر آباد پر قبضہ جمانا اور جنگ ختم کرنا چاہتے تھے۔ ان کی تشہیر اسی مقصد کو بیان کرتی تھی۔ انہوں نے اس بات کا کبھی دعویٰ نہیں کیا تھا کہ کارروائی کو ہماری طرف سے کئے جانے والے حملے کو روکنے کےلئے یا ان کے اپنے دفاعی مورچوں کو بہتر بنانے کےلئے کیا گیا تھا۔ در حقیقت اگر ان کا مقصد صرف چکوٹی تک جانا تھا تو یہ بات بے معنی ہے۔ کیونکہ اس مقصد کے لئے اتنی پریشانی اور جوکھم اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ چنانچہ مظفر آباد یقیناً ان کا ہدف تھا اور جنگ ختم کرنا ان کا مقصد تھا۔
کارروائی کی منصوبہ بندی میں انہوں نے فطری طور پر تمام ممکنہ عوامل بشمول ہماری ظاہری طاقت اور پاکستان کے ساتھ عمومی جنگ کے امکان کو ملحوظ رکھا ہوگا۔ پاکستانی فوجیوں کی موجودگیوں کے تعلق سے انہوں نے پہلے ہی اس بات کی مکمل معلومات کا اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے تصور کیا ہوگا کہ وہ جیت سکتے ہیں اور اس لئے انہوں نے اپنے منتخب کردہ جگہ اور وقت پر کاروائی کی تھی۔ اس کے بعد چھ ہفتوں کے اندر انہوں نے اپنا مقصد پس پشت ڈال دیا اور ہم جانتے ہیں کہ ایسا سب کچھ اقوام متحدہ یا کسی دوسری بیرونی اخلاقی یا مادی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر ہوا۔ یہ تصور کرنا محفوظ ہوگا کہ یہ دستبرداری کسی اچانک نیک نیتی تھی کہ بھارتی رہنماﺅں کے دلوں میں ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے واقع نہیں ہوئی تھی، اس لئے لازمی طور پر یہ نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ انہوں نے اپنے مقصد سے دستبرداری اس لئے اختیار کی تھی کہ وہ یہ بات جان گئے تھے کہ ان کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
بھارتی رہنماﺅں اور کمانڈروں کے دماغ میں کیا چل رہا تھا اسے ہم جان نہیں سکتے۔ لیکن ہم کم از کم اس کے بارے میں قیاس کر سکتے ہیں ۔ ابتدائی چند دنوں میں انہوں نے بغیر کسی مشکل کے پیش رفت کی اور لازمی طور پر انہیں اس بات سے کافی حوصلہ ملا ہوگا۔ مخالف طاقت کتنی آسانی سے ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد وہ چکوٹی اور بیب ڈوری میں دو دفاعی مورچوں پر ہمارے مقابل آگئے اور ان پر انہوں نے شدید طور پر حملہ نہیں کیا تھا۔ ان کی جنگ جاسوسی کی رپورٹوں اور ماری فائرنگ کی طاقت نے لازمی طور پر ان کے سامنے یہ بات ظار کی ہوگی کہ ہر جگہ پر یہ مورچے صرف ایک بٹالین کے قبضے میں ہے۔ وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ ہمارے پاس کوئی توپ خانہ، ٹینک یا ہوائی جہاز نہیں ہے۔ تاہم جب وہ چکوٹی پر آگئے وہ یہ بات ان کے سامنے آشکار ہوئی کہ ایک واحد بٹالین پیوسط دفاعی مورچہ سنبھالے ہوئے تھی۔ یہ مورچہ اس قدر پیوستہ تھا کہ اس کے کسی بھی حصے کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا تھا اور اس پر مجموعی طور پر حملہ کرنا تھا۔ جس کا مطلب ایک مکمل بریگیڈ کے ساتھ حملہ کرنا عمومی طور پر مسلمہ ضابطے کے مطابق حملہ آوروں کو دفاع سے تین گنا زیادہ قوت کا حاصل ہونا چاہئے ،ہمارے بائیں پہلو پر حملے کو دریا کی وجہ سے امکان سے خارج کیا گیا۔ چکوٹی کے سامنے موجود گہرے نالے کی وجہ سے سامنے سے حملہ شدید طور پر پست ہمتی کا سبب بنا۔ چنانچہ ہمارا صرف بایاں پہلو باقی رہ گیا تھا۔ لیکن اس میں بذات خود اصل مورچے پر ابتدائی حملہ کرنے میں جنگل سے گزارنا اور آہستہ آہستہ بہت سارے اونچے پہاڑوں پر قبضہ کرنا شامل تھا۔

