کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کے چھاپہ مار

موسم سرما

4دسمبر کو مجھے وزیر اعظم کے ساتھ کانفرنس کرنے کےلئے پنڈی بلایا گیا۔ یہ کانفرنس سرکٹ ہاﺅس میں ہوئی۔ اب تک کمانڈر ان چیف جنرل میسروی کو اعتماد میں لیا جا چکا تھا۔ انہوں نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی لیکن متصل کمرہ میں موجود تھے، جہاں سے انہوں نے مجھے کرنل اسکندر مرزا کے ہاتھوں ایک پرچی بھیجی۔ جن میں ان سے باہر ملا تو ہنس کر انہوں نے گزشتہ ملاقات کا تذکرہ کیا جب میں نے تھوڑا مشتعل کر دیا تھا۔
یہ ستمبر کی بات تھی۔ کشمیر میں مشکلات شروع ہو گئیں تھیں جب جنرل نے جی ایچ کیو آفیسر کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے ہمیں بھارت کے ساتھ دشمنی کے خلاف متنبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ جنگ کی صورت میں بھارت پاکستان کو دس دن میں روند دے گا۔ مجھے اسی بات پر غصہ آیا تھا کیونکہ یہ بات اس وقت کہی گئی جبک بھارتی فوج کے دو آفیسر بھی موجود تھے۔ میں نے ان کے پاس ایک احتجاجی نوٹ لکھ بھیجا جس میں یہ نشاندہی کی تھی کہ یہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ انہوں نے بھارتی افسروں کی موجودگی میں ایسی بات کہہ دی۔ اس طرح کے بیانات سے ان کی غلط حوصلہ افزائی ہوگی۔ صرف عددی اور مادی طاقت کا حوالہ گمراہ کن ہو سکتا تھا کیونکہ ان حقائق کو جنگ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ لڑنے کےلئے لوگوں کے جذبات اور خواہش بھی تو تھے اور اسی لئے میں نے نشاندہی کی کہ میرا ماننا ہے کہ اگر بھارتی پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھتے ہیں تو ہم ان سے جنگ لڑیں گے چاہے ہمارے پاس لڑنے کےلئے لکڑی کا ایک ٹکڑا ہو۔
میری نوٹ پڑھنے کے بعد انہوں نے مجھے بلا بھیجا اور مجھ سے کہا کہ شاید اس نے کمانڈر ان چیف پاکستان کی پوسٹ کو قبول نہیں کیا ہے اور اسے مسترد کر دیا لیکن بعد میں قائد اعظم کے اصرار پر چھ مہینے میں اسے قبول کر لیا۔ انہیں بھارتی افسران کی موجودگی میں کہی گئی بات کو لے کر افسوس تھا لیکن اب بھی ان کا خیال تھا کہ کوئی بھی چیز تنہا لکڑی کی چھڑی سے نہیں ہو سکتی تھی۔ اب انہوں نے مجھے سراہا اور کہا کہ بہت اچھے تمہیں لکڑی کی چھڑی سے مزید کچھ نہیں کرنا ہوگا۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔ انہوں نے مجھے دس لاکھ راﺅنڈ گولہ بارود دیا جو اگلے مہینے کام آئے گا اور مجھے تین ہفتوں کےلئے آرمی کے بارہ رضا کار افسروں کو لے جانے کی اجازت دی۔
