مشہور زمانہ جھیل ڈل کے کنارے پرواقع ایس کے آئی سی سی میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جمعرات کو کہاتھا کہ کشمیر صرف اپنی خوبصورتی کےلئے نہیں بلکہ متعدد ثقافتوں اور تصوف کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا تھاکہ وادی صوفیوں کی سرزمین اور تصوف کا مرکز ہے۔منوج سنہانے کہا تھاکہ ثقافت اور تمام مذاہب کا احترام کئی دہائیوں سے کشمیر کی روایت رہی ہے جبکہ میں کہوں گا کہ اگر اسلام دودھ ہے، توہندﺅ مذہب چینی ہے، سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہی اصل تصوف اور اس کا پیغام ہے۔
دنیا میں کشمیر سے زیادہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کےلئے مشہور کوئی اور جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تصوف کا سلسلہ ہر ایک کو ایک ساتھ رکھتا ہے اور مذہب، ذات اور جنس کی رکاوٹوں کو توڑنے میں مدد کرتا ہے۔ویسے بھی انسا نوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسا نوں کی مددکے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جا تا ہے لیکن دین اسلام نے خد مت ِ انسا نیت کو بہترین اخلا ق اور عظیم عبا دت قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسا نوں کو یکساں صلا حیتوںاور اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ ان کے درمیان فرق وتفا وت کورکھا ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کا ئنات رنگ وبو کا حسن و جما ل ہے۔
وہ رب چاہتا تو ہر ایک کو خوبصوت ،مال دار،اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تواس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے، شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا۔اس علیم و حکیم رب نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے۔وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معا شرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مددان کے وہ بھا ئی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو۔مسلم شریف کی روایت ہے:’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جوا س کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو۔‘ رب کو اپنے بندوں سے اس قدر محبت ہے کہ وہ ان کو اپنا کنبہ قرار دیتا ہے حالا نکہ وہ سبوح اور قدوس ذات ہے، اسے کسی کنبے کی ضرورت اور احتیاج ہر گز نہیں۔ انسانیت کی خد مت کے بہت سے طریقے ہیں۔بیواﺅں اور یتیموں کی مدد،مسافروں، محتاجوںاور فقرااورمساکین سے ہمدردی ،بیماروں،معذوروں،قیدیوں اور مصیبت زدگان سے تعاون یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں اور وسیع تر تنا ظرمیں ا ن سب سے بڑھ کر انسانوں سے ہمدردی یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے ذریعے دوزخ کی آگ سے بچایا جا ئے اور رب کی رضا اورصراط مستقیم کی طرف ان کو دعوت دی جا ئے۔ متفق علیہ روایت ہے:’جو کسی بیوہ یایتیم کے لئے سعی کرے وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو بغیر کسی وقفے کے مسلسل نماز میں کھڑا ہو یا اس روزہ دار کی طرح ہے جو کبھی روزہ نہ چھو ڑتا ہو۔ ‘ ابو داﺅد کی روایت ہے:’ جو کسی انسان کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ اس کی حاجت پوری کر دیتا ہے اور جو کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی کو دورکرنے میں مدد دیتا ہے اللہ اسے قیامت کے دن بے چینی اور تکلیف سے نجات دے گا۔ ‘ ترمذی شریف کی روایت ہے :’تم زمین والوں پر رحم کرو آ سمان والا تم پررحم فرمائے گا۔‘ بخاری اور مسلم کی روایت ہے:’ جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اسے اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔‘ ہمیں چاہئے کہ ضرورت مند انسانوں سے محبت اور ہمدردی کریں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد دیں ۔صوفی بزرگوں نے کشمیر میں اسی پیغام کیساتھ انسانیت کی خدمت کی اور کشمیر کو کشمیریت سے سرشار کیا ۔