منگل, مئی ۱۳, ۲۰۲۵
14 C
Srinagar

نوجوانوں میں عدم برداشت

شہر سرینگر کیسا تھ ساتھ وادی کے دیگر کئی اضلاع میں کچھ ایسا واقعات رونما ہوئے ،جن کے بارے میں کبھی بھی کشمیری سماج یا معاشرے نے تصور نہیں کیا تھا ۔چوری ،ڈکیتی اور قتل وغارت جیسے واقعات کسی بھی معاشرے کے لئے باعث تشویش ہوتے ہیں ۔اسی طرح کشمیر ی سماج میں چوری اور ڈاکہ زنی کے بعد چھرا زنی کے بڑے واقعات قابل تشویش ہی نہیں بلکہ لمحہ فکر یہ ہے ۔گوکہ کشمیری سماج اور معاشرہ اسلامی ہے ،لہٰذا ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کا رونما ہونا ہم سب کے لئے توجہ طلب معاملہ ہے ۔

اسلام تو ایسا مذہب ہے جو سب سے زیادہ صبر و تحمل اور برداشت کا درس دیتاہے کیوں کہ انسان اگر صبر و تحمل کادامن چھوڑدے تو پھر جذبات کے بہاﺅ میں وہ ا س قدر اندھا ہوجاتاہے کہ اچھے برے کی تمیزکھودیتاہے۔اس کیفیت میں کیے گئے فیصلے ہمیشہ انسان کے لیے پچھتاوا کے باعث بنتے ہیں۔جلد بازی میں اٹھایاگیا قدم انسان کے گلے پڑسکتاہے اور کبھی کبھار یہ ایک بھیانک روپ اختیار کرتے ہوئے بستیوں کی بستیاں اجاڑدیتاہے۔

بدقسمتی سے آج ہمیں بھی اپنے معاشرے میں جن خوفناک مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک بڑا مسئلہ ”عدم برداشت“ کا ہے۔یہ زہر معاشرے کی رگوں میں اس قدر گہرائی کے ساتھ سرایت کرچکا ہے کہ آج آپ کوہردوسرا شخص صبر و تحمل سے خالی نظر آئے گا۔بھیڑ میں اگر آپ کسی فرد سے معمولی ٹکراجائیں یا اے ٹی ایم بوتھ یا پھر کہیں کسی اور قطار میں کچھ سیکنڈز زیادہ لگاجائیں توآپ عدم برداشت کے مظاہرے کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ لوگ کس قدر غصیلے انداز میں اپنا ردِ عمل دکھاتے ہیں۔اس عدم برداشت کی بھٹی میں اب نوجوان نسل جل رہی ہے ۔چھرا زنی کے کئی ایسے واقعات جس نے نہ صرف معاشرے کو جھنجھوڑ دیا ہے بلکہ اس بات کو بھی ظاہر کیا ہے کہ اب نوجوانوں کے اندر برداشت کی حد عبور ہورہی ہے ۔گوگہ نوجوانوں کا خون گرم ہوتا ہے اور اسکے جذبات بھی گرم ہوتے ہیں ،تاہم نوجوانوں کو برداشت کیساتھ صبر وتحمل کی تعلیم دینا وقت کا اہم تقاضاہے ۔

صبر و تحمل سے محروم کسی بھی معاشرے میں خاندانی اقدار بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔گیلپ سروے کے مطابق ”عدم برداشت“ کی وجہ سے حالیہ کچھ عرصے میں طلاق کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔اس وبا نے جہاں معاشرے کے دیگر طبقات کو متاثر کیا وہیں نوجوان نسل بھی بری طرح اس کی زد میں آچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تعلیمی اداروں میں معمولی باتوں پربھی بڑے واقعات دیکھنے کوملتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اگر سوشل میڈیاپر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بھی آپ کو نوجوان نسل اپنا غصہ اور جارحیت دکھاتی نظر آئے گی اور خاص طورپر سیاسی معاملات پر تو کوئی شخص اپنا موقف پیش ہی نہیں کرسکتا،کسی سیاسی لیڈر کے حق میں یاخلاف میں معقول بات پر بھی اس قدر شدید ردِ عمل آتاہے کہ انسان کانوں کو ہاتھ لگالیتا ہے۔نوجوانوں کے اندر برداشت کے عنصر یا شعور کو پیدا کرنے کے لئے مذہبی ،سیاسی اور نوجوانوں راہنماﺅں کا رول اہم بنتا ہے جبکہ تعلیمی اداروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔

 

 

Popular Categories

spot_imgspot_img