اگلے تین ہفتوں میں دسمبر کے اختتام پر بھارت اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ تحریک آزادی کو ختم نہیں کر سکتا، اس لئے معاملہ اقوام متحدہ لے کر گیا۔ وہ کشمیری لوگوں کی تحقیقی خواہشات کے مقاصد کےلئے اقوام متحدہ مداخلت کی درخواست لےکر نہیں گیا۔ اس نے اقوام متحدہ سے وہ کرنے کی درخواست کی جو وہ خود سے نہیں کر سکا۔ پہلے اس نے چاہا کہ پاکستان چھاپہ مار کی مدد سے باز آجائے۔ تبھی اس نے چھاپہ مار کو باہر کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور اب اقوام متحدہ سے یہی دو چیزیں کرانا چاہتا تھا ۔ بھارتی سرکاری پیپر کے مطابق ، بھارت نے فیصلہ کیا کہ کشمیر معاملے کو سیکورٹی کونسل لے جانے اس امید میں کہ اقوام متحدہ عالمی عوامی رائے کو لا کر پاکستان کو الگ کر دے اور کشمیر میں اپنے حملہ کو بند کرکے اس پر چھا جائے ۔
بھارت کی دلچسپی اتنی اس لئے تھی تاکہ پاکستان کو عالمی کورٹ سے کسی حقیقی مشکل سے بڑھ کر قانونی مداخلت کےلئے سزا دی جائے۔ لوگوں کی خواہشات کے غیر جانبدار تحقیق کا بھی علاج ہو۔ جو اب یقیناً وہی تھا جو برطانوی وفد نے سیکورٹی کونسل کے سامنے 27جنوری 1948 کی تجویزات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے واضح کیا میرے خیال میں جنگ روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس میں ملوث لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ مناسب صلح صفائی ہوگی اور ان کے حقوق انہیں دیئے جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں جب جنگجوﺅں کو معلوم ہے کہ مستقبل میں ان کےلئے کیا ہوگا تو وہ روکنے پر متفق ہو جائیں گے۔
چنانچہ سیکورٹی کونسل بھارت کی مدد کو آگے نہیں آیا اور جدو جہد پہلے کی طرح جاری رہی۔ لیکن آپریشن کا سب سے بڑا مقام جموں سے مغرب کی سمت کا علاقہ بن گیا۔ ادھر وہ قوت میں بڑھے اور وہ جتنا ممکن ہو سکا آزاد اور قبائلیوں سے مزاحمت کی۔ مختلف مقامات پر بھاری جنگ ہوئی۔ ایک بھارتی بریگیڈیر مارا گیا اور فوجی سازو سامان کافی مقدار میں حاصل ہوا جس میں بکتر بند کاریں بھی شامل تھیں اور دھیرے دھیرے تعطل وجود پذیر ہوا۔ جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ موسم سرما میں کوئی فیصلہ نہیں لیا جا سکتا۔ موسم بہار کی آمد آمد تھی جس کے لئے ہم تیار تھے۔
آزاد کمیٹی اور جی ایچ کیو آزاد نے اپنی کوششوں سے ذرائع جمع کرنا اور مختلف سیکٹروں کو منظم کرنا شروع کیا۔ انجام کار آئندہ دنوں میں جو ہوا اس کا سہرا یقینی طور پر مختلف آزاد سیکٹروں کو جانا چاہئے جہاں بہت سے بوجھ بغیر مدد کے اٹھائے گئے۔ لیکن کچھ سہرا آزاد کمیٹی اور جی ایچ کیو آزاد کو بھی جانا چاہئے کیونکہ یہی اصل منتظم تھے۔ ان دو اداروں کے علاوہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام شراکت کو بھی نہیں بھولنا چاہئے وہ محدود اور محصور تھے وہ خاموش نہیں تھے جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہوتا ہے۔

