کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کے چھاپہ مار

قبائلی حملہ
وزیر اعظم کی کانفرنس کے بعد میں پنڈی واپس آگیا۔ پلے شاٹس کو پہلے ہی فائر کر دیا گیا تھا اور اس تحریک نے جلد ہی اپنی اہمیت بنانی شروع کر دی تھی۔
اس مرحلے میں میری کشمیر کے سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں تھی لیکن میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں ذاتی طور پر جو بھی تعاون کر سکتا ہوں اسے کروں گا۔ جی ایچ کیو میں، میں نے بریگیڈیئر شیر خان کو بھی اعتماد میں لیا۔ وہ ڈائریکٹر انٹیلی جنس تھا اور اس کی مد د سے میں فوجی ذرائع سے آنے والی معلومات کے ذریعے اپنے آپ کو آگاہ کرنے میں کامیاب رہا۔
کیولری کے لیفٹنٹ کرنل مسعود (بعد میں بریگیڈیئر ٹومی مسعود) نے ناکارہ گولہ بارود جمع کرنے اور اسے ذخیرہ اندوزی کرنے میں مدد کی پیش کش کی۔ جب وہ زمان کیانی اور خورشید انور کو طلب کرتے تھے تو وہ اسے جاری کرتے تھے۔ ایئر کمانڈر جنجوعہ اور دیگر کے ذریعہ پاک فضائیہ کی مدد بھی موسم سرما کے لباس، گولہ بارود اور کچھ ہتھیاروں کی شکل میں آنا شروع ہوئیں۔ کمشنر راولپنڈی خواجہ عبدالرحیم ایک اور پر جوش انسان تھے جو کشمیر سے فنڈز، راشن، اسلحہ اور یہاں تک کہ رضا کاروں کو جمع کرنے میں مصروف تھے۔ جب وہ پنڈی آئے تو اس کے گھر میں نے شوکت حیات خان اور دیگر سے ملاقات کی۔
پولیس کے توسط سے 4000رائفلز کے اجراءکا انتظام مکمل کر لیا گیا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ساری رائفلیں ان لوگوں تک نہیں پہنچی جن کےلئے وہ تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ فوجی رائفلز ان لوگوں تک نہیں پہنچی جن کے لئے وہ تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ فوجی رائفلز کے بجائے پنجاب پولیس حکام نے فرنٹیئر ساختہ رائفلز سے تبدیل کرکے جاری کیا۔ یہ انتہائی کمتر معیار کے تھے اور جلد ہی وہ ٹوٹ گئے۔ قبائلی علاقوں میں بنائے جانے والی یہ رائفل ظاہری شکل میں فوجی رائفلز کی عین نقل ہے لیکن ان کی بیرل کی زندگی بہت ہی مختصر ہے اور باقی لکڑی اور دھات کا کام بھی کمزور ہے۔ قبائلی خود فوج کے خلاف لڑتے ہوئے ان کا استعمال شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔ ان کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگتایا جا سکتا ہے کہ ان رائفلز کو ان دنوں میں تقریباً ایک سو روپے میں فروخت کیا جاتا تھا جب کہ قبائلیوں نے ایک فوجی رائفل کے لئے ایک ہزار روپے کی قیمت ادا کی تھی۔ اس کے نتیجے میں ان رائفلز کو استعمال کرنے والے لوگوں کی لڑائی کی صلاحیت بہت کم ہو گئی۔ چونکہ ہمارے پاس مرمت کا کوئی بندوبست نہیں تھا، ایک بار خراب ہونے والی رائفل کو پھینکنا پڑتا تھا۔
وزیر اعظم نے اٹلی میں یا کسی بیرون ملک کی جنگی ڈمپ سے کچھ لائٹ مشین گن (برنز) حاصل کرنے کا وعدہ کیا۔ کافی رقم خرچ کی گئی لیکن جب متوقع 250برنز آئیں تو پتا چلا کہ وہ اطالوی اسٹین گن ہیں نہ کہ برنز۔ یہ ایک مکمل نقصان تھا کیونکہ یہاں مختصر رینج والی اسٹنز (زیادہ سے زیادہ رینج تقریباً200 گز) کے استعمال کی گنجائش نہیں تھی۔
دریں اثنا بھارت نے کشمیر میں کھلی متعصبانہ دلچسپی ظاہر کرنا شروع کر دی تھی۔ اس نے ریاست پر معاشی دباﺅ ڈال کر اس سے الحاق کو محفوظ بنانے کے لئے پاکستان پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک معاشی ناکہ بندی مسلط کر دی گئی ہے اور مٹی کے تیل، پٹرول، کھانے پینے کے اشیاءاور نمک کی ضروری فراہمی منقطع کر دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مواصلات میں چھیڑ چھاڑ کی گئی اور سیالکوٹ اور جموں کے مابین ریلوے سروس معطل کر دی گئی تھی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے اس کا جواب دیا تھا کہ کشمیر میں غیر یقینی حالت کی وجہ سے ، لاریاں چلانے والوں نے پنڈی سے آگے جانے سے انکار کر دیا تھا اور اس لئے کہ اس راستے پر ٹرانسپورٹ خدمات نجی، غیر سرکاری ایجنسیاں تھیں، وہاں ایسا کچھ نہیں تھا جس کے بارے میں پاکستان بہت کچھ کر سکتا ہے۔ تاہم، بھارت کے مطابق ہم نے صرف مسدودیت نافذ کرنے کےلئے معاملات کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ سرحد کے ساتھ ہی چھاپوں کا بھی اہتمام کیا تھا اور مسلح پنڈوں کو کشمیر میں در اندازی کی اجاز ت دی تھی۔
اس کی زیادہ تر باتیں کشمیر کے بھارت حمایتی مسلم لیڈر شیخ عبداللہ کے بیانات سے متصادم ہو گئیں۔ ۱۲ اکتوبر کو دہلی میں ایک پریس بیان میں اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے ایسو سی ایٹ پریس آف انڈیا نے رپورٹ کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ پٹیالا، بھرت پور اور دیگر جگہوں جیسے بعض ریاستوں میں ہونے والے واقعات نے فطری طور پر کشمیری مسلمانوں کے ذہنوں میں اضطراب پیدا کر دیا تھا۔ جو وہاں اکثریت میں ہیں۔ وہ خوفزدہ تھے کہ ہند کے ساتھ ریاست کا الحاق ان کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا، پونچھ میں موجود مشکلات ریاست کی طرف سے اپنائی گئی غیر دانشمندانہ پالیسی کی وجہ سے تھیں۔ پونچھ کے عوام جنہیں اپنے مقامی حکمران اور ایک بار پھر پونچھ کے سرپرست کشمیری حکمران کے دور حکومت میں پریشانیوں کا سامان تھا، نے اپنی شکایات کے ازالے کےلئے عوامی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ یہ فرقہ ورانہ تحریک نہیں تھی۔ ریاست کشمیر نے وہاں فوج بھیج دی اور پونچھ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ لیکن پونچھ کی زیادہ تر بالغ آبادی بھارتی فوج کے سابق فوجی ہیں جن کا پاکستان کے جہلم اور پنڈی کے عوام سے قریبی روابط ہیں۔ انہوں نے اپنی خواتین اور بچوں کو باہر نکالا، سرحد عبور کیا اور رضا کار لوگوں کے ذریعہ فراہم کردہ اسلحہ لے کر واپس آگئے۔ موجودہ پوزیشن یہ کہ کشمیری ریاستی افواج کو کچھ علاقوں میں دستبردار ی پر مجبور کیا گیا ہے۔ چنانچہ اکتوبر کے تیسرے ہفتے تک کشمیر میں سرگرمیاں واضح طور پر داخلی بغاوت کی نوعیت کی تھیں جس نے آہستہ لیکن مستحکم پیش رفت کی تھی اور جس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ تر علاقے مہاراجہ کے کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے۔
