کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کے چھاپہ مار

مایوس آمیز کوششیں

مظفر آباد سے 30میل دور سڑک کے پار ایک بیرئر کے سامنے رکا۔ کون ہے؟ کسی نے اندھیرے سے آوز لگائی۔ چناری ڈک بنگلہ کے بانس کی جھاڑیوں سے کسی نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ آدھے درجن لوگ سڑک پر آگئے۔ وہ سو آرمی کے ممبران تھے۔
قبائلی علاقے کے لوگوں کے بر خلاف وہ بہترین لباس میں ملبوس اور نرم گو تھے۔ ڈپٹی کمانڈر کیپٹن راشد نے کہا کہ وہ تین سو لوگ تھے اور باغ میں ریاستی پوسٹ کے کام تمام کرنے میں مدد کرنے کے بعد وہ لوگ اندرونی سمت سے ابھی آئے تھے۔ وہاں کھرا تھا۔ میں بینر والی قدیم کار کو بھی پہچان گیا۔ جسے میں نے سرینگر کے راستے میں کچھ دنوں قبل دیکھا تھا۔ لہٰذا یہ تو وہی گروپ ہے جس کی کار تھی۔
راشد سرینگر کے پاس شکست فاش کے بارے میں پوری طرح واقف نہیں تھا۔ اس کے سامنے معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آیا وہ آگے جانے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں مدد ہو سکتی ہے۔ ان کی خواہش تھی اور انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر ان کے کمانڈر اجازت دیتے ہیں تو ضرورت پڑنے پر وہ آگے مردوں کو بھیجیں گے وہ میرے پیغام کا انتظار کریں گے۔
اوڑی کی طرف بڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ یہ کتنی خوش بختی کی بات ہے کہ یہ لوگ موجود تھے۔ کسی نے ان کے بارے میں مجھے نہیں بتایا تھا۔ شاید کسی کو معلوم ہی نہ تھا کہ وہ یہاں تھے۔ راشد بہت حوصلہ مند لگ رہے تھے اور یہ کچھ مختلف قسم کا تاثر تھا جو مجھے اس علاقہ میں حالات کے بارے میں دیا گیا تھا۔
میں درمیانی شب کو اوڑی پہنچ کر لشکر کے کمانڈر خورشید انور کو تلاش کرنے لگا۔ اس مقام پر شہر خموشاں کا سا سناٹا تھا۔ سڑک پر کوئی بیرئر نہیں تھا اور نہ ہی کوئی شخص جو کسی کو چیلنج کرتا۔ سڑک سے قریب تمام عمارتیں یا تو خالی تھیں یا پھر ہم سے تباہ شدہ کچھ لوریاں ادھر ادھر پارک کی ہوئی تھیں۔ ان کے ڈرائیوروں کے پاس کوئی خاطر خواہ جانکاری نہیں تھی۔ قبائلی وہاں تھے لیکن انہوں نے کہا کہ انہیں خورشید انور کے متعلق نہیں معلوم ہے۔ کچھ بھی ہاتھ نہ لگا تو میں نے ایک ایک کرکے جھوپڑیوں کے ساتھ پہاڑی کی سمتوں میں تلاش کرنا شروع کر دیا۔
آدھے گھنٹے کے بعد میری ملاقات میجر اسلم (بعد میں بریگیڈیئر) سے ہوئی جو یہاں رضا کار کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن مجھے معلوم نہیں تھا۔ میری طرح وہ بھی کسی کی زیر قیادت تھے لیکن ان کے پاس کچھ معلومات تھیں، اس دن کے صبح تڑکے یا ممکنہ طور پر اس سے پہلی شب کو ایک بھارتی بریگیڈ بارہمولہ پہنچ چکا تھا۔ اور ان کے اور اوڑی کے قبائلیوں کے درمیان اب کوئی 30میل کا فاصلہ تھا۔
جیسا کہ میں نے دیکھا، بارہمولہ اور اوڑی کے بیچ یہ علاقہ قبائلیوں کے آپریٹ کرنے کےلئے ایک بہترین میدان تھا۔ یہ مکمل طور پر پہاڑی تھا۔ اس کے درمیان سے ایک تنگ سڑک گزرتی تھی۔ یہ سڑک جسے بھارتی فورسز کےلئے استعمال کرتے تھے وہ دونوں سمت میں بند تھی۔ ایک سمت میں گہری اور تیز رو دریائے جہلم تھی جس سے گزرنا آسان نہ تھا سوائے پیدل پل کے ذریعہ جو بارہمولہ اور اوڑی کے درمیان بیچ راہ میں موجود تھا اور دوسری سمت میں نشیب و فراز والی پہاڑیاں ہیں جو درختوں اور جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ سڑک سیدھی نہیں تھی۔ ہر دو یا تین سو کلو میٹر پر پیچیدہ راستہ ہے اور ہر آدھے میل پر پلیا ہے اور ہر دو یا تین میل پر ایک اصل پل ہے۔
اس راستہ سے محفوظ طریقے سے فوج، بندوق اور گاڑیوں کو گزرنے کےلئے بھارتیوں کےلئے قبائلیوں کو شوٹنگ اور حملہ کے فاصلے سے پرے اس سے بھگانا ہوگا اور یہ ایسی جگہ نہیں ہے جہاں روڑ کے دونوں طرف بھیڑ بھاڑ کی جگہوں پر فوجی ناکہ بندی کرکے آسانی سے اس طرح کا تحفظ حاصل کیا جا سکے۔ تحفظ کے اس طریقے کےلئے یہ پہاڑیاں بالکل ننگی نہیں تھیں اور نہ ہی روڑ بالکل سیدھا۔

یہاں روڑ پیچیدہ تھے اور پہاڑیاں جھاڑی دار، قبائلیوں کے دونوں سمت کی تمام پہاڑیوں پر صرف جسمانی قبضہ کو ہٹا کر ممکن تھا۔ وہاں پہلے سے موجدو قبائلیوں کی موجودگی میں ایسا کرنے کےلئے میرے خیال میں بھارتیوں کو ایک بڑی فوجیوںکی ضرورت ہوگی، جو اب تک نہیں ہے۔ جہاں تک ان کے ایک بریگیڈ کا سوال ہے تو دو یا تین سو محصور اسے یہاں روک سکتے ہیں ،جہاں وہ کئی ہفتوں سے تھے۔ ابھی تک قبائلیوں نے ایسا کرنا نہیں چھوڑا تھا۔
عمل کو موخر کرنے کےلئے اب تک ایک بھی زمین دوز نالی یا پل تباہ نہیں کئے گئے تھے اور نا ہی روڑ پر کوئی مداخلت کرنے والا تھا۔ رضا کاروں کا صرف ایک چھوٹا سا گروہ جس کا نام آئی این اے (انڈین نیشنل آرمی) روڑ پر موجود تھا۔ جو دشمن سے کچھ میل فاصلے پر پوسٹ کی نگرانی کر رہا تھا۔
واضح طور پر کرنے کا پہلاکام اوڑی اور بھارتیوں کے درمیان بندش لگانے کےلئے کسی جگہ پل کو تباہ کرنا تھا۔ اس کے لئے کچھ تباہ کن سامان اور چند لوگوں کی ضرورت تھی۔ جس دوران ان چیزوں کو جمع کیا جا رہا تھا۔ میں نے ان کے آدمیوں کو آگے لانے کے لئے سوات آرمی کے راشد کو ایک پیغام بھیجا تاکہ اگلی صبح وہ دفاعی پوزیشن لے سکیں اور پھر قبائلی رہنماﺅں سے ملاقات کروں گا۔ سواتیوں کو اگر چہ جنگ پسند اور سخت دل کسی کے جیسے بھی تھے اس کے باوجود جیسا ک میں جانتا تھا۔ موجودہ نسل میں بغیر کسی فوجی دستہ کے خلاف لڑنے کا تجربہ پہلی بار ہوا تھا اور اسی وجہ سے ان سے ایسا کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے، جیسا کرنے کی محصوروں اور آفریدیوں سے کی جا سکتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں وہ دفاعی کر دار میں کافی بہتر کام کریں گے کچھ وقت بعد ہم چلنے کو تیار تھے۔ وہاں کوئی انہدامی سامان یا ڈائنامئٹ یا اس طرح کی چیزیں نہیں تھیں ۔ لیکن میں کچھ پیٹرول اور کچھ کدال پائی گئی تھی۔ درجن بھر رضا کار آئے تھے اور خوش قسمتی سے ان میں ایک سرنگ بنانے والا، ایک وظیفہ یاب نائک تھا جو اپنا 18-1914 کے پاجامہ کا جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ ایک لوری لے کر ہم ایک ساتھ بارہمولہ کے لئے نکلے، ساری نگاہیں آگے کچھ فاصلے پر موجود روڑ پر جمی ہوئی تھیں تاکہ ہم انجانے میں کسی دشمن کی پوسٹ میں نہ چلے جائیں۔ دشمن کی سمت سے روڑ پر ایک گاڑی دوڑتی ہوئی آئی اور یہ بھارتی فوج کا ٹرک تھا جسے ایک محصور قبائیلی چلا رہا تھا جو پیچھے تنہا رہ گیا تھا وہ گھات میں تھا اور تبھی خنجر سے ڈرائیور کو خاموش کرنے کے بعد ایک ٹرک چھین لایا۔ اس کے مطابق دشمن متحرک نہیں تھے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے پاس پل کو تباہ کرنے کےلئے خاصا وقت ہے۔
بارہمولہ سے کچھ فاصلے پر موزون پل کی تلاش میں آدمی اس پر کام کرنے کے لئے تیار تھے اور صبح تڑکے آخر کار ایک لمبا گیپ ہو گیا تاکہ گاڑیوں کی آمد ورفت کو روکا جا سکے۔ لیکن نالہ کافی گہرا نہیں تھا اور اس کا کنارہ ڈھلوان والا نہیں جس سے موڑ کر روکا جا سکے۔ لہٰذا کچھ لوگ اس جگہ رہ گئے جو دشمن پر گھات لگائے بیٹھے تھے کہ وہ کب آئیں۔ مجھے امید تھی کہ ان کے پاس ہمارے لئے کچھ گھنٹے ہوں گے۔ شاید پورا دن ہوا اگر وہ عزم مصمم رکھتے ہوں ۔ لیکن یقیناً یہ موجودہ حالات میں مشکوک تھا جب انخلاءکی خبریں گردش میں تھی اور فرنٹ کے نوجوان خائف تھے۔ کچھ معقولیت کے ساتھ کہ دوسرے انہیں ناچارگی میں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
واپسی پر میں نے دفاعی پوزیشن کےلئے ایک اچھے خطے کا انتخاب کیا جسے میرے خیال میں سواتی پسند کریں گے ،جب وہ آئیں گے۔ یہاں مجھے محسوس ہوا کہ وہ بھارتیوں کو کچھ دنوں کے لئے روکے رکھیں گے۔ پیغام ٹیلیفون سے گیا چونک روڑ سے لگ کر پرانی ٹیلیفون لائن اب بھی موجود تھی۔ فاصلہ 40 میل تھا۔ لہٰذا میں نے توقع کی کہ راشد کسی بھی لمحے یہاں پہنچ رہے تھے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔ راشد نہیں آئے اس کے بجائے ایک پیغام آیا جس میں بتایا گیا تھا کہ سواتی کا کمانڈر جو سوات گیا تھا اب تک واپس نہیں لوٹا ہے ۔ تاہم ایک شخص سوات بھیجا گیا تاکہ اس کی اجازت حاصل کرے۔ بد قسمتی سے سوات 300میل دور تھا۔ لہٰذا یہ وہی تھا۔
واپس اوڑی میں اب قبائلیوں اور ان کے رہنماﺅں سے ملاقات کا وقت تھا ۔ کرنل اے ایس بی شاہ، سیکریٹری فرنٹیئر ریجن، جنہوں نے مجھے متعارف کرانے کا وعدہ کیا تھا، اب تک نہیں پہنچا۔ لہٰذا اس کے ساتھ یا اس کے بغیر انہیں سامنا کرنا پڑا۔

