بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
8.1 C
Srinagar

ڈاکٹر سید امین تابش :ہمہ جہت ادبی شخصیت ،اپنے آپ میں ایک ادارہ

شوکت ساحل

سرینگر:جموں وکشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے سیول لائنز علاقہ صنعت نگر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سید امین تابش وادی کشمیر کی ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں ،جو اپنے آپ میں ایک ادارہ ہیں جبکہ ڈاکٹر سید امین تابش ’ادب اور طب ‘ کے بے مثال وباوقارامتزاج ہیں ۔ڈاکٹر سید امین تابش درجنوں انگریزی ،اردو اور کشمیر ی کتابوں کے مصنف ہیں ،جن میں صوفی شاعری مجموعے اور طبی تحقیق سے متعلق کتابیں شامل ہیں ۔

ڈاکٹر سید امین تابش نے شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے قصبہ پٹن کے تلہ گام گاﺅں میں ایک علم وتبلیغ ، ادب اور صوفیت سے سرشار خاندان میں آنکھ کھولی ۔ آٹھویں جماعت تک آبائی گاﺅں کے سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی اور سوپور ڈگری کالج  سے12 ویں جماعت پاس کرنے کے بعد طبی تعلیم(ایم بی بی ایس ) کے لئے منتخب ہوئے ۔ڈاکٹر سید امین تابش کا طبی تعلیم کے لئے انتخاب تحریری امتحان کی بنیاد پر ہوا اور اپنی قابلیت اور ذہا نت کی بنیاد پر اُنہیں میڈیکل نشست ملی اور انہوں نے گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر سے طب کی تعلیم حاصل کی ۔اس سے قبل وادی کشمیر میں طبی تعلیم کے لئے انٹر ویو کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب ہوا کرتا تھا ۔

ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ’بزم ِ عرفا ن ‘ میں وادی کشمیر کے مشہور ومعروف براڈ کاسٹر عبد الاحد فرہاد سے خصوصی گفتگو کے دوران ڈاکٹر سید امین تابش نے ’طب اور ادب ‘ کے اپنے بہترین امتزاج کی پسِ پردہ داستان کو بیان کیا ۔بین الا قوامی نامور معالج ،ڈاکٹر سید امین تابش کہتے ہیں کہ اُن کے ابا واجداد کا تعلق سرینگر کے شاہ صاحب نواب بازاری خاندان سے ہیں،جس کا شجرہٴ نسب بلند پائیہ ولی کامل حضرت میر سید علی ہمدانی ؒسے ملتا ہے ۔ان کا کہناتھا کہ اُن کے والد کے دادا حضرت سید محمد اکبر شاہؒ تبلیغ کے سلسلے میں ہمہ وقت سفر میں رہتے تھے اور اسی سلسلے میں اُن کا آخری پڑاﺅ تلہ گام پٹن رہا ،جہاں انہوں نے مستقل سکونت اختیار کی ۔

وہ کہتے ہیں کہ1947میں اُن کے دادا مولوی سید محمد حسین پاکستان چلے گئے ۔تاہم کشمیر سے اُن کا تعلق یا رشتہ ختم نہیں ہوا ۔سید محمد امین تابش کے والدسید غلام الدین ،ایک بزرگ عالم دین تھے اور وہ فارسی وعربی زبانوں پر کافی دسترس رکھتے تھے۔طبی تعلیم میں داخلہ لینے کے بعدانہوں نے ایشیاءکے سب سے عظیم طبی ادارہ آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنس نئی دہلی سے پوسٹ گریجویشن مکمل کی ۔

برطانیہ اور امریکہ میں بھی ڈاکٹر سید امین تابش نے طبی تعلیم حاصل کی جبکہ امریکہ میں انہوں نے’ ایمر جنسی مڈیسن کورس‘ بھی کیا ۔ڈاکٹر سید امین تابش نے سنہ 1998میں ’وولڈ ہیلتھ اسمبلی ‘میں بھارت کی نمائندگی بھی کی ۔علاوہ ازیں انہوں نے وسطی ایشیا ءمیں کافی طبی خدمات انجام دیں ۔تاہم اپنے وطن، مادری زبان وادب سے بے انتہا محبت نے ڈاکٹر تابش کے مضطرب قلب کو ترقی یافتہ ممالک میں قرار نہیں دیا اور وہ بارہا بیرون ملک جانے کے باوجود واپس اپنے وطن لوٹ آئے ۔