چونکہ شیخ عبداللہ ،مہاراجہ پر الزامات عائد کر رہے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ثانی الذکر خود کو بھارت پہنچانے سے قاصر رہے اور وہ بھارتی امداد طلب کرنے کا کوئی حقیقی بہانہ تلاش کرنے میں ناکام رہے ۔ لیکن پھر اچانک اس مرحلے میں ۳۲ اکتوبر کو فرنٹیئر قبائلیوں کے کشمیر میں داخل ہونے سے پوری صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ یہ واقعہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ اس کی وجہ سے چار دن کے اندر ریاست سے بھارت کا الحاق ہوا۔

مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ کب یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ قبائلیوں کے ذریعہ حملہ اسی انداز میں کیا جانا چاہئے۔ تاہم میں نے سنا تھا کہ خورشید انور قبائلیوں کا لشکر جمع کر رہے تھے۔
قبائلی حملے کے وقت بھارت کو ہماری طرف سے بظاہر اطلاعات موصول ہوئیں، مشن ودھ ماﺅنٹ بیٹن کے مطابق کمانڈر ان چیف نے ۰۲ اکتوبر کو جی ایچ کیو پاک آرمی سے ٹیلی گرام حاصل کیا ۔ جس میں لکھا تھا کہ تقریباً 5000 قبائلیوں نے مظفر آباد اور ڈومیل پر حملہ کیا اور ان پر قبضہ کر لیا۔
فرنٹیئر قبائلیوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر کھلے حملے میں مذکورہ ان دو راستوں کے ذریعہ بھارتی کمک لگانے کا پابند تھا۔ یعنی کھٹوعہ روڑ کے ذریعہ اور سرینگر لینڈنگ گراﺅنڈ پر ہوائی جہاز کے ذریعہ میں نے جلدی سے لوگوں سے معلوم کرنے کےلئے رابطہ کیا کہ آیا ضروری مرد، جن کے لئے رائفل جاری کئے گئے تھے وہ اپنی مناسب جگہوں پر ہیں۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ نہیں تھے۔ کٹھوعہ روڑ پر موجود ہزار افراد وہاں موجود نہیں تھے کیونکہ ان کی دیسی رائفلیں گئیں تھیں اور وہ پاکستان لوٹ چکے تھے اور سرینگر لینڈنگ گراﺅنڈ کے لئے بننے والی دو سو رائفلیں خورشید انور نے متعلقہ لوگوں کو نہیں دی تھیں۔ جلدی سے خواجہ رحیم کی مدد سے پہاڑوں اور دریائے جہلم کے پار پنڈی سے ایک مسلم لیگ کے نیشنل گارڈ آفیسر لطیف افغانی کی سربراہی میں ایک سو سابق فوجی رضا کار آئے۔ لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ تیس ہلاکتوں کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر وہاں پہنچے، لیکن پھر وہ لینڈنگ کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ بھارتی فوجیوں نے پہلے ہی لینڈنگ گراﺅنڈ کا دفاع لے لیا تھا۔ قبائلی حملہ، اس کے وسیع تر مضمرات کو ایک طرف چھوڑ کر اس وقت تک یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ حقیقتاً میں یہ اس کامیابی سے بھی زیادہ بڑی تھی جسے میں نے ایک فوجی کی حیثیت سے ممکن سمجھا ہوگا ۔ یہ سچ ہے کہ ان کا کام مظفر آباد میں مسلم فوجیوں کی دست برادری اور ڈوگرہ فوجیوں کے جزوی طو رپر توڑ پھوڑ کرنا تھا، جو اتنی مدد نہ کر سکے جتنی امید تھی۔ تاہم قبائلیوں کی حکمت عملی اور لڑائی کی خصوصیات کی وجہ سے یہ کسی بھی طرح سے ساتھ ساکھ کو کم نہیں کرتا ہے ،وہ بظاہر شہری لاریوں کے قافلے میں آئے تھے اور ان کی اپنی رائفل ہی ان کا اسلحہ تھا وہ تقریباً دو ہزار مضبوط نوجوان تھے، حالانکہ میں یقینی طور پر کسی بھی اعداد و شمار کو بیان نہیں کر سکا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ عام طور پر ان میں سے صرف ایک چوتھائی ہی کسی خاص وقت لڑنے میں مصروف تھے۔ ان کا آپریشن کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ لاریوں کے ذریعہ آگے بڑھیں جب تک کہ وہ مخالف کے خلاف نہ آجائیں۔ پھر وہ کود کر حملہ کرتے ایسا لگتا ہے کہ ریاستی دستے ان سے گھبرائے ہوئے تھے اور کبھی بھی اختتام پذیر جنگ نہیں لڑی، بلکہ اس کے بجائے جیسے ہی انہیں کچھ ہلاکتیں اٹھانا پڑیں وہ ایک اور پوزیشن پر چلے گئے۔ اس کے بعد وہاں قبائلیوں نے حملہ کر دیا۔
قبائلیوں کے حملے کے ساتھ ہی تعصب کے دواں دار انگارے شعلہ بن گئے۔ مہاراجہ کی مدد کی اپیل کی وجہ سے دہلی میں حملے کے تیسرے دن بھارتی سروس کے سربراہوں کو حکم دیا گیا کہ کشمیر میں فوج بھیجنے کے منصوبے تیار کریں اور اس دوپہر عملے کے تین افسران ہوائی جہاز کے ذریعہ سرینگر گئے۔ اگلی صبح جب قبائلیوں نے سرینگر سے 35میل دور بارہمولہ پر قبضہ کیا تو مہاراجہ نے فیصلہ کیا کہ اسے کوئی اور بکواس نہیں کرنا ہے۔ لیکن یہ فرنٹ تک نہیں گیا تھا۔ اس نے پیک اپ کیا اور اپنے دارلحکومت سے راہ فرار اختیار کر لیا۔ شام کے وقت 200 میل دور محفوظ طور پر اپنے ساتھ جموں پہنچنے پر وہ ابھی تک اس قدر لرز اٹھے اور مایوسی کا شکار تھے کہ سونے سے پہلے اس نے اپنے اے ڈی سی کو ہدایت دی کہ اگر صبح کے وقت مسٹر وی پی مینن بھارت سے مدد لے کر واپس نہیں آئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سب کچھ کھو گیا ہے اور اس صورت میں اے ڈی سی کو اسے مہاراجہ کو نیند میں گولی مارنا تھا !