پٹھان ہونے کی وجہ سے مجھے کسی خاص مشکل کی توقع نہیں تھی اور میں ان کے لڑنے کے طریقہ کار سے بھی واقف تھا کیونکہ دس سال پہلے برطانوی بھارتی فوج میں ایک افسرکے طور پر قبائلی علاقہ میں دو سال تک ان کے خلاف جنگ میں مصروف تھا۔ لیکن یہاں ان میں سے کسی کو بھی’ میں‘ نہیں جانتا تھا اور وہ لوگ مجھے بھی نہیں جانتے تھے۔ لہٰذا وہ بالکل اجنبی لوگ تھے جن سے مجھے ملاقات کرنا تھا اور جلد ہی انہوں نے سوالات کی بھر مار کر دی۔
میں کون تھا؟
میں نے انہیں بتایا۔
کیا پاکستانی حکومت نے مجھے بھیجا ہے؟
نہیں۔
کیا کوئی فوج مدد کے لئے آرہی تھی ؟
نہیں۔
کیا پاکستان کشمیر چاہتا ہے یا نہیں ؟
ہاں
تب اس نے توپ اور طیارہ فرنٹ میں کیوں نہیں بھیجا جیسے بھارت نے بھیجا تھا اور فوج وہاں کیوں نہیں تھی جبکہ اس کام کےلئے پیسے بھی ادا کئے جا رہے تھے۔
میں نے قانونی پوزیشن واضح کر نے کی کوشش کی لیکن یہ اچھا نہ ہوا؟۔ تب میں وہاں کیوں گیا؟۔ صرف انہیں مشورہ دینے نہیں، میں نے کہا کہ میں انہیں مشورہ دینے نہیں گیا تھا۔ ان کی طرح میں صرف رضا کار تھا۔ میں ان سے اس سلسلے میں بات کی کہ کشمیر کا مسئلہ مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہماے لئے کیا معنی رکھتا ہے۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ ہم پٹھان کیا کرنے آئے تھے۔ ہم سے کیا امیدیں وابستہ تھیں اور ہماری غیرت نے کس چیز کا مطالبہ کیا ۔ میں اپنی گفتگو کر کے بہت خوش تھا حتیٰ کہ مجھے لگنے لگا کہ میں بہت زیادہ برف نہیں کاٹ رہا تھا۔ گرچہ بہت سے سرتہذیب سے رضا مندی میں ہل رہے تھے پہلے انہوں نے یہ ساری باتیں سنیں، اب دن میں کچھ تاخیر لگنے لگی تھی اور بلا وجہ نہیں تھا۔
بعد ازاں میں ان سے جو کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا وہ دو بارہ جنگ تھی جو ابھی ابھی رکی تھی۔ میں ان سے ایسا کرنے کو کہہ رہا تھا حالات میں کسی قسم کا کم سے کم اضافہ کئے بغیر یا کوئی وعدہ کئے بغیر میں اس قسم کا ساتھی تھا جس سے وہ ملاقات کر سکیں۔ انہوں نے احساس کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن یہی سب کچھ تھا اور یہ کافی نہیں ہو سکا ۔ میں حکومت، فوج، حتیٰ کہ کسی سیاسی پارٹی یا کسی قبیلے کا نمائندہ نہیں تھا اور میرے پاس کوئی ہتھیار دو کان یا پیسہ نہیں تھا۔ تاہم معاملہ یہاں نہیں چھوڑا جا سکا۔ فوجی طریقوں کو جانتے ہوئے ایک فوجی کے طور پر مجھے یقین ہو چلا کہ ان پہاڑیوں میں بندوق اور طیارے کچھ خاص نہیں کر سکتے اور یہ کہ قبائلیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت صرف اپنی رائفلوں سے بھارتی فوج کو روک سکتی تھی۔
میں نے ان سے ایسا کہا اور آخر کار ان کی دلچسپی شروع ہو گئی۔ وہ حکومت عملی پر بات کرنا پسند کرتے تھے اور انہیں محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ میں کچھ جانتا ہوں۔
اوڑی میں اس سب کے بیچ وہاں وزیرستان کے بہت سے محسود اور آفریدی تھے جو لڑنے میں بہت ماہر تھے لیکن فی الحال رکنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ باقی کی بات کریں تو پشاور اور مردان اضلاع کے بہت سے پٹھان تھے اور ان کے درمیان اپنے بڑے بھائی کو دیکھ کر بہت حیرت زدہ بھی ہوا۔ تاہم ان میں سے بہت سے جوان صرف شاٹ گن، پسٹل اور دیگر مماثل غیر موزوں ہتھیاروں سے لیس تھے۔ لیکن چونکہ وہ کواپریٹ کرنے کے خواہاں تھے۔ اس لئے میں نے انہیں کیمپ کی حفاظت اور طیاروں پر وار کرنے کےلئے جوانوں کو پہاڑیوں پر پوسٹ کرنے کی ذمہ داری دی۔ یقیناً وہ طیارے کو کوئی نقصان تو نہ پہنچا سکے لیکن مجھے خیال ہوا کہ اس سے ان کے اندر لڑنے کا جذبہ بیدار ہو گا اور پائلٹ کم از کم یہ دیکھیں گے کہ وہ مزاحم تھے۔