آزاد کمیٹی آہستہ آہستہ اعلیٰ درجہ کی سیاسی مسلح کمیٹی بن گئی، جو اب ویسی نہ تھی جیسی بنائی گئی تھی وہ اب طریقہ کار، انتظامیہ اور سیاست کے معاملات میں حصہ لیتی ۔ اس کمیٹی کے صدر جسٹس دین محمد ایک ریٹائرڈ جج تھے اور میٹنگیں سیشن میں کسی کورٹ کی طرح لگتی تھی۔ معمولی رپورٹ اور بیانات کبھی کبھار الزام کی طرح ہو جاتے اور کراس اگزامنیشن کی عدم موجودگی میں انہیں قبول کیا جاتا۔ نتیجہ کے طور پر جنگی جدو جہد کو آگے بڑھانے کے بجائے لوگ خود کے دفاع کے لئے زیادہ متفکر تھے۔ حوصلہ کے حصول کے بجائے ابتدائی ذرائع اور اختراع کے عمل کچھ غیر ذمہ دارانہ لگنے لگے تھے۔ سچے اور قانونی ذہنیت کے حامل صدر کو کسی نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔ وہ کسی دستوری جج کی طرح بیٹھ کر ایسے معاملہ پر بات کرتے جو مکمل طور پر غیر دستوری ہے۔
جی ایچ کیو آزاد پر جنگی کوشش کی ذمہ داری کا بوجھ بلا واسطہ زیادہ تھا۔ لیکن پھر لڑنے والے افسران سے معاملہ کرنے اور غیر موزوں اسٹاف، ریکارڈ اور گفتگو وغیرہ رکھنے میں اس کی کوششیں گوکہ مخلصانہ تھیں لیکن ہمیشہ فائدہ مند نہیں ہوتی تھیں۔
جی ایچ کیو آزاد سے اوپر، دفاعی وزیر تھا جو کشمیر کی ریاستی آرمی کا بہت عزت دار ریٹائرڈ افسر تھا، وہ اس بے ترتیب سیٹ اپ سے مطمئن نہیں تھا، جو اس نے دیکھا۔ وہ برطانوی فیلڈ سروس قواعد کی ایک انڈر لائن کاپی اپنے پاس رکھتا اور اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیوں ہیڈ کوارٹر کو جنرل اسٹاف ، ایجنٹ جنرل اور کوارٹر ماسٹر جنرل وغیرہ جیسے مختلف شاخوں میں منظم نہیں کیا گیا تھا۔ چند وقتی افراد کے لوگوں کے ساتھ جو میجر سے اعلیٰ سطح کا نہ ہو جس نے جنگ کے دوران صرف فلاحی افسر کے طور پر کام کیا ہو۔ بد قسمتی سے یہ ممکن نہ تھا کہ کسی چیز کو واضح کیا جائے ۔
تبھی جی ایچ کیو آزاد سے نیچے، ساری جگہوں پر بہار تھا۔ ان کمانڈروں اور لیڈروں کی مشروم کی ترقی تھی، جنہیں قبول کیا جانا تھا یا کم از کم خوش کیا جانا تھا کہ وہ سبھی رضا کار تھے۔
پونچھ کے قریب دو حلیف کمانڈروں نے ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھا جو اپنی رپورٹ جی ایچ کیو آزاد کو بھیجتے۔ ایک خود کو کیپٹن کہتا تو دوسرا میجر کہتا۔ پھر انہوں نے خود کو میجر اور کرنل کے عہدہ پر فائزکیا۔ پھر کرنل اور بریگیڈیر کے عہدہ پر اور اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ دونوں فیلڈ مارشل بن گئے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ کوئی عہدہ خالی نہیں تھا۔ وزیر برائے دفاع نے کیپٹن جنرل کے جرمن رینک کو قبول کر لیا۔ کیپٹن جنرل اوپر اور فیلڈ مارشل نیچے ہو گیا۔ جی ایچ کیو آزاد کو اپنے پوری مہارت سے اس کام کومنظم کرنا تھا۔ نہ صرف یہ کہ یہ کافی ہوا بلکہ جنگ جیتنے کے نئے طریقوں اور ذرائع کے بارے میں غور کرنے کےلئے اسے وقت بھی مل گیا۔ جس کے لئے ہمیشہ مشورہ آتے تھے۔ ان میں خاص طور پر ایک فضائی حملہ کی منصوبہ بندی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا۔