تاہم مہاراجہ کو گولی مارنا مقدر میں نہیں تھا کیونکہ اس وقت بھارت میں ایک سو طیارہ اگلے ہی دن کشمیر پر اپنی فوجیں اڑانے کےلئے تیار ہو رہا تھا۔ اس دوران پورے برصغیر میں جوش و خروش پھیل گیا۔ یہاں تک کہ یہاں سے دور حیدر آباد میں ایک اور شاہی ریاست جو ابھی تک بھارت سے ملحق نہیں تھی ، اسی رات تین بجے تقریباً بیس سے تیس ہزار مسلمانوں کے ہجوم نے اس وفد کے گھر کو گھیر لیا، جو ریاست کے الحاق کے سلسلے میں دہلی روانہ ہونے والے تھے۔ پاکستان میں ساری توجہ قبائلیوں کی شاندار پیش قدمی پر مبنی تھی اور ابھی تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ مہاراجہ نے واقعی ضروری دستاویزات پر دستخط کر دینے تھے اور آخر کار بھارت سے ملحق ہو گیا۔
بھارتی مداخلت
27اکتوبر کی صبح پورے پاکستان میں لوگ کشمیر کے الحاق اور بھارت کی فوجی مداخلت کی خبر سن رہے تھے ۔یہ افسوس ناک خبر تھی کیونکہ اس سے بھارت پاک تعلقات مزید خراب ہونے کا خطرہ تھا۔ اس کا مطلب زیادہ پریشانی تھی اور پہلے ہی کافی پریشانی ہو چکی تھی۔ لاکھوں مہاجرین کو ہجرت میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ہمارے فوجی اسٹورز کو بھارت نے روک رکھا تھا اور ریاست جو ناگڑھ پر اس کے پاکستان سے الحاق کے بعد بھارت نے قبضہ کر لیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے امید ظاہر کی تھی کہ اس میں مزید کچھ نہیں ہوگا۔ اور یہ کہ بھارت میں کم از کم کشمیر کے بارے میں اچھی سوچ غالب آجائے گی اور یہ کہ اس بغاوت سے ریاست کے مستقبل کے منصفانہ تصفیہ کی فوری ضرورت کا ادراک ہوگا۔
ظاہر ہے کہ کشمیری عوام کسی نام نہاد حکمران کے محض ایک کاغذ پر دستخط کرنے سے اپنے حقوق کسی کے حوالے نہیں کر سکے جس کے خلاف وہ پہلے ہی بغاوت میں اٹھ چکے تھے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ پاکستانی عوام اس معاملے پر اپنے جذبات اور اپنے کشمیری بھائیوں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو ترک نہیں کر سکتے ہیں۔ لہٰذا بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ بھارت کا کشمیر میں داخلہ ہمیں جنگ کے دہانے پر لے جا رہا ہے ۔اس دن صبح تڑکے بھارت نے ہوائی جہاز کے ذریعہ 330فوجیوں کی پہلی کھپ کو سرینگر روانہ کیا تھا۔ اس وقت قبائلی بارہمولہ میں تھے اور ابھی تک آگے نہیں بڑھے تھے۔ دن کے بقیہ حصوں کے دوران جب سرینگر میں ہر گھنٹے مزید بھارتی فوج پہنچ رہی تھی ، قبائلی لشکر شاید نئی صورتحال سے بے خبر تھے۔ بارہمولہ میںغیر فعال رہے۔

دوسری جگہوں پر یہ خبر تیزی سے پھیل رہی تھی، ناراضگی میں اضافہ ہوا اور مزاحمت کے عزم کو تقویت ملی۔ شام تک آزاد کشمیر کی پہلی عبوری حکومت معرض وجود میں آئی، سردار ابراہیم ،صدر بنے، اسی لمحے سے کشمیر علامتی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور نئی حکومت کو فوراً ہی اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑا کہ اب سے لڑائی با قاعدہ بھارتی فوج کے خلاف لڑنا پڑے گی اور اس وجہ سے ایک لمبی لڑائی ہوگی۔
پاکستان میں اسی شام وزیر اعظم نے کشمیر کے الحاق اور بھارت کی فوجی مداخلت سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کرنے کےلئے لاہور میں غیر سرکاری کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں کرنل اسکندر مرزا اس وقت کے سیکریٹری دفاع، بعد میں گورنر جنرل بنے، چودھری محمد علی اس وقت کے سیکریٹری جنرل، بعد میں وزیر اعظم بنے، عبدالقیوم خان، سرحدی صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اور نواب ممدوت، وزیر اعلیٰ پنجاب بھی موجود تھے۔ مجھے اور بریگیڈیئر شیر خان کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
اس کانفرنس میں’ میں‘ نے تجویز پیش کی کہ جموں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ اس سڑک کو روکا جا سکے جس سے بھارت وادی اور باقی کشمیر میں کمک بھیج سکتا ہے۔ میں نے یہ تجویز نہیں پیش کی تھی کہ فوج کو اس مقصد کےلئے استعمال کیا جائے یا حکومت کو اس میں شامل ہونا چاہئے۔ میں نے صرف یہ مشورہ دیا کہ قبائلیوں کو کوشش کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ میں نے سوچا کہ ایک ایک ہزار کے تین لشکر استعمال کئے جائیں۔ قبائلی دستیاب تھے اور میں نے ان کے ساتھ جانے کی پیش کش کی۔
بھارتی فوجی مداخلت کے ساتھ جموں یکا یک سب سے بڑی اہمیت کا مرکزی نقط بن گیا تھا۔ ریاست کے اندر جانے کے لئے بھارت کے پاس کوئی اور زمینی راستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ جموں سے گزرے زمین کے ذریعہ آنے والی تمام کمک وہاں مرتکز ہوتی۔ وہاں سے وہ شمال میں وادی میں چلے جاتے اور اس طرح اس علاقے میں کارروائیوں کو طویل دیتے ۔ وہاں سے بھی وہ نوشہرہ جانے والی راہ کے ساتھ مغرب میں چلے جاتے اور اس کے نتیجے میں راجوری اور پونچھ وغیرہ کے وسطی علاقوں میں آزادی کی پیش رفت کو شدید خطرہ لاحق ہوتا جہاں اس وقت آزاد پسند قوتیں عملی طور پر اس صورتحال کی مالک تھیں۔ مزید برآں اگر بھارت پاک کے مابین تعلقات خطرناک موڑ لیتے ہیں تو سیالکوٹ کے دائیں طرف جموں کا اڈہ ہماری ا پنی سلامتی کےلئے سنگین خطرہ بن جائےگا۔ میرے خیال میں جموں کو روکنا ایسا ہے جیسے کیچڑ میں برائی دبانا، جبکہ اسے کھلا چھوڑنا آزادانہ کارروائیوں کو خالی کرنے کی طرح ہے۔ ایک کپ ایک ٹینک کے ساتھ جس میں ایک بہتی ہوئی ندی جاری ہے۔ اگر چہ قبائلیوں کے جموں پر قبضہ کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن ان کے اس عمل سے مہاراجہ اتنا خوفزدہ ہو گا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے جیسے وہ سرینگر سے بھاگ گیا تھا۔ کسی بھی صورت میں اس کے ساتھ یا اس کے بغیر، دوسرے لوگوں کی ایک بڑی تعداد یقینی طور پر سرحد سے حفاظت کےلئے دوڑ پڑیں گے اور ایسا کرتے ہوئے وہ راستے کو تھوڑی دیر کےلئے روک دیں گے یا کم از کم ایک بار جموں کے مغرب میں پہاڑیوں میں قبائلی ایک وقت کے لئے وسطی علاقوں کی طرف فوج کے نقل و حرکت کو روک دیں گے۔