اس سے کچھ اچھا ہوا۔ زیادہ دیر تک سستی کے بعد کچھ کرنے کا خیال آیا۔ جلد ہی کیمپ میں ایک شورش برپا ہوئی۔ جب اگلا جہاز آیا تو ہم میں سے کچھ نے کیمپ کے درمیان سے مقابلہ کیا۔ دیگر دوسرے لوگوں نے کھڑے ہو کر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ آدھے گھنٹے بعد جب کہ ابھی بھی ہماری گفتگو جاری تھی، تین طیارے آئے اور وہ دلیری سے لڑے ،گرچہ انہوں نے کچھ لوگوں کو زخمی کر دیا اور پوری جگہ کو مسمار کر دیا جن میں وہ جھونپڑی بھی شامل تھی جسے میں نے ہیڈ کوارٹر کے طور پر منتخب کیا تھا۔
میں نے سوچا کہ یہ چھوٹا سا وقفہ بہتر ہو گا۔ فضا مزید جنگ جیسی صورت حال بن رہی تھی۔ حالات کا تقاضا واضح تھا اور میں قبائلیوں کے آخری فیصلے کے لئے زور دے رہا تھا۔ خورشید انور پہلے ہی جا چکے تھے۔ اور انہیں اپنا ذہن بنانا تھا۔ دو پہر میں رہنماﺅں نے اپنے جوانوں کے ساتھ تنہائی میں مشورہ کرنے کےلئے مزید وقت مانگا۔ فی الحال میری خوشی انتہا نہ رہی ایک محسود لیڈر کھونے خان اپنے انیس آدمیوں کے ساتھ میرے ساتھ چلنے کو رضا مند ہو گئے، تاکہ ٹوٹے پل پر ہماری جماعت کو مضبوط کرنے کے اہم کام میں شریک ہوں۔
لہٰذا ہم بارہمولہ دو بارہ گئے۔ دو بجے پل ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ ہم دیکھ سکتے تھے کہ بھارتی بکتر بند کار دوسری جانب رکی ہوئی تھی لیکن کچھ پیادہ فوج اس سے گزر کر پہاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہماری مورچہ بند فوج اب بھی وہاں موجود تھی اور کھونے خان کی جماعت وقت پر مدد کرنے کےلئے وہیں تھی۔
میں پہلی بار قبالیوں کو قریب کوارٹروں پر عمل میں دیکھ رہا تھا انہیں دیکھ پیادہ فوج کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ اپنے فوجیوں کے اندر ذہن نشین کرنے کے ہماری سالوں کی کوشش ایسی تھی جیسے ان لوگوں کے ساتھ دوسری فطری زمین پر ان کی نگاہ جلد سے انکا منتشر ہونا ان کی رفتار اور پوشیدگی کتابی معلوم ہو رہا تھا۔
اگرچہ سیکنڈوں میں طیارہ آکر بمباری کرنے لگا، اور گولہ باری شروع ہو گئی، قبائلی پہلے سے ہی دور بہت دور تھے۔ ہمارے بائیں جانب دریا کے پار پیدل برج کو دیکھ کر، ان میں سے نصف دوسری سمت کی طرف دوڑ کر دریا پر پہنچ گئے۔ بٹے سے اسکرین شدہ یہ اچھی حرکت تھی کیونکہ بھارتی سب کے سب اسی سمت میں تھے اور قبائلی قلب کی جانب سے ان پر حملہ کرنے پر قادر ہو سکیں گے ۔ چند منٹوں میںٰ گولی کی بوچھار شروع ہو گئی اور یہ بھارتیوں پر ایک سامنے اور دو قلب تینوں سمت سے آنے لگی۔ انہوں نے حقیقی نمبر سے کہیں زیادہ مرتبہ مخالفت سوچ رکھا ہوگا اور وہ مزید حرکت نہ کر پائے۔
میں نے سمجھا کہ وہ زیادہ لمبا وہاں نہیںرک پائیں گے کیونکہ قبائلیوں کی موجودگی کی وجہ سے وہ بہت محتاط ہو جائیں گے۔ غروب آفتاب کے وقت شاید وہ گھات کے خوف سے پل کے پیچھے چلے جائیں گے اور اگلی صبح پہلے وہ پٹرول کے لئے بھیجیں گے اور بعد میں عمومی فوجی کارروائی کے مطابق حملہ کا صحیح نقشہ بنائیں گے۔ قسمت سے ہمیں پورے چوبیس گھنٹے کا وقت مل جائے گا اور تب ہم اپنی دفاعی پوزیشن تیار کریں گے۔
لہٰذا میں واپس اوڑی چلا گیا یہ دیکھنے کہ قبائلیوں کی بات چیت کیسی چل رہی ہے ۔یہ اب بھی دیکھنے والا معاملہ تھا، ایک لمحہ ان کی خواہش ہوتی اور دوسرے ہی لمحہ خواہش نہیں ہوتی۔ اب بھی اصل بحث یہ تھی کہ وہ محفوظ بیس کی عدم موجودگی کو لے کر خوش نہیں ہیں۔ انہیں یہ احسان ہوا کہ روڑ کے پار ایک مناسب جگہ پکڑے رہنا چاہئے تھا اور پھر وہ خوشی خوشی پورے ملک میں بھارتیوں کا شکار کرنے جا سکتے تھے۔ بد قسمتی سے میں اس ضرورت کو پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا اور لہٰذا اگر چہ گفتگو اب تک جاری تھی لیکن ان کی ضرورت ختم ہوتی جا ری تھی۔ غروب آفتاب کے وقت بھارتی اب بھی ٹوٹے پل کے پاس تھے ،پاکستانی بارڈر سے شاید 75 یا 80 میل کے فاصلے پر لیکن جونہی تاریکی بڑھی ہمارے رضا کار کھونے خان اور ان کے فوجی نے انخلاءکیا کیونکہ وہ تنہا رہ جانا نہیں چاہتے تھے اور دشمن کے سامنے کوئی بھی باقی نہ بچا۔
اس وقت اوڑی میں ایک خیال جو تقریباً ہر کسی کے دماغ میں تھا وہ یہ کہ کشمیر سے مکمل انخلاءکر لیا جائے اب یہ نا گزیر لگ رہا تھا اور ہر کوئی بے چین تھا۔ غروب آفتاب کے بعد ابھی ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ اکثر لوگوں نے اپنی سواریاں لیں اور چلے گئے اور جو باقی بچ گئے تھے وہ بھی جانے کو تیار تھے۔ میں نے ابھی بھی یہ امید لگا رکھی تھی کہ شاید کوئی سو نمبر جو رک جائے ۔

سو مخلوط افراد جن کے پاس صرف رائفلیں تھیں اور جو کسی ڈسپلن اور قبائلی معاہدہ کے تابع نہیں تھے، ان کا بھارتی فوجیوں کے ساتھ کسی طرح کا بھی تقابل سوچ کے پرے تھا کیونکہ ان بھارتیوں کی تعداد شاید ایک ہزار سے زائد تھی جو بکتر بند گاڑیوں اور توپ و طیارے سے لیس تھے۔ میں اب بھی سو جوانوں سے کافی خوش تھا کیونکہ ان کی جسمانی حالت حکمت کو موخر کرنے کےلئے موزوں تھی اور اگر ہم صرف وقتی مدد حاصل کر سکے تو بھی ہر وقت پہنچ سکتے تھے۔
لیکن یہ امید بھی پوری نہ ہوئی۔ انخلاءجاری رہا اور اس کے ساتھ ساری امیدیں ختم ہو گئیں۔ اوڑی جلد ہی ٹوٹی جھونپڑیوں والا اور شکاری کتوں والا ویران شہر بن رہا تھا ۔ اوڑی میں شاید ایک ہزار سے زائد لوگ تھے ،کچھ نے ساتھ دینے کی امید کی تجویز پیش کی تو کچھ نے عہد کیا کچھ تو لاریوں میں بیٹھ کر دشمن کی طرف بڑھنے لگے۔ لیکن تبھی ان کا ذہن بدلا اور وہ واپس آگئے اب وہ سب کے سب واپس ہو رہے تھے۔ صرف کچھ نے آخری منٹ میں تشویش اور تجس دکھایا۔ کیا ہمارے لئے بھی یہ جانے کا وقت تھا؟
ان کے جانے کے بعد کیا میرے رکنے کا کوئی مطلب تھا ؟
اچھا کیا ہوگا؟
لیکن یہی سب تھا وہ مزید انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ گھر کی طرف جانے کی رفتار بڑھ رہی تھی۔ انہیں جلدی کرنا تھا۔ لہٰذا وہ چلے گئے۔
9بجے آخری جانے والی گاڑی کی لائٹ بھی فاصلے میں غائب ہو گئی۔ جو کچھ باقی بچا تھا اس کے اسٹاک کو لے کر میں نے تلاش کیا۔ اسی جلدی میں میرے اسٹاف افسر کیپٹن تسکین الدین اور وائر لیس سیٹ بھی چلا گیا۔ درجن بھر لوگوں کے سوا کوئی بھی باقی نہ بچا۔ رضا کار، قبائلی اور دیگر پٹھان سب چلے گئے۔ اور راشد کے چنار سے آئے تین سو سواتی بھی شام میں چلے گئے تھے۔
میرا مشن بالکل ناکام ہو چلا تھا۔ چوبیس گھنٹے کی مسلسل محنت زیر خاک مدفون ہو گئی تھی۔ لیکن مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں اب بھی واپس آسکتا تھا۔ جنرل طارق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں نے بھی پلے سے اپنی کشتیاں جلا دی تھیں، میں اس نام کا دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن مجھے لگا کہ اس سے مجھے حوصلہ ملے گا اور میں اپنی شناخت پردہ راش میں رکھوں گا۔
بارہ صدیوں قبل اسپین کے ساحل پر پہنچ کر طارق نے اپنی کشتیاں جلا دی تھیں اور جب کہا گیا کہ اپنے ملک جانے والے ذرائع کو چھوڑنا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے تو انہوں نے اقبال کی زبانی جواب دیا تھا کہ ہر ملک ہمارا ہے کیونکہ یہ میرے اللہ کا ملک ہے۔ ہر ملک ملک ما است کہ ملک خدائے ماست ۔
اوڑی
درمیانی شب تھی تین گھنٹے قبل قبائلیوں کی آخری کھیپ بھی چلی گئی تھی اوڑی سے گھرے بلند و بالا پہاڑ یاں تاثر دے رہی تھیں کہ ہم کسی بڑے کپ کے نچلے حصہ پر بیٹھے تھے۔ یہاں تاریکی ٹھنڈ اور تنہائی تھی۔
صرف تقریباً درجن بھر لوگ ہی رہ گئے تھے۔ میجر اسلم ور دو سابق خدام سلطنت قیدی، ایک سابق آئی این اے صوبے دار، لطیف افغانی ایک سیاسی کارکن، دو ڈرائیور، ایک باورچی اور میرے بھائی سمیت دو یا تین دیگر شہری ، ہمارے ہتھیار میں درجن بھر رائفل اور ایک چھینی ہوئی برین گن تھی۔ یہ سب سے چھوٹی اور سب سے غیر موزون فورس تھی جسے میں نے کبھی کمانڈ کیا اور تبھی تقدیر نے مجھے ایک اور کام پر لگا دیا وہ یہ کہ ہزار جوانوں نے ابھی چھوڑ دیا تھا۔
میرے خیال میں اس وقت تک قبائلی اور رضا کار بارڈر عبور کر چکے ہوں گے اور کشمیر سے باہر نکل گئے ہونگے۔ اس علاقہ کے مقامی فراد نے ابھی بھی خود کو منظم نہیں کیا تھا۔ روڑ کے 75میل کے فاصلے تک کہیں بھی کوئی مزاحمت نہیں تھی۔ اگر بھارتی اسے واقف ہوتے تو وہ ٹرک میں آگے بڑھ کر تین گھنٹے میں پاکستانی بارڈر پر پہنچ جاتے۔ اگر وہ فوراً متحرک نہ ہوئے تو اگلی صبح وہ ایسا کریں گے جب ان کا طیارہ یہ بتائے گا کہ کوئی چیز بھی مخالفت کرنے والی نہیں ہے۔