بہت ابتدائی خط و کتابت کے بعد انتہائی خفیہ اور عجیب منصوبے کا وعدہ کرتے ہوئے ائر فورس کے سابق وارنٹ آفیسر نے اپنی اسکیم میں ٹائپ شدہ نیلے رنگ میں ایک مکمل فائل آخر کار بھیجی ۔ تاہم اس کا نتیجہ محض کشمیر کی تشویش کے لئے نہیں تھی۔ یہ پورے بھارت پر گلائڈر سے چلنے والے حملے اور فتح کا منصوبہ تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ یہ ممکنہ منصوبہ ہو سکتا ہے۔ اگر اس کے نفاذ کے لئے درکار دو ہزار گلائڈروں کو ہی حاصل کرنا ممکن ہوتا۔
مزید جلد وعدہ کرنے والا ایک دیگر مشورہ تھا جسے بھارتی پناہ گزین نے دیا تھا۔ اسے یقین تھاکہ وہ لمبی رینک کی راکٹوں کو بنانا جانتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے جرمنی خیالات کا مطالعہ کر رکھا تھا اور اس کے پاس اضافہ کرنے کے لئے اپنا اختراع تھا۔ اسے صرف ورک شاپ کی سہولیت درکار تھی اور وہ مظاہرہ کرے گا کہ وہ کیا کر سکتا ہے۔ اسے پاگل کہہ لو یا کچھ بھی لیکن وہ اسے رکنے والا نہیں تھا۔ لہٰذا اسے ضروری سہولیات مہیا کی گئی اور وہ کام کرنے لگا ۔ چھ ہفتوں کے اختتام پر جو اس نے اختراع کیا وہ بارہ فٹ لمبی بلٹ تھی جو سیز رنگ میں رنگا ہوا لکڑی کا ایک مضبوط ٹکڑا تھا۔ جس کے بیس میں ایک سفید چانداور تارہ بنا ہوا تھا۔

اس مدت میں پونچھ میں سرگرمی شدت پکڑ گئی تھی ۔یہ علاقہ نومبر 1947 کے درمیان سے خالی ہو گیا تھا۔ اس علاقہ کے اندر بھارتی آرمی کے بریگیڈیئر پریتم سنگھ کمانڈ کر رہے تھے۔ ان کی فوج اور زیادہ تر شہری آبادی بالکل باہر کی فراہمی پر منحصر تھے۔ اوڑی پونچھ کے روڑ کو ہم نے نومبر سے بند کر دیا تھا اور دوسرا زمینی راستہ مارگ پہاڑیوں سے ہو کر وادی سے آنے والا ناہموار راستہ تھا۔ لیکن کثرت سے برف باری کی وجہ سے اب یہ بھی کھلا نہیں تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس راستہ کے بند ہونے سے پہلے اس سے کتنے لوگ پونچھ گئے تھے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ تھوڑے لوگ ہی رہے ہوںگے۔ چونکہ سارے راستے مسدود تھے۔ بھارتی صرف ہوائی سفر پر منحصر تھے۔ کچھ ڈکوٹا جو یہاں اتر رہے تھے وہ کسی بھی صورت کم سے کم ضروریات زندگی لا سکے لیکن اب چونکہ ہم نے لینڈنگ گراﺅنڈ پر فائرنگ کر دی تھی، گزارے کا یہ طریقہ بھی بند ہو گیا اور چند دنوں میں پونچھ کی حالت انتہائی غیر یقینی ہو گئی تھی۔ لیکن تبھی ایک غیر معمولی چیز واقع ہوئی۔ سکٹر کمانڈر کرنل صادق خان کو حکم ملا کہ ہمیں پونچھ کے خلاف کے عارضی طور پر جنگ بندی کرنی ہے۔ یہ بیمار اور زخمیوں کو واضح طور پر انخلاءکی اجازت دینا تھا۔ تاہم بالکل ہمارے ہی لوگوں کی نظر میں بھارتیوں کو کمک پہنچانے اور پاس کی پہاڑیوں پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا تاکہ وہ مستقبل میں ہوائی لینڈنگ محفوظ طریقے سے کر سکیں۔