اس کے لئے کئی دن لگیں گے اور بھارتیوں نے غالباً اس بات کا اندازہ لگا لیا ہوگاکہ اس سے وہ اپنے آپ کو کمین گاہ سے گولیاں چلائیںگے۔ گھات لگا کر حملہ کئے جانے اور اس علاقے میں رہنے والے قبائلیوں کے ذریعے کئے جانے والے چھاپوں کی زد میں ہونگے۔ اس خطرے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کےلئے بڑے پیمانے پر دستہ بندی ضروری ہوگی۔ ایک سو قبائلی صرف اس کام کے لئے انہیں ایک بٹالین کو مصروف رکھنے پر مجبور کریں گے۔ ان کے پاس اضافی بٹالین موجود تھیں۔ لیکن ابتدا ئی کارروائی کے طور پر انہیں صرف یہی کرنا نہیں تھا۔ حقیقی حملے میں ایک مضبوط توپ خانے کے ذریعے بمباری کے ذریعے مدد کرنی ہوگی، اس کے لئے ان کی تمام بندوقوں کو آگے سڑک پر لانا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں پھر ایک بار ان کی فوج قبائلیوں کے ذریعے کئے جانے والے پہلوﺅں سے حملوں کی زد میں آسکتی ہے اور ان کی حفاظت کےلئے دو بارہ مزید پیادہ فوج کو کام پر لگانا ہوگا۔ اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ کتنے قبائلی موجودتھے اور فوجیوں کو دستوں کی شکل دینے علیحدگی کا عمل ایک لا متناہی سلسلہ ہو سکتا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ بذات خود ایک مزاحم وجہ ہو۔ لیکن اس بات پر گمان کرتے ہوئے کہ وہ یہ تمام انتظامات کر سکیں گے۔ چکوٹی پر حملہ بھی اب شدید جانی نقصان کے مترادف ہو سکتا ہے اور اس سے کیا حاصل ہوگا۔
ممکن ہے کہ ہم چکوٹی کے بعد دو یا تین میل پیچھے ایک اور موچے پر قبضہ بنائیں اور یہ تمام عمل پھر دو بارہ انجام دینے کی ضرورت پڑے گی اور اس طرح یہ عمل مسلسل طور پر جاری رہے گا۔ ہر پیش رفت کے ساتھ بھارتیوں کے پاس حفاظت کےلئے بڑے بازو ہوں اور قبائلی ان کی فوجوں کو لا متناہی طور پر مسلسل بھگائیں گے اور منتشر کرتے رہیں گے۔ ہماری با قاعدہ فوج کے چند بٹالین آزاد اور قبائلیوں کے ساتھ مل کر پہلوﺅں میں رہتے ہوئے اس کھیل کو اس وقت تک کھیل سکتی ہے، جب تک مظفر آباد جانے کےلئے ایک بھارتی فوج کو ایک بڑے حصے کی ضرورت پڑے۔ لیکن اس قدر بڑی فوج کو یہاں پر استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ ایک تنگ راستہ پہاڑیاں اور دیکھ بھال کا مسئلہ ایسے امور ہیں جو بھارتیوں کے ذریعہ یہاں پر محفوظ طور پر تعینات کی جا نی والی فواج کی تعداد کی قطعی طور پر حد بندی کرے گا اور اس قدر فوج کو یہاں پر لایا جائے تو بھی یہ کسی مخصوص ضرورت کےلئے ہی کافی ہوگی۔مخصوص صورت حال ہمیشہ یکساں نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ ہم پاکستانی فوج سے مزید تھوڑی سے طاقت شامل کرکے دو بارہ توازن کو ابتر کر سکیں گے ۔ چنانچہ بھارتیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سوائے اس کے کہ پاکستانی فوج کو ہی اس جگہ سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ پر رکھا جائے۔ اس خاص موقع پر مظفر آباد پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لئے چکوٹی جیسے چھوٹے فوجی پڑاﺅ پر حملہ کرنے کےلئے اس قدر جانی و مالی اخراجات کوئی معنی نہیں رکھتے۔