قبائلیوں کے رخصت ہونے سے خطرناک خلا ءپیدا ہو گیا تھا۔ کشمیر میں کہیں بھی بڑی بات نہیں تھی۔ لیکن یہاں سب سے اہم بڑے روڑ کو شامل کرناتھا جو آزادی کی طرف سے سب سے بڑے علاقہ سے گزرتا تھا۔ قبائلیوں کی جگہ لینے کےلئے کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا۔یہ علاقہ قبائلیوں کے قابل دید فرار میں حاصل ہو اتھا اور اب اس کا اچانک نقصان اتنا تباہ کن تھا کہ اس سے دوسرے علاقوں میں بھی تحریک آزادی کو خطرہ تھا۔ یہ ایسا منظر تھا کہ اسے سوچ کر خوف ہوتا ہے۔
واضح طور پر جلد از ممکن رفتار سے اس کی اصلاح ہونی چاہئے لیکن کیسے ؟یہ سوال تھا۔ لوگ یہاں ملحقہ علاقوں اور کشمیر سے آئیں گے لیکن اس میں کچھ دن لگیں گے۔ جبکہ یہاں معاملہ کچھ گھنٹوں کا ہے قبل اس کے کہ بھارتی اس خلا ءکو جا کر قبضہ کر لیں۔ ہمیں اسے ہی روکنا ہوگا۔
میں نے اپنے لئے ایک کرنے کا فیصلہ کیا وہ یہ کہ ہم کچھ پل کو تباہ کریں گے، اس سے دشمن کو دیر لگے گی۔ مزید یہ کہ ہم اس طرح کام کریں گے کہ انہیں یہ تاثر جائے کہ قبائلی ابھی بھی یہاں موجود ہیں۔ اس طرح وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھیں گے اور جو بھی وقت ملے گا اس میں ہم مقامی لوگوں سے مل کر رضا کار تیار کرنا شروع کریں گے۔
اسی غرض سے میں نے گروپ کو دو حصوں میں منقسم کر دیا اور ایک گروہ کو کچھ میل پیچھے بیس بنانے کےلئے بھیج دیا جبکہ میں اور چار لوگ اوڑی میں رہ گئے۔ گزشتہ چھ گھنٹوں سے دروازہ بالکل کشادہ کھلا ہونے کے باوجود دشمن آگے نہیں بڑھا تھا۔ ہم نے خاموشی سے انتظار کیا ۔ اب تک وہاں کچھ ایسا نہیں تھا کہ ہم کچھ کرتے سوائے دشمن کے انتظار کرنے کے وقت گزرتا رہا کچھ ہوا نہیں اور تین مزید گھنٹے گزر گئے۔
تبھی صبح ۴ بجے ہمارے پیچھے کچھ فاصلے پر کسی گاڑی کی لائٹ نظر آنی شروع ہو گئی۔ کوئی ہماری طرف آرہا تھا۔ پوری رات لوگوں کو ہمارے پاس سے جاتے دیکھنے کے بعد ایک خوش منظر سامنے آیا۔ وہ ایک جیپ تھی جس میں چار (آفریدی) فوجی سوار تھے۔ سپوئے خیال اکبر اور تین دیگر جو اپنی اکائیوں سے علیحدہ ہو کر کشمیر میں جنگ لڑنے آگئے تھے۔ میرے حیرت کی انتہا نہ رہی وہ ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے کیونکہ وہ اچانک علیحدہ ہوئے اور کوئی ہتھیار ساتھ نہیں لیا۔ تاہم وہ بہت پر عزم تھے۔ پورے راستے انہوں نے دوسروں کو چھوڑتے ہوئے دیکھا تھا جنہوں نے انہیں مشورہ دیا کہ واپس ہو جاﺅ کیونکہ جنگ ختم ہو چکی ہے لیکن ان کا دماغ نہیں بدلا۔ انہوں نے لوگوں سے چار رائفلیں ادھار مانگی تھیں اور انہیں منع کر دیا گیا تھا۔ لیکن وہ آتے رہے۔ اور جب میں نے ان کے سامنے حالات واضح کئے تو انہوں نے کہا کہ اگر چاہتے تو واپس جا سکتے تھے وہ کافی مضبوط تھے۔ وہ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔
کچھ دیر میں صبح نمودار ہوئی۔ دشمن کی فوج اور طیارے جلد ہی مشغول ہو جائیں گے ۔ لہٰذا انہیں بتانا تھا کہ فرنٹ اب بھی وہاں موجود تھا۔ میں نے ان چار لوگوں کو برن دے کر آگے بھیج دیا تاکہ وہ بھارتیوں کے سرپر فائرنگ شروع کریں۔ بھارتیوں نے بھی اپنی بندوق چلانا شروع کر دی لیکن مضافاتی علاقوں میں خالی جگہوں پر گولی چلا رہے تھے، وہاں کوئی نہیں تھا جس پر گولی چلائی جائے ہم سب دور ٹھیک تھے اور خطرے سے باہر تھے۔
دوسرا گھنٹہ بھی گزر گیا اور بھارتی اب بھی بہت محتاط تھے، جلد بازی نہیں دکھائی وہ لمبے فاصلے سے گولی چلانے سے مطمئن تھے۔ اور ہمارے آدھے درجن فائر کے نتیجے میں وہ شاید چھ ہزار مرتبہ فائر کرتے، اس میں کوئی نقصان نہیں تھا۔ ہمیں وقت مل رہا تھا۔ اس طرح کئی گھنٹے گزرگئے۔ ان کے طیارے پورے علاقہ کا معائنہ کر رہے تھے۔ بمباری کر رہے تھے اور مختلف جگہوںپر فائر کر رہے تھے۔ اس بات سے بالکل انجان کہ وہاں حملہ کرنے کے لئے کوئی نہیں تھا۔ جس دوران وہ مشغول تھے۔ ہمارے کچھ جوان اوڑی کے قریب پل تباہ کرنے میں مشغول تھے اور دو پہر تک ہمیں آخر کار ٹوٹی برج میں پناہ مل گئی۔
جب بھارتی وہاں پہنچے تو انہیں ڈھیروں ساری فائرنگ کا سامنا ہوا اور وہ وہیں رک گئے۔ انہوں نے عمومی انداز میں اس کا جواب دیا لیکن وہ مزید آگے نہ بڑھے۔ اندھیرا ہو رہا تھا اور تاریکی میں انہیں لگا کہ انہیں محتاط رہنا ہو گا ایک مرتبہ پھر پورے علاقہ میں رات کا سناٹا چھا گیا اور یہ ہمارے لئے مناسب تھا۔ کیونکہ ہم اڑتالیس سے زائد گھنٹوں سے سوئے نہیں تھے۔
اگلے دن صبح تڑکے ہم نے دو بارہ دشمن پر حملہ کیا اور پھر رینج سے باہر چلے گئے اور پھر حملہ سے پہلے وہ لوگ اس جگہ کو تباہ کر رہے تھے۔ ہم دو بارہ دوسری جگہ چلے گئے۔ کچھ دوسرے پل میں مشغول ہو گئے اور کچھ بے شمار گھاٹیوں سے گزرنے لگے۔ ڈھلان سے اوپر نیچے چڑھتے ۔ کبھی اس پہاڑی تو کبھی اس پہاڑی چڑھتے مختلف مقامات سے دشمنوں پر حملہ کرنے کےلئے تاکہ یہ تاثر جائے کہ سبھی جگہوں پر لوگ موجود ہیں ۔