سردیوں کا موسم امن کے ساتھ گزر گیا لیکن ہر جگہ حالات جامد نہیں تھے۔ ہوم فرنٹ پر کرپشن نے اپنا سر اٹھانا شروع کیا۔ راولپنڈی سے بھیجے گئے سامان اور راشن اکثر فرنٹ پر بالکل بھی نہیں پہنچ رہا تھا ۔ کپڑے، رضائیاں اور دیگر سامان جسے پاکستانی لوگ دل کھول کر بھیج رہے تھے وہ پنڈی مارکیٹ میں کھلے عام بیچے جا رہے تھے ۔ افسران اور لیڈران جو فوری انتظامی مشکلات کےلئے آزاد علاقہ کا معائنہ کرنے سے مشکل سے راغب ہوئے۔ انہوں نے خود کو ٹمبر اور دیگر ذرائع آمدنی کے نجی معاملے میں مشغول کر لیا۔
ہمارے سینئر بھی بیکار نہیں بیٹھے تھے۔ پہلے صرف امداد کا حصول ہی تھا جو ان کو دینا ہی نہیں تھا اس کے بعد کشمیر میں خدمت کےلئے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے افسران کی سرگرم مخالفت تھی اور اس کے بعد میرے خلاف ذاتی طور پر ایک مہم چلائی گئی جس کے بارے میںاس وجہ سے بالکل بھی واقف نہیں تھا کہ میرا پورا وقت اور توجہ سامنے والے مسائل پر مرکوز تھی۔ مجھے ایک معمولی صدمہ ہوا جب ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ مجھے تین ماہ کی تنخواہ سے اس بنیاد پر محروم کیا گیا ہے کہ میں خدمت سے غائب تھا۔ میں نے یہ سوچ کر کچھ نہیں کیا کہ یہ ایک معمولی بات ہے جس کا بعد میں تصفیہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں پر بس نہیں تھا۔ پنڈی کے اپنے اگلے دورے پرمجھے معلوم ہوا کہ سلیکشن بورڈ، جو ہمارے جرنیلوں پر مشتمل تھا نے فیصلہ کیا کہ مجھے سے جونیئر دو افسران کو مجھ پر ترقی دی جائے۔ اس بار مجھے نوٹس لینا تھا۔ یہ فیصلہ اس قدر غیر منصفانہ تھا کہ میرے احتجاج کے چوبیس گھنٹوں کے اندر یہ صاف ہو گیا لیکن ابھی بھی بس نہیں تھا ،اس وقت میں نے اس سازش وار مخالفت کی گہرائی کا کوئی تصور نہیں کیا تھا جو میرے خلاف چند مختصر ہفتوں میں پیدا ہوئی تھی۔
تاہم، مجھے ادراک ہو گیا تھا کہ فرنٹ میں ضروری کوآپریشن(تعاﺅن) نہیں مل رہا تھا۔ وزیر عظم سے لاہور کانفرنس میں ملاقات کے موقع پر مجھے تین ماہ تک جدو جہد جاری رکھنے کا کام سونپا گیا اور چونکہ یہ تین ماہ پورے ہو گئے تھے۔ میرا فرض پورا ہو گیا تھا اور میں نے احساس کیا کہ فوج میں واپسی کا یہی درست وقت ہے۔
فرنٹ کے کسی حصہ پر کوئی قریب الوقوع خطرہ نہیں تھا۔ اوڑی کاعلاقہ بھاری برف باری کی زد میں تھا اور کم و بیش ہر جگہ حالات پر سکون تھے۔ کشمیر کے ہمارے دعویٰ کو عالمی طور پر بہت اہم حمایت حاصل ہوئی اور فیصلہ اقوام متحدہ کو کرنا تھا۔
لہٰذا فروری 1948 کے وسط میں میںنے خود کو فارغ کرنے کی درخواست کی۔ کچھ دن بعد دوسری کانفرنس میں وزیر اعظم نے اتفاق کر لیا حکومت اس کام کو آرمی کے سپرد کرنے پر غور کر رہی تھی، اسی اثنا آزاد کمیٹی کی میری ذمہ داریاں بریگیڈیئر شیر خان کے سپرد کر دی گئیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.