تاہم اس تجویز کی عبدالقیوم خان اور نواب ممدوت کو چھوڑ کر باقی سب نے مخالفت کی اور اسے ترک کرنا پڑا۔ ایسا محسوس کیا گیا کہ اس سے بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کےلئے اکسایا جائے گا ارو اس طرح کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا۔
یقیناً کوئی بھی بھارت پاک جنگ نہیں چاہتا تھا لیکن اس وجوہ کی حمایت میں بہت ساری وجوہات موجود تھیں کہ بھارت اس طرح کی جنگ شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، پہلے ہی قبائلی ریاست میں 80میل دور داخل ہو چکے تھے۔ وہ پلے ہی پاکستان کی حدود سے گزر چکے تھے۔ پہلے ہی بھارت کا خیال تھا اگرچہ غلطہ طور پر ہی سہی کہ قبائلیوں نے میر پور، پونچھ، کوٹلی، جھنگر، نوشہرہ اور بھمبر کا بھی محاصرہ کر لیا تھا اور اسی وجہ سے بھارت کے پاس پہلے ہی پاکستان تک جنگ بڑھانے کےلئے کافی عذر تھا۔ اس نے یہ نہیں کیا تھا صرف اور حقیقت کی وجہ سے کہ وہ فوجی طور پر اتنا مضبوط نہیں تھا کہ وہ اس طرح کا خطرہ مول لے سکے۔ اس کی فوج کی تنظیم نو ہو رہی تھی۔ اسے ملک کے اندر کافی تشویش لاحق تھی اور وہ خاص طور پر مشرقی پنجاب میں قبائلی سیلاب کو بھڑکانے کے بارے میں خوف زدہ تھا جہاں آبادی اس طرح کہ مبالغہ آمیز اطلاعات کی وجہ سے خوف و ہراس میں مبتلا تھی۔ اطلاعات کے مطابق بارہمولہ کے 14000 غیر مسلموں میں سے صرف 3000 زندہ بچے تھے۔
اس رات کانفرنس میں دوسری طرف کے احساسات زیادہ وزن کے تھے اس کے بعد کسی کویہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ صرف چند ہفتوں بعد اگر چہ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ قبائلی اسی جگہ سے جموں کے خلاف پورے چنگھاڑ کے ساتھ آپریٹ کریں گے اور اس سے جنگ نہیں ہوگی اور ایک بار پھر کچھ ہی مہینوں میں کئی ہزار پاکستانی فوجیں کشمیر میں بھارتیوں کے ساتھ ٹکراﺅ کریں گی اور اس کے بعد بھی پاک بھارت جنگ نہیں ہوگی۔

دلچسپ بات یہ ہے جیسا کہ ہمیں کچھ سال بعد معلوم ہوا کہ اسی رات قائد اعظم نے خود جموں پر بھی حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ا س حکم اور اس کی تقدیر کا ذکر کرتے ہوئے ایلن کیمپ بل نے مشن ودھ ماﺅنٹ بیٹن صفحہ 226 میں ذکر کیا ہے کہ یہ حکم جنرل گریسی تک پہنچا تھا جو جنرل میسوری کی عارضی طور پر عدم موجودگی میں چیف سیکریٹری کے ذریعہ قائم مقام کمانڈر ان چیف تھا۔ مغربی پاکستان کے گورنر اور اس کے بارے میں گریسی نے جواب دیا تھا کہ وہ سپریم کمانڈر (دہلی میں فیلڈ مارشل آوچن لیک) کی منظوری کے بغیر ایسی کوئی ہدایت جاری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایلن کیمپ بل کے الفاظ ممکنہ طور پر کسی حد تک گمراہ کن ہیں۔ غلباً جنرل گریسی نے قائد اعظم کو اپنی وجوہات بتانے کے بعد ان کے احکامات کو واپس لینے کےلئے راضی کر لیا تھا۔ مثلاً پاک فوج کی ابھی تنظیم نو کی جارہی تھی۔ یہ کہ ایک دیگر جنرل کے ماتحت غیر جانبدار باﺅنڈری فورس ابھی بھی پنجاب میں موجود ہے اور یہ کہ برطانوی حکومت شاید تمام برطانوی افسروں کو فوج سے دونوں ملکوں کے مابین جنگ کی صورت میں دستبردار کر دیتی۔
آج کا جو معاملہ ہے وہ نتیجہ ہے جموں تنہا رہ گیا تھا۔ لیکن اگر چہ ہم نے جموں کو تنہا چھوڑ دیا تھا لیکن اس نے ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا تھا کیونکہ آنے والے دنوں میں بھارتی فوج کو شمال اور مغرب کی طرف سے بغیر کسی مداخلت کے اس کھلے دروازے سے گزرنا تھا۔ اس وقت تک جموں کے ساتھ دم مداخلت نے بھارت کو سرینگر پر اپنی توجہ مرکوزکرنے کی اجازت دی جہاں وہ اپنے طیارے کے ذریعے زیادہ سے زیادہ تعداد میں فوج بھیج سکتا تھا۔
چونکہ یہ استدلال کیا جا رہا ہے کہ جموں پر حملہ ایک خالص جوا ہوگا ۔ جوا جو خود پاکستان کے وجود کے ساتھ اس کے ساتھ میں راضی نہیں ہو سکتا ہوں۔ یہ یقینی طور پر ایک خطرہ تھا۔ لیکن یہ محدود خطرہ تھا۔ جو انہیں تھا ، ایک فوجی جوا کا مطلب ہے یا تو پوری طرح جیتنا یا ہارنا۔ اگر آپ جیت جاتے ہیں تو شاید آپ اس سے کہیں زیادہ جیت لیں گے جس کی آپ کو توقع کرنے کا حق تھا لیکن اگر آپ ہار جاتے ہیں تو آپ اتنا مکمل طور پر ہار جاتے ہیں ک آپ ختم ہو گئے ہیں۔ اسے خالص جوا کا جا سکتا ہے اور فوجیوں کے ذریعہ یہ کام کبھی نہیں اٹھایا جانا چاہئے جب تک کہ صورتحال اتنی مایوس کن نہ ہو کہ کسی بھی جوئے کے درمیان ہوتا ہے ۔ دوسری طرف ایک محدود خطرہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہے تو سب کچھ بالکل ختم نہیں ہوتا ہے اور وہ شخص دوسرے دن لڑ سکتا ہے یہ محدود خطرہ ہے جس کے ذریعہ عظیم کمانڈروں نے مضبوط دشمنوں پر قابو پا لیا ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو یہ دیکھنا آسان ہے کہ جموں پر حملہ کرنا کوئی جوا نہیں ہے۔ اگر ہم اس پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گئے تو بھی بہت سارے فوائد حاصل کرنے باقی تھے۔ حملے کی حقیقت اور اس کے اعادہ کے امکان کا خطرہ کی وجہ سے جموں میں بڑی فوجیں بندھ سکتی ہیں۔ اس طرح انہیں وادی سرینگر میں شمال منتقل ہونے اور مغرب سے نوشہرہ جانے سے روکا جا سکتا تھا۔ اس کے بعد یہ ہمیں زیادہ درد سر سے بچاتا۔ دوسری طرف اگر یہ حملہ پاک بھارت جنگ کا باعث بنتا تو پاکستان کے سراسر نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بہر حال بھارتی فوج ہماری طاقت سے صرف دگنی تھی اور تاریخ اس سے کہیں زیادہ بڑی مشکلات سے کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرنے والے لوگوں کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ کسی بھی صورت میں پوری بھارتی فوج ہمارے خلاف نہیں آسکتی تھی۔ کیونکہ ریاست حیدر آباد میں بھی اس کی ممکنہ طور پر دشمن فوج موجود تھی جس سے انہیں پریشانی تھی۔ اگر وہ مشرقی پاکستان کے لئے جاتے تو انہیں نہ صرف کشمیر سے ہاتھ دھونا پڑتا بلک مشرقی پنجاب بھی بے نقاب ہو جاتا جس کا انہیں خوف تھا کہ ہم 200000مسلح قبائلیوں کےلئے سیلاب کے دروازے کھول دیں گے اور یہ ایک مفلوج طریقہ تھا۔ مزید یہ کہ جونا گڑھ کے قانونی طور پر پاکستان سے الحاق کے بعد بھارت پہلے ہی اس پر چڑھائی کر چکا تھا اور اسی لئے کشمیر میں بھی ہماری طرف سے اسی طرح کی کاروائی امریکہ یا دنیا کو بھارت کی طرف لانے والی نہیں تھی۔ چنانچہ ان حالات میں یہ کہنا کہ جموں پر حملہ ایک جوا ہوتا یہ ایسی بحث ہے جسے سرد استدلال کے ذریعہ جائز قرار نہیں دیا جاتا ہے۔