میری امید کے موافق اس نے کام کیا۔ ہم یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب تھے کہ فرنٹ ابھی بھی وہاں موجود تھا اور نتیجتاً بھارتی محتاط ہی رہے۔ اگر چہ ان کے اوزار پہلے ہی اوڑی پہنچ گئے تھے۔ ان کی اصل فوج کو اوڑی پہنچنے میں مزید دن لگے۔
اور وہاں سے ہم نے انہیں روڑ سے دور جانے نہیں دیا۔ روڑ پر ہی انہیں لگا کہ انہیں ہر برج کو لمبے اور بھاری تیاری کے بعد جانا ہوگا اور اس طرح ایک برج سے دوسری برج تک کرتے رہے۔ لیکن اوزار اور ڈائنامئٹ کی عدم موجودگی میں پلوں کو تباہ کرنا ایک لمبا اور تھکانے والا کام تھا۔ قوت کا مظاہر کرنے کے لئے پہاڑوں پر چڑھنا اترنا مزید تھکانے والا تھا۔ تاہم وقت حاصل کرنا تھا اور ہر گھنٹے کو شمار کرنا تھا ،حاصل شدہ پہلا دن ہمارے لئے قسمت والا تھا۔ دوسرے دن ہم لڑے اور کچھ جانی نقصان بھی کیا۔ تیسرے دن کے اختتام پر مجھے لگا کہ ہم نے کچھ حاصل کر لیا ہے۔ یقینی طور پر مجھے لگا کہ اب کسی کو ہماری مدد کےلئے آنا چاہئے اور رات کو ہم رات کو اپنے پیچھے روڑ کی طرف دیکھتے رہے لیکن کوئی نہیں آیا۔ لہٰذا وہی طریقہ کار اپنانا پڑا ہر روز ہم ایک پل گراتے اور ہر دن بھارتی وہاں آتے اور مزید آگے نہیں بڑھتے۔ چھٹے دن 15 میل کے فاصلے پر چکوٹی میں رک گئے۔ یہاں ہم نے ایک بہت گہری گھاٹی سے گزرنے والی لمبی برج کو تباہ کر دیا تھا اور دونوں طرف ڈھلوان سے گاڑی لانا ممکن نہ تھا ۔ اگر بھارتی یہاں سے آگے جانا چاہتے ہیں تو انہیں اسی پل کو پھر سے تعمیر کرنا ہوگا۔ جب ان کا پہلا پٹرولنگ دستہ (گشتی دستہ )وہاں آیا تو اسے ہر وہ چیز مل گئی جو ہمارے پاس تھی۔ ایک ٹرک اور دو لوگوں کو چھوڑ کر وہ بھاگ نکلے۔ مزید آئے اور پھر گولہ باری، فائرنگ اور فضائی حملہ غروب آفتاب تک چلتا رہا۔ اگلی صبح دوسرے دن کی طرح نہیں تھی۔ انہیں اب تک ہماری پوسٹ مل گئی تھی۔ اور اس طرح واحد متبادل ان کے پاس یہ تھا کہ جھاڑیوں والے اونچے پہاڑ سے ہماری طرف پیدل فوج حملہ کرے اور انہوں نے ایسا نہیںکیا۔
بہت ممکن ہے کہ اوڑی سے بھارتی اس سمت میں آنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ شاید پونچھ جانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے جہاں کچھ ریلیف کی ضرورت تھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مظفر آباد تک کے اہم مزید علاقہ پر قبضہ کرنے کے موقع کو نہیں چھوڑدیں گے۔ انہیں اپنے راستہ میں کوئی مخالف نہیں ملا تھا۔
مشقت بھرے چھ دن کے دوران کوئی نقصان نہ ہونے کی وجہ سے مجھے تقریباً یقین ہو گیا تھا کہ کشمیر کے پتھروں اور بٹوں کے درمیان ہم زخمی نہیں ہو سکتے تھے اور یہ صحیح ثابت ہو جاتا، اگر اگلے دن ایک حادثہ پیش نہ آتا۔ تین اور آدمیوں کے ساتھ ایک گاڑی میں سوار ہو کر جا رہے تھے کہ اسی علاقہ میں روڑ کے صرف ایک میل کے فاصلے پر ہم پکڑ لئے گئے۔ ایک طیارے کو سیدھا اپنی طرف آتے ہوئے میں نے دیکھ لیا۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسا ہو ا لیکن تب تک پناہ لینے کا وقت ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت ہم بالکل کھلی جگہ میں تھے۔ ہمارے آگے پیچھے چھپنے کےلئے کوئی زمین دوز نالی نہیں تھی۔ قریب میں 200 گزر تک واپس دوڑ کر جانا اور ٹھہرنا ممکن نہیں تھا۔ طیارہ نے پہلے ہی اپنی ناک ڈبونی شروع کر دی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ دوسرے ہی غوطہ میں ہم آئیں گے لیکن 20 ایم ایم گن کا دھماکہ ہوا تو چند ہی سکنڈ میں نکلنا تھا۔
ایک لمحہ کےلئے لگا کہ سب کچھ ختم ہو گیاہے۔ میں نے سوچا کہ کیا یہ قرض کی ادائیگی ہے۔ بہر حال اسے آسان ٹارگٹ دینے کا کوئی مطلب نہیں بنتا تھا۔ اگر گاڑی تیزی کے ساتھ چل سکتی تھی تو اس سے پائلٹ سر کے اوپر شوٹ کر سکتا تھا۔ لہٰذا میں نے یہ کیا اور تقریباً ایسا کر بھی لیا لیکن بالکل نہیں کر سکا۔ گولی چھت کے اوپر سے آئی اور ایک شخص کو بُری طرح زخمی کر دیا۔ ان سات دنوں میں ہم نے وہاں کے مقامی لوگوں سے رابطہ کیا تھا اور انہوں نے 75 رضا کار تیار کر لئے تھے اب وہ ہم سے ملنے ی والے تھے ۔آزاد حکومت بھی ہتھیار اور رضا کار جمع کر رہی تھی اور مدد راستہ میں تھی۔ باغ اور پونچھ کے مضافاتی علاقوں سے پیغامات آچکے تھے کہ وہ مدد کرینگے لیکن فی الحال وہ اپنی مشکلات سے گھرے ہوئے تھے۔
د و دن بعد جب چکوٹی کو ابھی بھی بھارتی دھمکی دے رہے تھے ۔ آخر کار ساڑھے تین سو پاکستانی رضا کار پہنچ گئے۔ ان کی اکثریت سابق خداداد مملکت تھی جو رائفل سے لیس تھے اور دیکھنے کا وعدہ کر رہے تھے۔ بالآخر ایسا لگا کہ خطرہ ٹل گیا لیکن ایسا نہیں تھا۔
ان نئے آنے والوں میں زیادہ تر ایکس سروس مین تھے۔ انہوں نے دشمن کو مارنے والے رینج میں پہنچ کر دل کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی مزاحمت دکھائی۔ آئندہ دنوں میں ایک کام کے بعد دوسرا کام جو ان کے سپرد تھا چھوڑ دیا گیا، بعد اس کے کہ ان پر حملہ کیا گیا۔ اور زیادہ تر اوقات میجر اسلم کی قیادت میں مٹھی بھر لوگ پہاڑیوں پر تنہا رہ گئے۔ کار کردگی اور طاقت کا تاثر پیدا کرنے کےلئے پہاڑیوں سے دور، خطرہ سے باہر علاقہ میں ان کے استعمال نے بجا کام کیا۔ لیکن اگر ایک یا دو گولہ باری ان کے پاس ہوتی یا کوئی طیارہ ان کے اوپر آتا تو وہ پریشانی میں منتشر ہو جاتے۔