ڈاکٹر تابش کہتے ہیں کہ دوران ِ طبی پیشہ ورانہ خدمات اُنہیں بیرون ممالک کیساتھ ساتھ قومی سطح کے اہم طبی اداروں میں اہم خدمات انجام دینے کی کئی پیشکشیں کی گئیں ،لیکن انہوں نے کشمیر میں ہی اپنی خدمات انجام دینے کو ترجیح دی۔برطانیہ میں اُنہیں ’کنسلٹنٹ پوسٹ ‘کے لئے پیشکش ہوئی جبکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں صحت وطبی تعلیمی اداروں کے قیام میں نمایاں اور کلیدی رول ادا کرنے پر بھی اُنہیں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی پیشکش کی گئی جبکہ سعودی عرب نے شہریت دینے کا بھی وعدہ کیا ،لیکن کشمیر کو چھوڑ کر جانے کا دل نہ ہوا ۔

انگریزی میں ضخیم کتابیں ،اردو میں اسلوب وانداز اور کشمیری زبان میں تصوف کا رنگ ،ڈاکٹر سید امین تابش کے ادب وزبان کے تئیں امتزاج کو ظاہر کرتا ہے ۔طبی اور ادب کے درمیان مراسم کے بارے میں بین الاقوامی معالج کہتے ہیں کہ مشرق ومغرب میں کئی ایسی شخصیات گزری ہیں ،جنہوں نے شعبہ طب میں نمایاں ، نا قابل فرا موش اور بے مثال خدمات انجام دی ہیں ،لیکن یہ شخصیات ادب سے محبت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ومعروف ہوئیں، جن میں انگریزی ادب کے مشہور ومعروف شعراء ’جان کیٹس،ویلیم اوسلر اور ابی علی سینا‘ قابل ذکر ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اُن کے خاندان اور ننہال میں عملی طور پر تصوف کی بیش خدمت کرنے والی اَن گنت شخصیات تھیں ،جن میں اُن کے مامو جان سید علی گوہر بخاری شامل ہیں ،جن سے متاثر ہوکر اُنہیں ادب کی مہک سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا ۔ سید علی گوہر بخاری کی کم ازکم 13تصانیف شائع ہوچکی ہیں،جن میں تصوف کی ہی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ علاوہ ازیں اُن کے آبائی گاﺅں میں کئی ایسی ادبی شخصیات تھیں ،جن سے وہ بہت زیادہ متاثر تھے ،جن میں میر ثنا کریری،امیر شاہ کریری اور خاموش کریری وغیرہ شامل ہیں ۔

ڈاکٹر تابش کہتے ہیں کہ نو عمری میں ہی انہوں نے شعر وشاعری کی دنیا میں قدم رکھا اور کم عمری میں ہی اُنہیں ریڈیو کشمیر پر اپنا کلام دنیا کے سامنے رکھنے کا موقع ملا جبکہ اُس وقت کے پروگرام انچارج اوتار کشن رہبر نے اُن کی رہبری کی اور بعد ازاں اُنہیں ریڈیو کشمیر سے ہیلتھ ایشوز (صحت کے مسائل ) پر گفتگو کرنے کا بھی موقع ملا اور ریڈیو کشمیر سے اُن کا باضابطہ ایک معاہدہ بھی ہوا ۔

ڈاکٹر سید امین تابش نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ طبی پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کے دوران اُن کی پوسٹنگ(تعیناتی) چاڈورہ میں ہوئی ،جہاں اُنہیں کشمیر کے بلند پایہ قلمکار ، ادیب وشعرا ءکی صحبت میں رہنے کا موقع ملا ۔وہ کہتے ہیں کہ اُن دنوں ادبی شخصیات کی ایک نمائندہ تنظیم ’جموں وکشمیر کلچرل آرگنائزیشن ‘ہوا کرتی تھی ،جسکے سر پرست اعلیٰ پروفیسر محی الدین حاجنی تھے جبکہ صدر غلام نبی گو ہر تھے ۔اس ادبی تنظیم کے ممبر وہ ہستیاں تھیں ،جن کے بارے میں کہنا آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا ۔