کشمیر میں اپنی کوششوں کو مربوط اور ہدایت دینے کےلئے لبریشن کمیٹی کے قیام کے بارے میں میری تجویز کو قبول کر لیا گیا اور یہ کانفرنس رات ۲ بجے ختم ہوئی۔ مجھ سے اگلی صبح دوبارہ وزیر اعظم سے ملنے کو کہا گیا۔
صبح مجھے اطلاع ملی کہ مجھے لبریشن کمیٹی کا فوجی رکن بننا ہے۔ اس کام میں شریک ہونے کے لئے مجھے جی ایچ کیو کے اپنے فرائض سے بر طرف کر دیا گیا اور مجھے وزیر اعظم کا فوجی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ مجھے پنڈی میں بھی رہنا تھا اور کشمیر کے متعلق میرا کام برطانوی افسران اور جی ایچ کیو سے خفیہ رکھنا تھا۔ فوج کے افسران یا دیگر افسران کو اب بھی اس لڑائی میں حصہ نہیں لینا تھا۔
لبریشن کمیٹی کے دیگر ممبران میں سردار ابراہیم، خواجہ رحیم، فائنانس آفیر (مسٹر غلام محمد ) اور پولٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے میجر یوسف بھی شامل تھے جنہیں قبائلیوں کے ساتھ معاملات طے کرنے تھے۔

ہمارے فوجی مقصد کی وضاحت طلب کرنے پر وزیر اعظم نے کہا کہ وہ صرف تین مہینوں تک لڑائی جاری رکھنا چاہتے ہیں جو بات چیت اور دوسرے ذرائع سے ہمارے سیاسی مقصد کو حاصل کرنے میں کافی وقت ہوگا۔
میرے ذہن کے پچھلے حصے میں اصل پریشانی گولہ بارود کا سوال تھا۔ جونہی ہم جموں کو کھلا چھوڑتے، بھارتی فوج جلد ہی وہاں پر ایک اڈہ بنائے گی جس میں با قاعدہ ڈمپ سپلائی ہوگی اور اسی طرح آگے بڑھے گی۔ ہمارے جوانوں کو تب سے با قاعدہ ان فوجیوں کے خلاف لڑنا ہوگا جنہیں بہت زیادہ فراہمی میسر ہے۔ بریگیڈ ریزرو میں 100 اور ڈویژنل ریزرو میں ہر وقت مزید 100 کے ساتھ فوجی فی آدمی 100 راﺅنڈ لے کر جاتا ۔ ان سب کے پیچھے بھارت کی گولہ بارود تیار کرنے والی فیکٹریاں ہوں گی۔
اگر اس کے خلاف ہم قبائلیوں سمیت دس ہزار جوانوں کو بر قرار رکھتے اور اگر ان کو پورے ایک مہینے میں صرف 100 راﺅنڈ تک محدود کر دیا جاتا تب بھی ہمیں تین مہینوں میں 3000000راﺅنڈ کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت ہمارے پاس پنڈی میں جمع وئے دس لاکھ راﺅنڈ کا پانچواں حصہ تھا اور اس نصف حصے میں اب قبائلیوں نے مطالبہ کر دیا تھا جو اب سرینگر کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔اس دن سہ پہر 28تاریخ کو میں پنڈی واپس چلا گیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ قبائلیوں کو ہر وقت اپنا گولہ بارود مل گیا۔
سرینگر کی طرف
اگلی صبح 9اکتوبر کو میں اور پریس نمائندہ علی اختر مرزا صورتحال معلوم کرنے کےلئے سرینگر کے لئے روانہ ہوئے۔ ہم نے غروب آفتاب سے کچھ قبل کوہالا کے مقام پر کشمیر کی سرحد عبور کی۔ پہلے تو ہمیں بھی داخلے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ دن میں سڑک پر گاڑیوں کی اجازت نہیں تھی، وجہ یہ تھی کہ بھارتی طیارے جائے وقوع پر موجود تھے۔ اس وقت لوگ ہلچل مچا رہے تھے۔ اس کے باوجود ابھی تک زیادہ سرگرمی نہیں ہوئی تھی۔ 20میل تک ہم اپنی بائیں طرف دریائے جہلم سے ہو کر خاموشی سے چلتے رہے۔ ہمارے دائیں طرف صرف تیز پھیلتی درخت سے ڈھکی پہاڑیوں کے اندھیرے تھے۔ سڑک پر کوئی نظر نہیں آرہا تھا اور دور دراز گاﺅں کی جھونپڑیوں میں نہ روشنی تھی اور نہ ہی آواز۔ جنگ کا کوئی نشان نہیں تھا اور پھر مظفر آباد میں اچانک وہ منظر بدل گیا۔ جیسے پردے اٹھا دیئے گئے ہوں۔ قبائلی سرینگر جا رہے تھے۔ ہمارے سامنے کا منظر پرانی تاریخ کے صفحے کی طرح تھا۔ یاداشت بہت ساری صدیاں پیچھے چلی گئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایسا ہی ہوا ہوگا جب ہمارے باپ دادا فرنٹیئر کے پہاڑی راستوں سے داخل ہوئے ہوں گے یہاں پھر نا ہموار پہاڑیاں تھیں۔ اور یہاں ان ہی آدمیوں کی اولاد تھی جو شاید بہت زیادہ ایک جیسے نظر آرہی تھی۔ وہی ایک ہی لباس پہنے ہوئے اور اسی انداز میں نا معلوم کی طرف ڈوب رہی تھی۔ تبھی تو شاید پیدل اور گھوڑے پر سوار قافلے میں تھا۔ حالانکہ اب یہ ایک قافلہ تھا لیکن یہ قافلہ بھی نہیں تھا کیونکہ کسی نے اس کو منظم نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی حاکم تھا۔ بس اتنا ہی تھا کہ بہت سارے لوگ کشمیر بارڈر کے اندر مظفر آباد میں جمع ہو گئے تھے کیونکہ ریاست کے دارلحکومت سرینگر جہاں انہیں جانا تھا کی یہی واحد سڑک تھی۔
کشمیر کے بھارت سے الحاق کو دو دن ہو چکے تھے۔ چھ دن پہلے ہی سرحدی قبائلیوں نے کشمیر میں اس مقام پر حملہ شروع کر دیا تھا۔ حملے کے چوتھے دن 26 تاریخ کو ریاست کا حکمران مہاراجہ دارلحکومت سے فرار ہو گیا تھا۔ اگلے دن بھارت نے مداخلت کی تھی اور اس کی فوج ہوائی جہاز کے ذریعہ سرینگر پہنچنا شروع ہو گئی۔ اب مزید پٹھان آزادی کی جدو جہد میں مدد دینے جا رہے تھے۔ لاریاں بالکل بھری ہوئی تھیں، جس میں چالیس پچاس اور کچھ میں ستر کے لگ بھگ تھے۔ مردوں کو اندر بھر دیا گیا تھا۔ کچھ چھتوں پر پڑے ہوئے تھے ۔ کچھ انجنوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ مڈگارڈس پر لٹکے ہوئے تھے۔ وہ بھوری داڑھی سے لے کر نو عمروں تک،ہر عمر کے مرد تھے۔ کچھ اچھے لباس پہنے ہوئے تھے۔ بہت سے لوگوں کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور کچھ تو بغیر جوتے کے بھی تھے۔ لیکن وہ دیکھنے میں اچھے تھے۔ خوبصورت اور تعجب خیز۔ ان کے ہتھیار مختلف قسم کے تھے۔ برطانوی ، فرانسیسی، جرمنی اور فرنٹیئر میڈ رائفلیں تھیں۔ لمبی اور مختصر بیرل پستول اور حتیٰ کہ شاٹ گنیں بھی تھیں۔ کچھ کے پاس آگ کے ہتھیار بالکل بھی نہیں تھے وہ انہیں دشمن سے لینے جا رہے تھے۔ فی الحال ان کے پاس صرف خنجر تھے۔ ان کی نقل و حمل اتنی ہی متفاوت تھی ۔ جس میں سڑک کے قابل بسوں سے لے کر چار پہیوں پر ریگنے والی کوئی بھی چیز ایک قدیم کار تھی جس کی چھت نہیں تھی۔ روشنی نہیں تھی، مشکوک بریک ایک بینر اور آٹھ یا نو آدمی لے کر جا رہا تھا۔یہی سوات فوج کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ نقل و حرکت بہت سست تھی۔ زیادہ بوجھ والے پرانے انجن سخت محنت کر رہے تھے۔ منزل تک پہنچنے میں انہیں کافی وقت لگتا۔ کچھ تو پہنچ بھی نہیں پاتے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہ لڑنے آئے تھے ،ان کے خون میں صدیوں کے حملوں اور جرات کی یاد آتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ ہی گئے وہ بہت حوصلہ مند تھے شور شرابے اور چیخ چنگھاڑ کے اوپر جنگ گانوں کی آواز اور کبھی کبھار ڈھول کی دھڑکن سنائی دیتی۔ ہوا میں جوش و خروش تھا۔ آگے وقار و عزت تھی۔

تاہم ہم ان کی رفتار سے چلنے کے متحمل نہیں ہو سکے۔ ہمیں آگے بڑھنا پڑا اور اسی طرح کچھ مشکلات کے بعد ہم قافلے سے گزرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر ہمارے پاس کھلی سڑک تھی۔ مظفر آباد سے 50میل دور اوڑی میں ہمیں پل مل گیا۔ کچھ دنوں قبل مظفر آباد پر حملے کے بعد قبائلیوں کے ہاتھوں پیچھے ہٹ جانے والی ریاستی فوجیوں نے اسے تباہ کیا تھا۔ تاہم مقامی لوگوں کی بڑی تعداد میں باہر نکلے، رات بھر جوشیلے انداز میں کام کرکے پہاڑی کی طرف ایک میل لمبا راستہ تعمیر کر دیا تھا تاکہ قبائلی باشندے گزرے اور اپنی کھوج کو حاصل کریں۔
ٹیڑھی میڑھی سڑک پر مزید 30میل سفر کرنا تھا اور اب مظفر آباد سے 80میل دور تھے، ہم پہاروں کے آخر میں تھے ۔ وادی کشمیر کے دروازہ بارہمولہ پر تھے۔ یہ باغات، اسکول، سڑک اور ندی نقل و حمل کے اسٹیشنوں، دکانوں اور ریستوران کا ایک قصبہ ہوا کرتا تھا۔ مختصر طور پر ایک روشن اور خوشگوار نظر آنے والی جگہ لیکن اب ایسا لگتا تھا جیسے کسی زلزلے سے وہ لرز اٹھا ہو۔ دکانیں خالی تھیں، دروازے اور کھڑکیاں اکھڑ چکی تھیں، اینٹ، پتھر اور کاغذ زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔ پہلے پسپائی اختیار کرنے والی ریاستی فوجیوں نے سڑک کو روکنے کےلئے عمارت کو اڑا دیا۔ پھر حملہ آور قبائلی طوفان کی طرح بہہ گئے اور آخر کار بھارتی فضائیہ نے بموں اور راکٹوں سے پیچھا کیا۔ ادھر ادھر آگ اب بھی لگی ہوئی تھی ۔ ہم نے دیکھنا چھوڑ دیا اور معلوم ہوا کہ مرکزی گلی سے دور شہر کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا اور بہت سارے مقامی لوگ اب بھی وہاں موجود ہیں۔
قبائلی 26تاریخ کو یہاں پہنچ گئے تھے، اس وقت تک کشمیربھارت سے ملحق نہیں ہوا تھا اور بھارتی فوجی دستے نہیں گئے تھے۔ ریاستی فوج مکمل طور پر مایوسی کا شکار تھی۔ اس نے عدم استحکام میں پسپائی اختیار کر لی تھی۔ صرف 35میل کا فاصلہ طے شدہ سڑک کا رہ گیا ہے اور عملی طور پر کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ قبائلیوں کے پاس مشکل سے دو گھنٹے کا سفر باقی تھا اور ان کے آگے سرینگر تھا ، لرزہ بر اندام، بظاہر ان کے رحم و کرم کی بھیک مانگ رہا تھا۔ لیکن قبائلی اس دن اور نہ ہی اگلے دن آگے بڑھے۔ بالآخر وہ 28 تاریخ کو آگے بڑھے تو ان کا مقابلہ بھارتی فوجیوں سے ہوا جو پچھلے دن ہی ایک سو طیارہ لے آیا تھا۔ اگر چہ انہوں نے بارہمولہ سے 10میل دور کامیابی کے ساتھ قابو پا لیا تھا لیکن ایسا کرنے میں پورا ایک دن ضائع ہو گیا تھا۔ چنانچہ 29 تاریخ کی شام تک قبائلی خود سرینگر کی طرف نہیں بڑھے اور اب وہ ہم سے کچھ ہی گھنٹے آگے تھے۔
لیکن بارہمولہ میں دو اہم دن کیوں ضائع ہوئے تھے؟ زیادہ احتمال اس بات کا ہے کہ اگر یہ دو دن نہ ضائع ہوتے تو کشمیر کی کہانی بالکل مختلف ہوتی۔ اس کا کوئی مستند جواب نہیں مل سکا ۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ قبائلی خود تا خیر کے خواہاں تھے، اپنے زخمیوں کو واپس بھیجنے میں اتنا وقت نہیں لگ سکتا تھا۔ زیادہ جوانوں کا انتظار کرنا ہی شاید اس کا سبب بنا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رفتار زیادہ قیمتی ہوگی اور خود بارہمولہ بھی ان کے لئے اتنی توجہ کا مرکز نہیں تھا جبکہ سب سے بڑا انعام سرینگر بالکل قریب تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ اچھی وجوہات ریہ ہوں، کوئی کہہ نہیں سکتا یا ایسا ہو سکتا ےہ جو بات بارہمولہ کے مقامی لوگوں نے کہی تھی۔ خورشید انور جو کمانڈ میں تھے، نے کشمیری رہنماﺅں کو بلا وا بھیج کر انتظار کیا تھا تاک انہیں معلوم ہو کہ مستقبل کی کشمیر حکومت میں ان کی حیثیت کیا ہوگی، وجہ جو بھی ہو، اتنا معلوم کرنے کا کوئی وقت نہیں تھا کیونکہ آدھی رات بیت چکی تھی اور محاذ پر ابھی تک پہنچنا باقی تھا ۔ بارہمولہ سے باہر سڑک پر کوئی ٹریفک نہیں تھا۔ کبھی کبھار سنسان دیہاتوں میں مردوں کو چوری چپکے آتے جاتے دیکھا جا سکتا تھا۔ زیادہ تر مقامی تھے جو لوٹ کا مال جمع کر رہے تھے۔ لیکن ابھی تک کسی لرائی جھگڑے کا کوئی نشان نہیں تھا، نہ ہی اس بات کا کوئی اشارہ کہ محاذ کہاں تھا اور کوئی ہمیں اطلاع دینے والا بھی نہیں تھا۔ ہم صرف اتنا جانتے تھے کہ لڑائی کہیں اوپر پہاڑیوں میں ہو سکتی ہے اور سڑک دشمنوں کے ہاتھ میں معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ لہٰذ ا اب ہمیں بغیر لائٹس کے سست رفتاری سے چلنا پڑا۔ ۰۱ میل کے لگ بھگ ہو چکے تھے اور کچھ قبائلی آگ کے گرد سو رہے تھے۔ مزید ۵ میل کی دوری طے کی اور کچھ سیاہ اجساد سڑک کے کنارے دیکھے جا سکتے تھے۔ آدھا گھنٹہ مزید بیت گیا لیکن سرینگر کی لائٹس ابھی بھی دور تھی۔ پھر آخر میں فائرنگ کی آواز آئی۔ ہم اب محاذ کے قریب تھے۔ جلد ہی کچھ زخمی لوگوں کے پاس سے گزرے جنہیں واپس لایا جا رہا تھا۔ آدھا میل مزید چلنے پر دیکھا کہ گولے سڑک پر اتر رے تھے۔ لیکن فائرنگ دم توڑ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی بھی ایک حملہ ہوا تھا۔ یہ بالکل چوتھے سنگ میل پر تھا اور سرینگر مضافات کے کنارے پر تھا۔