میں نے ان میں سے سو لوگوں کو دریا کی جانب بھیج دیا جہاں وہ محفوظ رہیں گے اور جہاں وہ دشمن کے آخری سرے سے بالکل مخالف سمت میں ہوں گے۔ جہاں وہ دریا پار سے دشمن کی غیر محفوظ گاڑیوں پر حملہ کرنے پر قادر ہوں گے۔ وہ منتخب شدہ مقام پر بحفاظت اور پتہ لگے بغیر پہنچ گئے ۔ دریا کے ذریعہ محفوظ اور بٹے کے درمیان چھپ کر انہوں نے پوری دو پہر گزاری جہاں وہ دشمن کی فراہمی والی لاریوں کے قافلے کو غیر محفوظ تنگ روڑ پر ان سے 300 گز کے اندر گزرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ موقع تو اچھا تھا۔ لیکن انہوں نے ا س سے فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ انہیں دشمن کی جوابی فائرنگ سے خوف تھا، ایک بھی شاٹ فائر نہیں کی گئی اور سو میں سے بانوے بھاگ کھڑے ہوئے۔
اب تک 200 سواتی بھی آن پہنچے تھے لیکن بالکل منحصر، وہ بھی اب تک با قاعدہ فوج کے خلاف لڑنے سے پوری طرح واقف نہیں تھے ۔ میں نے روڑ اور ان دیگرراستوں کو بند کرنے کےلئے ان کا استعمال کیا جسے بھگوڑے چھوڑ رہے تھے۔ اس سے بھگوڑے پہاڑیوں پر بھاگ گئے اور اس عمل میں وہ رائفل بھی ساتھ لے گئے۔
تاہم مزید رضا کار آرہے تھے اور یہ بہاﺅ بالکل جھرنے جیسا بن گیا تھا ۔ لیکن کسی نہ کسی وجہ سے انہیں وہ پسند نہیں آیا جو انہوں نے یہاں پایا۔ کچھ نے ایک نگاہ دیکھا اور چلے گئے۔ کسی کو پوری پہاڑی میں ایک بیل ملا۔ کچھ ایک دو رات رکے اور پھر غائب ہو گئے۔ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ میں آنے سے دوسروں کا حوصلہ نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ کیونکہ وہاں پر ان کی موجودگی گرچہ مختصر ہی سہی کچھ فائدہ مند مقصد پورا کر رہی تھی۔ ان سے دشمن کو یہ تاثر جاتا تھا کہ ان کی تعداد زیادہ ہے اور چالاک سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ روڑ سے ہو کر لاریوں میں ان کی آمد کی اطلاع جاسوس بھارتیوں کو دیتے تھے۔ لیکن واپسی کے سفر میں بھگوڑے پہاڑیوں سے بھاگ رہے تھے۔ جو عموماً نظر نہیں آتا تھا۔ چنانچہ دشمن کی نگاہ میں ہم شاید اپنی تعداد بہت تیزی سے بڑھا رہے تھے۔ یہی تو چاہئے تھا۔ تاہم ہماری طرف ان کا تاثر صرف اتنا تھا کہ کچھ لوگوں کی حکمت عملی مار کر بھاگنے کی ہے اور کچھ لوگوں کودیکھ کر بھاگنے کی ہے اور کچھ لوگوں کوصرف بھاگنے کی ہے۔
ایک لمحہ کےلئے سابق فوجی دم بخود تھے۔ انہیں جس چیز کی ضرورت تھی وہ تھی مختلف قسم کی ہینڈ لنگ، ان کی ماضی کی ٹریننگ نے انہیں فراہمی، گفتگو اور طبی مدد و غیرہ کے با قاعدہ سسٹم پر منحصر بنا دیا تھا۔ جن میں سے کچھ بھی یہاں موجودہ نہیں تھا۔ یہاں پر انہیں کچھ ادا نہیں کیا جاتا تھا اور انہیں اپنا کام کرنے کےلئے نہ ہی کسی دیگر قسم کی ذمہ داریاں تھیں، وہاں انہیں کمانڈ کرنے کےلئے کوئی آفیسر نہیں تھا اور وہاں ڈسپلن کو لاگو کرنے کےلئے سزا اور دیگر ذرائع بھی نہیں تھے۔ ان میں سے کچھ نے فوجی دستہ، پلٹن یا کمپنی کمانڈر کے طور پر کمانڈ فرض کیا تھا۔ لیکن یہ بالکل سطحی بات تھی کیونکہ حقیقت میں انہوں نے کسی حقیقی اختیار کی مشق نہیں کی تھی۔ ان کے پاس اپنے مقامی با اثر اشخاص تھے۔ جنہوں نے انہیں جمع کیا تھا۔ ان کا ساتھ دیا تھا تاکہ وہ مختلف انداز میں سلوک کریں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تاہم یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ حقیقی خطرہ کی پہلی نشانیوں کے سامنے آنے پر وہ تقسیم ہو گئے۔ ان میں سے کچھ نے دلیل دی کہ یہ واضح قتل ہے اور جنہوں نے اسے اٹھانے پر اصرار کیا وہ ان کی نگاہوں میں پاگل تھے ۔ تاہم دریں اثنا ایک نیا عنصر آہستہ آہستہ انبار سے باہر ظاہر ہونا شروع ہوا جو آیا اور چلا گیا ۔ ایسے اشخاص ادھر ادھر ظاہر ہوئے جو سنگین ذہن کے حامل تھے۔ جو حالت کو سمجھتے تھے اور ان مقامی لوگوں کے ساتھ ہی لوگ مزاحمت کی جڑ بنانی شروع کر دی جو شروع سے ہی عظیم انحصار پذیری کی نشانیوں کو دکھا رہے تھے۔ اس ضلع کے لوگوں میں فوجی تجربہ کم تھا اور پہلی مرتبہ اتنی مقدار میں ہتھیار حاصل کر رہے تھے۔ اس لئے انہیں جنگ کےلئے تیار ہونے میں تھوڑا وقت لگنا فطری بات تھی۔ لیکن ان کی اپنی آزادی میں ضروری شئے تھی جو ان کے لئے معنی رکھتی تھی ۔ گرچہ وہ چند ہفتوں کے عرصے میں اب صرف 75 تھے۔ انہیں لیفٹیننٹ قدرت اللہ (سابق ریاستی فوجی) کی زیر قیادت پہلی مظفر آباد بٹالین ہونا تھا۔ اب تک قبائلیوں نے بھی واپس آنے کے لئے بات چیت شروع کر دی تھی۔ وہ معذرت خواہ تھے اور کچھ کر گزرنے کے لئے ایک موقع کی تلاش میں تھے۔ یقیناً ان کی بہت ضرورت تھی لیکن موثر کنٹرول کی خاطر میں نے صرف 300 محسود کو ساتھ آنے کی اجازت دی ۔ ان کے لیڈر گلاب خان ایک حوصلہ مند اور بھلے آدمی تھے۔ وہ بلا مبالغہ اس قسم کے آدمی تھے کہ کوئی بھی ان پر انحصار کر سکتا تھا۔
اس رات کیمپ فائر کے آس پاس، ہم نے لمبی کانفرنس کی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ محسود تمام قبائلیوں میں کم کنٹرول میں آنے والے ہوتے ہیں لیکن وہ بہت زیادہ حملہ آور تھے اور یہاں اسی چیز کی ضرورت تھی۔ وہ اب بھی یہی سوچ رہے تھے کہ پاکستان کشمیر میں لڑنے کیوں نہیںآیا لیکن پریکٹیکل آدمیوں کی طرح ان سے بتایا گیا کہ ان کے ذہن میں کیا تھا۔ انہوں نے اپنے کام کے حصہ کی طرف سنجیدگی سے غور کرنے کی خواہش جتائی۔
اگلے دن میں نے انہیں پہاڑیوں میں بھیج دیا۔ بھارتی پوسٹوں سے بچتے ہوئے انہیں 15میل کے فاصلے پر جانا تھا جو چکوٹی اور اوڑی کے درمیان واقع تھا۔ انہیں ایسا روڑ بنانا تھا جو اوڑی سے پونچھ کر جاتا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ اس راستے سے بھارتی پونچھ کی محصور چھاونی کو مدد بھیجیں گے اور نقشہ سے ہٹ کر ایک جگہ کا تعین کیا گیا جہاں انہیں گھات لگانی تھی۔ قبائلی وہاں پہنچ گئے اور دوسرے دن ایک قافلہ گھات میں جا پہنچا۔ چھتیس لوریاں جلا دی گئیں اور بہت سے بھارتی مارے گئے اور قبائلی ہتھیار گولہ بارود فوجی لباس اور وائرلیس سیٹ، فیلڈ ٹیلیفون اور آدھا درجن توپ سمیت دیگر ساز و سامان کے ساتھ واپس پہاڑیوں پر آگئے۔