ہماری جانب ہمیں اس بات کا پتہ چلا کہ چند مخصوص طبعی کیفیات میں آزاد اور قبائلیوں کے ساتھ مناسب طور پر مل کر تھوڑی سی مقدار میں منظم فوجیں ایک بہت بڑی طاقت کو پسپا کر سکتی ہے۔ بشرطیکہ ہمارے مورچے مستحکم ہو جس کے اطراف قبائل و جارحانہ طور پر کارروائی کر سکے یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے جو کہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یہ کہ بھارتیوں نے یہاں پر اپنی ناکامی کے بعد انہوں نے پاکستان کے میدانی علاقے میں فوجی فیصلہ کیوں نہیں لیا۔ ایسا ممکن ہے کہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ وہ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو غلط ٹھہرائیں گے۔ چاہے ان کےمطابق ہم نے انہیں جنگ کی توسع کی معقول وجہ اور اس کا جواز پیدا کیا ہو۔ یا ایسا بھی ممکن ہے کہ پاکستانی علاقوں میں بھی قبائلیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہماری فوج کا خوف ان کے ذہن و دماغ میں بسا ہوا ہو۔ قبائلیوں کا خوف بھارتیوں کے ذہنی افق پر کس طرح چھایا ہو اہے اس کا اندازہ بھارت کے مسٹر وہی پی مینن کے اس خیال سے لگایا جا سکتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ذاتی طور پر میں نے جب حکومت ہند کو مہاراجہ کشمیر کے ذریعے الحاق کو قبول کرنے کی تجویز پیش کی تو اس وقت میرے ذہن میں صرف اور صرف ایک ہی فکر تھی یعنی چھاپہ ماروں کے ذریعے کشمیر پر حملہ بھارت کی سالمیت کےلئے ایک سنگین خطرہ تھا ۔ سوائے مغل عہد کے دوران ایک مختصر وقفے۔ محمود غزنوی کے وقت سے لے کر اب تک یعنی تقریباً آٹھ صدیوں تک بھارت شمالی مغرب سے حملوں کا شکار رہا ہے۔ محمود غزنوی نے انہیں سے کم از کم سترہ حملوں کی قیادت کی اور نئی پاکستانی ریاست کے قیام کے ۰۱ ہفتوں سے کم مدت میں اس کی سب سے پہلی کارروائی اقدام شمال مغرب سے حملوں کےلئے آزادی فراہم کرنا تھا۔ آج سرینگر، کل دہلی، جو قوم اپنی تاریخ یا جغرافیہ بھول جاتی ہے وہ اپنے آپ کو سنگین خطرات سے دو چار کرتی ہے۔
اسباب جو کچھ بھی رہے ہوں حقیقت یہ کہ جنگ نہیں آئی اور بھارت نے اس کی خواہش کی ہوتی تو اب اس کےلئے ایک اچھا موقع تھا۔ کیونکہ وہ ہمارے اکثر فوجیوں کو پنجاب سے طویل ترین دوری پر واقع کشمیر کے ایک حصے میں بھگا سکتے ہیں، اس وقت میرا تاثر یہ تھا کہ اگر ہماری کارروائیوں کے نتیجے میں جنگ نہ ہوتی کشمیر میں کوئی اور کارروائی ایسا نہیں کرتی کیونکہ ہند و پاک جنگ دونوں ملکوں کےلئے ایک بہت ہی غیر یقینی تجویز نظر آتی ہے۔

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.