چوتھے سنگ میل پر دشمن نے روڑ بلاک لگایا تھا۔ اس چیک کے وجود کو دریافت کرنے پر قبائلیوں نے اپنے ابتدائی نقطہ نظر میں سڑک سے ہٹ کر صرف ٹوٹی ہوئی زمین کو احتیاط سے استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اندھیرے میں دشمن کی بے لگام شوٹنگ نے انہیں اب تک کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا اور وہ خاموشی سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ لیکن آخری چند سو گزمیں صورتحال بدل چکی تھی۔ قبائلیوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہوگا کہ سرینگر کے بیرونی علاقے میں اکثر پانی کی بارش، دلدل، جھیل، ندی اور کھیت رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جتنا قریب وہ دشمن کی چوکی پر پہنچے، اس پانی کی وجہ سے وہ خود کو اتنا ہی زیادہ سڑک پر جمع پایا۔ حتمی طور پر ایسا لگا کہ اس پوسٹ سے نمٹنے کا واحد راستہ سیدھی تنگ سڑک کے نیچے جانا تھا اور بظاہر یہی کام انہوں نے کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ مسعود اور وزیر جیسے تجربہ کار قبائلیوں نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا ہوگا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اس مخصوص گروہ زیادہ تر مہمندذ کو ضروری تجربہ نہ تھا، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی حالیہ کامیابیوں نے انہیں زیادہ پر اعتماد بنا دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ احتیاط کے قائم کردہ اصولوں کو نظر انداز کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے سڑک پر حملہ کر دیا اور دشمن کی فائر رائفل، برنز، مشین گن اور مارٹر کے مکمل دھماکے ہوئے۔ نتیجہ میں حملہ ناکام ہو گیا تھا اور اب جب رات قریب ختم ہو چکی تھی تو حال کے لئے مزید کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم ابھی اس عمل کا خاتمہ دیکھنے پہنچے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ دھچکے کی وجہ سے کوئی خاص تشویش نہیں ہوئی۔ اسے محض ایک واقعہ کے طور پر لیا گیا۔ احساس یہ تھا کہ سرینگر جانے کا راستہ ضرور مل جائے گا۔ اس کے بعد کسی نے بھی اندازہ نہیں کیا تھا کہ یہ لمحہ اور یہ مقام تاریخی طور پر جدو جہد کے عروج پر فائز رہے گا۔ کیونکہ ہم کبھی بھی کسی ایسی چیز کے سامنے نہیں آئیں گے جس میں فیصلہ کن ہونے کا امکان ہے۔
رات کے 4بج چکے تھے اور ہم پناہ کی تلاش میں تھے۔ کچھ فاصلے پر چنار کے درختوں کا ایک جھنڈا ڈھونڈا، ہم اس کے نیچے گئے اور آرام کرنے کےلئے پڑ گئے۔ لیکن سونے کے لئے زیادہ وقت بچا نہیں تھا۔ جلد ہی سویرا ہو گیا۔ افق پر فطرت کی خوبصورتی کی متاثر کن تصویر کی نقاب کشائی ہوئی۔ یہ سرد، کرکرا اور صاف تھا۔ فاصلے پر برف کی چوٹیاں چمک گئیں، پرندے درختوں کے درمیان گھل مل گئے۔ جنگلی بطخ اور ہنس کی پروازیں قطار در قطار گزرنے لگیں، سورج کی کرنوں کی وجہ سے ان کے رنگ برنگے پنکھ چمک رہے تھے۔ زمین ابھی تک دھند میں ڈھکی ہوئی تھی اور قریب ہی ندی میں پانی کے شور کے سوا سب خاموش تھا۔ جیسے سورج طلوع ہوا۔ اس نے بالکل نیلے رنگ کے آسمان کے نیچے بھورے کھیتوں اور سنہری چنار کو روشن کر دیا۔ یہ اتنا پر امن منظر تھا کہ اس پر یقین کرنا مشکل ہے کہ یہاں جنگ جاری ہے۔ کچھ گھنٹوں کے واقعات بظاہر کہیں اور کے لگے تھے۔
لیکن امن زیادہ دیر تک بر قرار نہ رہ سکا۔ ایک بھارتی جنگی طیارہ گر جتے ہوئے آیا۔ وہ اس علاقہ میں اڑ کر درختوں کی جھنڈ تک گیا اور ادھر ادھر بم پھینکنا اور مشین گن چلانا شروع کر دیا۔ اس طرح چلتا رہا اور پورے دن یکے بعد دیگرے طیارہ آتا گیا کسی نے ان پر واپس حملہ نہیں کیا۔ ان کے پاس آسمان کی مکمل آزادی حاصل تھی اور وہ آہستہ اڑتے رہے۔ کبھی کبھی وہ درخت کے اوپر سطح سے نیچے ہو جاتے ٹھنڈے پانی سے نہایا اور زبردست ناشتہ کیا اور شہر کی دفاعی کیفیت دیکھنے نکل پڑا۔ کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ چونک اس مقام پر دشمن کا جہاز آگیا تھا، لہٰذا تمام عمل تاریکی کے لمحوں میں کرنے پڑے۔ا ب کچھ افراد ہی حرکت کر رہے تھے۔ اس حرکت کی کوئی رکاوٹ تو نہ تھی سوائے ہوائی جہاز کے جن کو چکمہ دینا آسان تھا۔ کھلے میدان میں کوئی شخص ہوائی جہاز کو بہت پہلے دیکھ لیتا کہ وہ اس شخص کو دیکھے اور اس شخص کو نظر سے بچنے کےلئے صرف تھوڑا خاموش رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص نظر آبھی جائے تو تنہا بندے کو شکار کرنا مشکل کام ہے۔ اگر کسی کے مقدر میں حملہ کی وجہ سے ہلاک ہونا نہیں لکھا ہے تو پناہ گاہ ڈھونڈنے کےلئے اب بھی بہت وقت ہے۔ جدید طیارے صرف سامنے فائر کرنے کے اہل ہوتے ہیں او س طرح ایک پائلٹ جو فائر کرنا چاہتا ہے اسے بالکل سیدھے اور نیچے کی سمت میں اڑنا ہوتا ہے۔ ایسا کرنے کےلئے اس کو پہلے اتنی ونچائی اور فاصلہ حاصل کرنا ہوتا ہے اور اتنے وقت میں آدمی کو نظر نہ آنے کےلئے کافی وقت مل جاتا ہے۔