یک لخت مضافات کے علاقے میں حوصلہ کی لہر دوڑ گئی۔ کافروں کا پیچھا کرو، اس قسم کا عام احساس تھا اور ہم آگے بڑھنا شروع ہو گئے۔ سامنے سے ان پر حملہ کرنا بھارتی ہر اول دستوں کےلئے کافی تھا۔ انہوں نے اپنی جگہیں چھوڑ دیں اور میں نے ان کا پیچھا کیا حتیٰ کہ ہم دوبارہ اوڑی کے پیرا میٹر تک پہنچ گئے۔
نومبر اب ختم ہو چکا تھا۔ تین ہفتے قبل یہ فرنٹ گر چکا تھا اور بھارتی چکوٹی اور اوڑی تک آگے بڑھ آئے تھے۔ اب پونچھ سے ان کا ناطہ ختم ہو چکا تھا۔ چکوٹی سے بھگا دیئے گئے تھے اور فرنٹ نے اوڑی میں ان کے آس پاس اصلاح کی۔
لیکن فرنٹ حقیقت میں فرنٹ نہیں تھا۔ چکوٹی سے اوڑی کو جانے والے روڑ پر جاتے ہوئے ایک یا چند دنوں بعد، مجھ سے کوئی بھی فرد بشر نہیں ملا، نہ ہی دشمن اور نہ ہی دوست، نصف راہ میں کسی جگہ ہمیں ایک پوسٹ ملی جو روڑ سے ایک میل کے فاصلے پر پہاڑی کے اوپری حصے میں تھی، وہاں کچھ آدمی تھے۔ قبائلی اور مقامی افراد شاید کہیں دور تھے۔ لہٰذا ان پہاڑیوں کی وسعت میں کچھ لوگوں کی موجودگی گو کہ ہولیکن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ہم نے مکمل طریقے سے پورے علاقہ پر قبضہ کرلیا کہ بھارتی نہ یہ کہ محض اوڑی بھاگ گئے بلکہ انہوں نے اپنے پیچھے پل کو بھی تباہ کر دیا۔ عمل اب الٹ چکا تھا۔ اب ان کی باری تھی برج کے پیچھے چھپنے کی۔
اتنا اطمینان قلب تھا کہ میں اس رات چکوٹی واپس چلا گیا۔ اب کرنے کا کام صرف یہ تھا کہ مقامی لوگوں کو فن حرب اور تربیت میں مدد کی جائے۔ اس کے لئے انہیں کچھ ہفتے درکار ہونگے اور اس دوران قبائلی کو آس پاس ہونا ہوگا۔ سختی سے حملہ کرنا ہوگا تاکہ یہ بات یقینی بنائی جائے کہ بھارتی دوبارہ آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں ۔ لہٰذا میں نے مزید قبائلیوں کو بلا بھیجا اور ان کی آمد پر میں نے انہیں مختلف ذمہ داریاں دیں۔ ان لوگوں میں سے میں اپنے دو پرانے ساتھیوں سے ملا، میرے خیال میں آفریدیوں کو ڈائریکٹ کنٹرول کی سب سے کم ضرورت تھی۔ لہٰذا میں نے انہیں پونچھ بھیج دیا تاکہ وہ ناکہ بندی میں مدد کریں اور اوڑی پونچھ روڑ کو بند رکھیں۔ مہمند جو سرینگر کے قریب چوتھے سنگ میل پر عمل میں مصروف تھے انہیں کچھ وقت کی ضرورت تھی تاکہ وہ خود کو یکجا کر لیں۔ محسود عمل کے لئے تیار تھے اور لہٰذا ان کے ساتھ میں دو بارہ اوڑی کی طرف بڑھا۔
ہماری منزل گہلان گاﺅں تھا جو اوڑی کے مغرب میں تقریباً ایک میل پر واقع تھا۔ مین روڑ سے 7000 فٹ پہاڑیوں کاسفر تھا۔ اس پر دو یا تین فٹ برف تھی۔ اس میں دو دن لگ گئے ۔ دشمن ہمارے جمع ہونے کے بارے میں پہلے سے ہی واقف تھا۔ اگلے صبح جلد ہی تین طیاروں نے ہم پر حملہ کر دیا۔ میں اور بہت سے دیگر کمزور جھونپڑیوں میںپکڑے گئے۔ ہماری دیوار گر پڑی اور پتلی دیوار میں گولی گھس گئی۔ لیکن کسی کو چوٹ نہیں آئی۔ ڈھلوان پر اوپر نیچے ہم گر رہے تھے لیکن کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے بعد دو مزید حملے ہوئے لیکن انوکھے انداز میں قبائلی جنہوں نے پہلے ہی بھارتی طیارے کی یک جہتی موجودگی کا مسئلہ بنایا تھا اب لاپرواہی سے ان سے نمٹ رہے تھے۔ گر چہ ایک بھی شخص زخمی نہیں ہوا تھا لیکن اس رات دہلی ریڈیو نے اعلان کیا کہ ہم میں سے تین سو لوگ گہلان میں مارے گئے۔
دوپہر میں اوڑی پریمئر کے جنوب، مغرب اور شمال سمتوں کے مخالف پوزیشن لینے کےلئے آگے بڑھے۔ ایک جماعت آگے اس ارادہ سے بڑھی تاکہ وہ سرینگر روڑ کو اپنے پیچھے روک دیں گے۔ میںنے ایک گروہ کو کیمپ میں جانے کے لئے تیار کر رکھا تھا، اگر ایسا موقع آتا ہے۔ اگلے دن دوپہر کے 12بجے وہ حملہ کرنے کےلئے تیار ہونگے۔ حالات کے حساب سے ریڈ ڈالی جائے گی۔ دوپہر 12بجے کےلئے جب صفر گھنٹہ تھا میں نے دشمن کےلئے ایک حیرت کا انتظام کیا تھا۔ ہم بارہ فوجی رضا کاروں کو لائے تھے۔ ساتھ ہی 3توپ اور 250 گولہ بارود جو کیمپ کے مرکز پر حملہ کرے گا، جہاں دشمنوں کی تمام گاڑیاں پارک تھیں۔ یہ قبائلیوں کےلئے آغاز کا بھی اعلان ہوگا۔
میں نے توپوں کو محفوظ جگہ رکھا تھا جہاں سے وہ 2500گزکے فاصلے سے اپنے ہدف پر نشانہ لگائیں گے۔ ان کے سامنے ایک ہزار گز تھا۔ میں نے اپنے آپ کو ایک ٹیلہ پر براجمان کیا تھا جہاں سے پورا کیمپ نظر آرہا تھا ۔ میری طرف سے ایک سگنل پر توپ کو حملہ کرنا تھا۔

صبح کا وقت خاموشی سے گزر گیا صرف طیارے آس پاس اڑھ رہے تھے اور کبھی کبھی ادھر ادھر بمباری ہو رہی تھی جس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔ دو پہر میں، میں نے سگنل دیا اور بلا توقف کے بڑے دھماکہ کا انتظار کیا۔ پہلی بار بھارتی ہماری طرف سے ہوں گے۔ لیکن میں نے بیکار کا انتظار کیا۔ کچھ نہیں ہوا۔ مجھے بعد میں سیکھنا تھا۔ توپ کو پینڈل کرنے والے لوگوں نے بھی پرانی چال چلی۔ دشمن کے جوابی حملہ سے خوف کھا کر، آخری لمحے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور توپ کو پیچھے چھوڑ دیا۔
قبائلیوں کو بھی متوقعانہ انداز میں دھماکہ کا انتظار تھا ۔ انہیں سمجھ نہیں آیا کہ کیوں یہ شروع نہیں ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ خود ہی آگے بڑھے۔ دو دنوں تک انہوں نے حملہ کرکے کیمپ کو گھیرے رکھا اور انہوں نے کچھ بھارتی پیٹرول پر بھی گھات لگائی۔ لیکن کیمپ میں گھسنے کےلئے کسی حقیقی موقعہ کے پہلے ہی ان کا بارود ختم ہو گیا تھا۔ گہلان میں بھی کوئی راشن نہیں بچا تھا اور لہٰذا تیسرے دن جب بھاری برف باری ہو ری تھی میں نے قبائلیوں کو روڑ پر بھیج دیا۔
بھارتی کیمپ میں پیدا ہونے والا خوف اور عمومی تناﺅ اس طرح کا تھا کہ ایک وائر لیس پیغام کے مطابق بھارتی بریگیڈ کمانڈر نے سرینگر کو رپورٹ کیا کہ اس کی پوزیشن غیر مستحکم ہو چکی ہے اور واضح طور پر اوڑی سے نکلنے کےلئے اجازت مل گئی تھی۔ لیکن تب ہی ہماری طرف سب کچھ ختم ہو گیا۔
میرا اندازہ تھا کہ ہم نے 250لوگوں کو مار گرایا ہے۔ دشمن نے بھی قبول کیا۔ کیونکہ جنرل میسروی سے کمانڈر ان چیف بھارت نے بتایا کہ ان کے اموات ایک سو تھیں۔ اب تک ان کا یہ سب سے بڑا خسار ہ تھا۔ ہمارے خلاف انہوں نے ایک دلچسپ دعویٰ کیا کہ سات سے آٹھ سے لوگوں کو مار گرایا ہے۔ جبک حقیقت میں قبائلیوں نے صرف گیارہ لوگ کھوئے۔
چنانچہ گہلان کا معاملہ ختم ہوا۔ یہ دسمبر کی بات ہے اور پورے علاقہ میں برف باری شروع ہو گئی تھی۔ مجھے اب اعتماد ہو گیا تھا کہ موسم سرما کے دوران اس فرنٹ پر سب ٹھیک ہوگا۔
آزاد منصوبے
اوڑی سے جی ایچ کیو آزاد میر کا بلاوا آیا۔ کچھ دنوں بعد میں نے سردار ابراہیم اور ان کے عارضی کینٹ سے ملاقات کی۔ اب میں بھی نو ساختہ آزاد کمیٹی کا ممبر تھا۔ اس مرحلہ میں کمیٹی کو فاصلے سے حالات کا تجزیہ کرنا تھا۔ کچھ عام پالیسی کو وضع کرنے کےلئے جلدی تجزیہ کی ضرورت تھی۔
خود کے دفاع کی ضرورت اور ڈپلومیسی آزاد کی خواہش کی غرض سے کشمیر میں بغاوت شروع ہو گئی ۔ اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ ریاست کی سالمیت کے خلاف بغاوت تھی۔ ایک ہی جھٹکے میں بھارتی مداخلت نے مزاحمت کے پورے کردار کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ ایسا لگا جیسے لوگوں کی تمام امیدوں کا دروازہ بند ہو گیا ہو۔ کیا بھارت نے امن کی بحالی کی خاطر اپنی فوج میں غیر جانبدار فورس کو بھیجا۔ جس نے کشمیر کی سیاسی حیثیت کو نہیں چھوا۔ اس کا مختلف اثر ہو سکتا تھا۔ ایسی صورت میں پاکستان نظم و نسق کی بحالی میں ساتھ کھڑا ہو سکتا تھا اور ریاست کے لوگوں کو احتجاج جاری رکھنے کےلئے کوئی مزید وجہ نہیں دِکھ سکی۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایک طرف بھارت اور پاکستان کی مشترکہ افواج مہاراجہ کے ظلم سے ان کی حفاظت کرے گی اور دوسری طرف ان کی خواہش کی غیر جانبدار دریافت کے امکان کو یقینی بنائے گی۔
لیکن اس طریقہ سے یہ نہیں ہوا اور حقیقی طور پر بھارتی عمل کا کیا مطلب تھا۔ ہم اپنی فوج کے قبضہ میں لے کر آئے ہیں۔ مہاراجہ کو تم پر حکمرانی جاری رکھنی ہوگی اور اب ریاست بھارت کا حصہ ہے ۔ گرچہ اس صاف اور واضح درآمد کا مطلب اس وعدہ سے شوگر کوٹیڈ ہولنا ک ہو، ہر چیز پر امن ہوگی جسے مجلس العام چلائیں گے اس طرح کے وعدہ پر بہت سادہ لوح بھی یقین نہیں کر سکیں گے۔
اس لئے فوری نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جد و جہد احتجاج اور مانگ سے تبدیل ہو کر جہاں تک ممکن ہو افراد اور علاقوں کے ذریعہ انتھک محنت بن گی۔ تاکہ بھلائی کے لئے پرانی ریاست سے خود کو علیحدہ کر لیں اور چنانچہ تحلیل شروع ہو گئی۔