ڈاکٹر تابش کہتے ہیں کہ مقبول شاہ کرالواری ،عبد الا حد آزاد ،غلام نبی گوہر ،موتی لال ساقی جیسی عظیم ادبی شخصیات کا تعلق چاڈورہ سے ہی ہے اور وہ اُن سے ذاتی طور پر زیادہ متاثر تھے ۔اُنہیںادیبوں اور قلمکاروںو شعرا ءکے زیر سایہ رہنے کا موقع ملا ۔وہ کہتے ہیں غلام نبی گوہر اُس وقت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے ،تاہم اُن کا گہرا تعلق ادب سے ہی تھا اور اُنہوں نے ہی اُنہیں محض 24برس کی عمر میں ادبی شخصیات کی نمائندہ تنظیم کا جنرل سیکریٹری منتخب ہونے کا موقع دیاجبکہ7 برس تک وہ اس تنظیم کے لئے اپنی خدمات انجام دیتے رہے ۔چاڈورہ میں طبی پیشہ ورانہ ذمہ داری کی انجام دہی کے دوران وہ کشمیری ادب سے وابستہ شخصیات کے زیر دامن رہے ،جس دوران ڈاکٹر تابش کے علم وادب کے سفر نے کامیابی کے کہکشاں پر پہنچنے کے لئے اُڑان بھری ۔ ڈاکٹرتابش نے سات برس تک ہفتہ وار کشمیر ی اخبار میں مدیر کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں ۔

طبی تعلیم کے پروفیسر ڈاکٹر سید امین تابش نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ طبی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے باعث اُنہیں کشمیری ادب کے تئیں8سے10برس تک خاموشی اختیار کرنی پڑی ۔تاہم اس دوران انہوں نے طبی تعلیم کے لئے انگریزی زبان میں کئی کتابیں قلمبند کیں ، جن میں کئی کتابیں طبی تعلیم کے نصاب میں شامل ہوئیں جبکہ ان کی قلمبند کتابوں میں سے1100صفحات پر مشتمل ایک کتاب،یونیورسٹی آف اوکسفوڈ (جامعہ اوکسفوڈ ) نے شائع کی ہے ۔ڈاکٹر تابش نے طبی تعلیم کے حوالے سے تحقیقی مقالے بھی تحریری کئے ہیں جبکہ میڈیکل سائنس پر اُن کے450تحقیقی مقالے (ریسرچ پیپر ) شائع ہوچکے ہیں ۔

طبی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور ادب کے تئیں اُنکی خدمات کے توازن کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سید امین تابش نے کہا ’ کچھ پانے کے لئے بہت کچھ کھو نا پڑتا ہے ،میں نے ذاتی ، گھریلو اور سماجی زندگی کی قربانی دی ہے ، میں نے عہد ِ جوانی میں صرف تین سے چار گھنٹے خواب بستر پر گزارے ،زیادہ تر وقت میں نے سنجیدگی کیساتھ مطالعہ اور اپنی تحایر قلمبند کرنے پرصرف کیا ۔‘

ڈاکٹر تابش نے پہلی تصنیف 18برس کی عمر میں قلمبند کی ،جو اُنکی21برس کی عمر میں شائع ہو ئی ۔ڈاکٹر تابش کے پاس طبی تعلیم اور انگریزی ،اردو وکشمیری ادب کا انمول خزانہ اور اثاثہ موجود ہے ،اس لئے وہ اپنے آپ میں ایک ادارہ کہلائے جاتے ہیں ۔ڈاکٹر سید امین تابش کی تصانیف میں ” علم تہ عرفان ،چانہ ِ انما نہ آفتاب پکو ،حسینی کاروانک سفر ،دود تہ ڈگ ،اکہ ِ عمر ہند سورے سفر ، میوٹھ زہر ، (Hospitals and Nursing Homes، Hospital and Health Services Administration، Hospitals and Nursing Homes planning Organisations and Management،The Future of Health، Living on the Edge، Hospital Infection Control) وغیرہ قابل ذکر ہے ۔

ڈاکٹر تابش ایک بہترین معالج ہونے کے باوجود’ پرائیویٹ پریکٹس ‘ پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور زیادہ تر وقت طبی تحقیق اور ادب پر صرف کرتے ہیں ۔انہوں نے نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری نوجوانوں میں قابلیت،ذہانت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے ۔تاہم کامیابی کے کہکشاں پر کمند ڈالنے کا فن اور سلیقہ سیکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا چاہیے ۔ڈاکٹر سید امین تابشؔ کو طب اور ادب میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر60 سے زیادہ ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے۔

(ادارہ ایشین میل کے جملہ اراکین ڈاکٹر سید امین تابش کو طب اور ادب میں گراں قدر اور نا قابل ِ فراموش خدمات انجام دینے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔)

Popular Categories

spot_imgspot_img