چنانچہ ہم کچھ گھنٹوں تک محفوظ طریقے سے چلنے کے قابل تھے۔ اور دور بین اور نقشہ کی مدد سے ہم اس بات کا آئیڈیا حاصل کر سکتے تھے کہ زمین کیسی ہے ۔ ہماری سمت سے سرینگر جانے کا راستہ پانی سے ڈھکا ہوا تھا۔ اگر چہ گرمی کی وجہ سے یہ پانی سکڑ گیا تھا، اب بھی اتنا پانی موجود تھا کہ مین سڑک یا کچھ راستے تک جانے سے روک سکے۔ دشمن پوسٹوں کی طرف سے ان پر حملہ کرنا ممکن تھا۔ جیسا کہ گزشتہ شب نے فائر کی مدد کے بنا ہی ان پر حملہ دیکھا تھا۔ جو کسی کام کا نہیں تھا۔ تاہم سرینگر کی پوری پوزیشن اب بھی کمزور دکھ رہی تھی ۔ ہمارے علم کے مطابق ریاستی فوجیوں کی ہمت جو اب دے گئی تھی اور آبادی ، غیر متحرک ہی سہی، ان کی دشمن تھی۔ اس مرحلہ میں بھارتی فوج میں بمشکل تین بٹالین تھیں جبک شہر کا بیرونی احاطہ بہت میل لمبا اور ناہموار تھا۔ اسی لئے پوسٹیں چند او ردور تھیں، بکھری ہوئی تھیں اور ایک دوسرے کی حمایت سے قاصر تھیں، چنانچہ اس دن حقیقت میں اب بھی کوئی حقیقی موثر دفاع نہیں تھا۔ شہر میں دہشت اب بھی بر قرار تھی، طیارے اور فوجیوں کے باوجود قبائلی اب بھی احاطہ کے ارد گرد گھوم پھر سکتے تھے اور زمین پر آزادانہ اور بلا تفکر لینڈ کر سکتے تھے۔

مجھے لگتا تھا کہ اگر قبائلی ایک مرتبہ شہر میں خفیہ طور پر داخل ہو گئے تو انہیں نکالنا نا ممکن ہوگا۔ خوف کے نتیجہ میں گلیاں اور راستے بند ہوں گے اور فوج کی جوابی کارروائی رک جائے گی۔ ریاستی فوجیوں نے پہلے ہی ہاتھ کھڑا کر لیا تھا اور بھارتی ہوائی اڈہ کے تحفظ کو لر کر زیادہ متفکر ہوں گے کیونکہ ان کے بھارت جانے کا یہی واحد راستہ ہے لیکن داخل ہوں تو کیسے؟
واحدممکنہ راستہ یہ سمجھ آیا کہ رات کے وقت پانی میں کشتی یا تیر کر پار کیا جائے اور اسی کے متعلق قبائلی اب غور کر رہے تھے۔ تاہم اس میں مقامی مدد درکار تھی اور چونکہ مقامی لوگ مضافات میں ہی غائب ہو گئے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ کشتی اور رہبر کو تلاش کرنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
کوئی کہہ نہیں سکتا ک کتنا وقت لگے گا۔ دریں اثنا ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ بھارتی فوج ہوائی جہاز سے آرہی تھی یہ بہت وعدہ کن منصوبہ نہیں تھا لیکن یہی تنہا منصوبہ تھا جس کو عارضی طور پر اپنایا جا سکتا تھا۔ اگر چہ صرف اسی پر ان میں بہت سے مواقع چھوٹ جاتے ۔ لہٰذا گزشتہ شب کے حملے کو دیکھتے ہوئے مجھے دو بارہ مین روڑ سے چلنے کا خیال آیا۔ دفاعی پوزیشن یہاں مضبوط نہیں تھی۔ یہاں پر کنکریٹ پلر، بنکر، گڈھے یا بھاری رکاوٹ جیسی کسی چیز کے وجود کا اشارہ کرنے والی کوئی بھی چیز تو نہیں تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے آگ سے ڈھکی ہوئی خار دار تاروں کی رکاوٹ ہو۔ غیر محفوظ مردوں اور لاریوں کو روکنے کےلئے یہ کافی اچھا تھا لیکن اس بات کا امکان تھا کہ یہ کسی بھی بھاری چیز کے سامنے نہ ٹک پائے۔ ہو سکتا تھا کہ ایک بکتر بند کار اسے توڑ دے۔ اس کا جواب ایسا ہی لگتا تھا، میں نے سوچا تھا کہ ایک جوڑا بکتر بند کار اس کام کو یقینی بنا سکتے ہیں اور وہ چوبیس گھنٹوں میں پاکستان سے یہاں پہنچ سکتے ہیں۔ لہٰذا کرنے کا کام یہ تھا کہ جلدی سے بکتر بند کاریں لائی جائیں۔ لہٰذا غروب آفتاب کے وقت، جب طیارہ غائب ہو گیا اور سڑک دو بارہ محفوظ ہو گئی ہم نے دو بارہ شروعات کی بارش، کیچڑ اور ٹریفک کی وجہ سے یہ سفر کافی سست رفتار رہا لیکن ایک خوشگوار خیال ساتھ تھا ۔ بکتر بند کاریں، بھارتیوں کے مضبوط ہونے سے پہلے ہی وہاں پہنچ جائیں گی۔ تاہم، بکتر بند کاروں کو لینے کےلئے کچھ اعتراضات کا جواب دینا ہوگا۔ یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ بھارت اس مداخلت کو پاکستان کی مداخلت قرار دے گا لیکن یہ مبنی بر حقیقت امر ہے؟ بھارت خود ہی مداخلت کر رہا ہے وہ ہمیں پہلے سے ہی حملہ آور کہہ رہا ہے اور اس نے ہم پر الزما عائد کر رکھا ہے کہ ہمیں قبائلیوں کو پاکستان کے 200 کے ارد گرد لانے والے ہیں۔ تو کیا ایک جوڑا بکتر بند کار اس الزام کو اور بھی سنگین بنا دیں گے ؟یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان عمومی جنگ کی ہلڑ بازی کرے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا۔ کوئی بھی سمت اسے برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ کشمیر میں ہم اٹل تھے، لیکن کوئی فریق اس تنازعہ کو بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ تین مہینے پرانی دونوں ملکوں کی حکومت ابھی تک پوری طرح سے اپنی کاٹھیوں میں آباد نہیں تھی۔ پرانی فوج ابھی پوری طرح سے تقسیم نہیں ہو سکی تھی۔ ایک برطانوی جرنیل کے تحت ایک غیر جانبدار باﺅنڈری فورس ابھی بھی موجود تھی اور ایک مشترکہ برطانوی سپریم کمانڈر تھا جو اب بھی اہمیت کی حامل تھا۔ لاکھوں پناہ گزین ابھی بھی دونوں ممالک کے مابین منتقلی کے عمل میں مصروف تھے۔ روزانہ واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ فوجیوں اور دونوں ملکوں کے خلاف کارروائیاں روز مرہ کی معمول کی خبر تھی، ایک اور واقعہ سے کیا فرق پڑے گا؟ زیادہ چیخنا، زیادہ شکایات، زیادہ کوسنا، بس اتنا ہی اس طرح بکتر بند کاروں کا معاملہ میرے لئے ایک امید کی کرن تھی۔ لیکن میں نے یہی سوچا تھا تقدیر کا دوسرا تھا۔
پنڈی واپسی پر میں جلدی سے کرنل مسعود سے ملا، جن کے پاس دو نہیں بلکہ بکتر بند کارواں کی اکائی کا پورا اسکونڈرن تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے آدمی سرکاری اجازت کے بغیر اپنے خطرے پر سادے کپڑے میں جائیں گے۔ اس موقعہ کی ضرورت کا یہ واقعہ اچھا جواب تھا۔ جب وہ لوگ تیار ہو رہے تھے۔ تبھی میں نے بریگیڈیئر شیر خان، لیفٹنٹ کرنل ارباب اور راجا غضنفر علی خان پنڈی کے آخری مرکزی حکومت کے منسٹر سے معلومات دریافت کیں۔ بریگیڈیئر شیر خان اور راجا غضنفر علی خان نے اس خیال کی مخالفت کی۔ ان کے خیال میں اسے سے یقیناً جنگ ہو جائے گی، حکومت کو یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ کسی بھی صورت میں اس کی کامیابی کے مواقع بہت تھوڑے ہیں اور مجھے یاد دہانی کرائی گئی کہ فرنٹ میرے حکم کے تابع نہیں تھا۔ لہٰذ ااس تجویز کو چھوڑنا پڑا۔ چنانچہ بکتر بند کار قبائلیوں کی مدد کے لئے نہیں گئی تھی اور قبائلیوں کو سرینگر میں داخل ہونے کےلئے کوئی دوسرا راستہ نہ مل سکا۔

 

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.