دور شمال میں، گلگت ، ہنزہ، بنجی اور اسٹر وغیرہ کے پورے علاقوں نے جو تقریباً17500 سکوائر میل پر مشتمل ہے۔ خود کو علیحدہ کر لیا۔ الحاق کے چار دن بعد 31 اکتوبر کی درمیانی شب کو گورنر کی قیامگاہ کو گلگت اسکواٹ نے گھیر لیا اور اگلی صبح اسے قید کر لیا اور ایک عارضی حکومت بنائی گئی ۔
دوسرے دور دراز علاقوں میں اثر ایک جیسا تھا۔ بدھسٹ لداخ میں بھی بے آرامی کے آثار نمایاں ہو گئے تھے اور بلتستان کے درالحکومت اسکاردو کے شمالی علاقے ابھی تک پر امن تھے۔ کچھ باغی نفریاں وادی سرینگر کو دھمکانے کے لئے گوریلا اور برزیل کے پہاڑی گزر گاہوں کی طرف بڑھیں۔ باغ کے مغربی علاقہ میں ریاستی چھاونی کو بند کر دیا گیا۔ مزید آزادی تحریک کا مرکز بناتے ہوئے جنوبی کار کردگی بہت تیز ہو گئی۔ یہی وہ علاقہ تھا جس نے برطانوی بھارتی فوج کو عالمی جنگ کے دوران 80000فوجیوں کومہیا کیا تھا۔ اور اب یہاں آزادی کےلئے سب سے بڑی فورس ابھری تھی یہاں پر بہت سے قبائلی بھی ساتھ تھے۔ تورس کرم سے تھے۔ ایک لشکر دیر سے تھا زدران اور تاجک افغانستان سے تھے۔ جو سب سے بڑا حصہ بنا رہے تھے۔ یہاں پر دریس سب سے زیادہ دلیری سے لڑے جب انہوں نے بھارتی اکائی کو تلوار سے چارج کیا اور اسے عملی طور پر ختم کر دیا۔ چنانچہ اس علاقہ کی زیادہ تر پوسٹوں کو بند کر دیا گیا۔ مندھار، کوٹلی اور راجوری اب آزاد ہاتھوں میں تھے۔
دریں اثنا مزید بھارتی فوج کشمیر آرہی تھی ۔ سرینگر میں فورس بریگیڈ سے ڈویژن بن گئی۔ جموں سے دیگر بریگیڈ مغربی سمت نوشہرہ اور میر پور کے روڑ سے ہو کر بڑھنے لگے اور یہ بات واضح تھی کہ بھارت اپنی طاقت بڑھائے گا۔ اور اس بڑھتے خطرہ سے نمٹنا تھا۔
اسی لئے جلد از ممکن منتشر آزاد عناصر کی کوشش کو آر ڈینیٹ کرنا ہمارا کام تھا۔ یہ تصور نہیں تھا کہ ہم بھارت کو کشمیر سے باہر نکال سکیں۔ہمیں جو کرنا تھا وہ یہ کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بھارت اس تحریک کو نیست و نابود نہ کر دے۔ اس سمت میں پہلا قدم کافی ذرائع کو تین ماہ کی مدت تک جدو جہد باقی رکھنے کےلئے جمع کیا جائے۔ اس وقت تک یہ احساس تھا کہ مشکل عالمی طور پر منظور شدہ ہو جائے گی اور اقوام متحدہ مداخلت کر سکتا ہے۔
لیکن تین ماہ تک جدو جہد کو بر قرار رکھنے میں گولہ بارود کی دقت تھی۔ دس ہزار سے زائد بھارتی جوان پلے ہی سے ریاست میں آچکے تھے۔ یہ متوقع تھا کہ جلد ہی وہ تیس سے چالیس ہزار تک اپنی تعداد بڑھا لیں گے۔ تحریک آزادی کو کچلنے سے بچانے کےلئے ہماری طرف تقریباً دس ہزار مسلح جوانوں کا ہونا ضروری تھا۔ لوگوں کی کمی نہیں تھی۔ بلکہ کمی رائفل کی تھی۔ اسی لئے دس ہزار کی تعداد زیادہ تھی جسے ہر ایک سمیت حاصل کیا جا سکتا تھا۔
اگر ہر شخص صرف سو رواﺅنڈ گولہ بارود ہر مہینہ خرچ کرتاتو تین ماہ کےلئے تیس لاکھ راﺅنڈ ہو جائیں گے۔ فی الحال دکھنے میں جو نظر آتا تھا وہ دس لاکھ کا پانچواں حصہ تھا۔
چنانچہ مستقبل آپریشن کی منصوبہ بندی میں ہماری سطح پر اس کے سوا کوئی اختیار نہیں تھا کہ حملہ اور گھات وغیرہ تک عمل کو محدود کر دیں اور اس ناگزیر رد عمل کا اثر پورے جدو جہد میں رہتا۔
گولہ بارود کے متعلق قبائلیوں نے بھاری الزامات عائد کئے۔ شکایت یہ تھی کہ اپنا گولہ بارود کا اکثر حصہ کشمیر سے باہر لے گئے حقیقت میں سچائی یہی تھی لیکن اسے روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور الزام اتنا بُرا بھی نہیں تھا جتنا وہ سرسری نگاہ میں دکھتا تھا ۔قبائلیوں کے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا ،سوائے اس کے جو وہ دشمن سے چھین کر بیچیں یا وہ گولہ بارود جو انہیں وہاں حاصل ہوا۔ بالآخر اس کا کچھ حصہ دشمنوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اور اسی کے ساتھ انہیں نتیجہ حاصل ہوا جو کافی اطمینان بخش تھا میرا تاثر یہ تھا کہ قبائلیوں اور با قاعدہ فوجیوں کو دی جانے والی گولہ بارود کی مقدار وہی تھی۔ قبائلی کو اگر بہتر نتیجہ نہیں ملتا تو کم از کم برابر نتیجہ حاصل ہو کیوں کہ انہیں بیچنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔
اگر با قاعدہ فوجی سو راﺅنڈ میں ایک لاش گراتے ہیں تو اسے عموماً اچھی اوسط سمجھا جاتا ہے ۔ گزشتہ دو عالمی جنگوں میں ایک لاش گرانے کا اوسط خرچ ایک سو راﺅنڈ نہیں بلکہ متعدد سو راﺅنڈ تھا۔ دوسری طرف قبائلی عام طور پر اتنی نزدیک اور اتنی احتیاط سے فائر کرتے کہ معمولی سو راﺅنڈ میں ایک لاش گر ا دیتے تھے اور تبھی باقی اپنے لئے بچا رکھتے تھے جس سے حقیقتاً کچھ بھی نہیں کھوتے تھے۔
کچھ مہینے بعد میں حقیقت واقعی سے اپنے تاثر کی تصدیق کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ 500 قبائلی اور 500 با قاعدہ فوجی نے تین مہینے کی مدت میں تقریباً اسی تعداد میں گولہ بارود استعمال کیا تھا اور تقریباً برابر لاش کو ڈھیر لگایا تھا۔
گولہ بارود سے آگے ایک دیگر اہم حد تھی جسے قبول بھی کیا جانا تھا۔ فورس کے اعتبار سے آزاد آپریشن تھوڑا بے ربط فطرت کا تھا کسی خاص مجموعی حکمت عملی کا ہونا یا لاگو کرنا ممکن نہ تھا۔ اسٹریٹیجک مقاصد کےلئے کسی خاص منصوبہ کو حاصل کرنے میں ذرائع اور جوانوں کی تحریک شامل ہوگی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ فوج گولہ بارود یا کھانا کا سینٹرل ریزرو کوئی نہیں تھا ،جو خاص فرنٹ کی طرف رخ موڑ دے ۔ نہ ہی ایسے آدمی تھے جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے۔ وہ اپنے علاقے میں اپنے گھروں کا دفاع کر رہے تھے اور مقامی حالت پر جگہ دن بدن مختلف تھی۔ اور کسی ایک جگہ کو کمزور کر کے دوسری کو مضبوط کرنا ممکن نہیں تھا جیسا کہ کچھ عام منصوبہ کے حصول میں عام طور پر ضروری ہوتا ہے۔
صرف متحرک عنصر جسے نظریاتی طور پر اس طرح استعمال کیا جا سکتا تھا وہ قبائلی تھے۔ لیکن وہ مختصر وقفے کے لئے استعمال کئے جا سکتے تھے۔ کیونکہ انہیں خاص علاقہ میں رکھا جا سکتا تھا۔ لیکن پھر وہ اپنے مالک خود تھے اور بسا اوقات چپکے سے دور دوسرے علاقوں میں داخل ہو جاتے جہاں انہیں مناسب ٹارگٹ مل جاتا۔ اسی لئے عمومی طور پر ہمیں صرف جدو جہد کے بر قرار رہنے سے خوش رہنا ہوگا اور اس کے بر قرار رہنے میں بہت زیادہ نظم و تنظیم کی ضرورت ہوگی اور یہ نظم و تنظیم زیادہ تر آزاد کمیٹی اور جی ایچ کیو آزاد کریں گے ۔

 

 

 

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.