جنگلات کا تحفظ لازمی ۔۔۔۔

جنگلات کا تحفظ لازمی ۔۔۔۔

جموں وکشمیر میں جنگلاتی اراضی وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔ پیر پنچال کے آر پار کسی بھی ضلعے میں جائیں تو جنگلات کا وسیع علاقے دیکھنے کو مل رہا ہے ۔حتیٰ کہ گرمائی دارالحکومت سرینگر میں بھی جنگلات کے آثار نمایاں پر نظر آتے ہیں ۔ایک اندازے یا غیر مسنند اعداد وشمار کے مطابق جموں و کشمیر کا کل جنگلاتی رقبہ20230 مربع کلومیٹر (20?23 لاکھ ہیکٹر) جنگلات کا احاطہ ہے، جو لائن آف کنٹرول کے اس طرف 101387 مربع کلومیٹر کے کل جغرافیائی رقبے کا19?95 فیصد ہے۔اس سلسلے میں اعداد وشمار میں یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ جموں وکشمیر کے کل جنگلاتی رقبہ میں صوبہ کشمیر میں کل جغرافیائی رقبہ: 15948، جنگلاتی رقبہ 8128اور جغرافیائی علاقے کا کل 50.97فیصد ہے ۔اسی صوبہ جموں میں کل جغرافیائی رقبہ:26293، جنگلاتی رقبہ12066اور جغرافیائی علاقے کا کل45.89فیصد ہے ۔

خطہ لہیہ میں کل جغرافیائی رقبہ:45110، جنگلاتی رقبہ 29اور جغرافیائی علاقے کا کل0.06فیصد ہے ۔ کر گل میں کل جغرافیائی رقبہ:14036، جنگلاتی رقبہ 8128اور جغرافیائی علاقے کا کل 50.97فیصد ہے ۔بہرحال یہ کہہ سکتے ہیں کہ جموں وکشمیر کا وسیع علاقہ سرسبز شاداب جنگلات پر محیط ہے ۔لیکن افسوس کیساتھ یہ بھی کہنا پڑرہا ہے کہ اہلیان جموں وکشمیر نے اس قدرتی اور قومی سرمایہ کی قدر نہیں کی ۔انسانی ہاتھ نے ان جنگلات پر کلہاڑہ مار کر اس قدر صفایا کیا کہ اب جنگلات کہیں کہیں ہی نظر آتے ہیں ۔انسان نے جہاں جنگلات کا صفایا کیا ،وہیں جنگلات کو آلودہ کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔اب سر سبز جنگلات بھی کنکریٹ جنگلات میں نظر آتے ہیں ۔حکومت ہند نے جنگلات کے تحفظ سے متعلق نئے ضابطے 2022تشکیل دئے ہیں۔

جنگلات (تحفظ ) ایکٹ 1980 کے ضابطوں کے مطابق، جنگلات (تحفظ ) ایکٹ 1980 کے تحت مرکزی حکومت کی منظوری مرکزی حکومت کی پیشگی منظوری ہے، جو براہ راست غیر جنگلاتی استعمال یا جنگل کی زمین کو توڑنے کا باعث نہیں بنتی۔ جنگلاتی اراضی کو کسی اور کام کے لیے استعمال کرنے کی منظوری کا عمل متعلقہ ریاستی حکومت یامرکزکے زیرانتظام علاقہ کے ذریعہ حتمی ڈائیورڑن آرڈر جاری کرنے کے بعد ختم ہوتا ہے، جو جنگل کی اراضی کو مطلوبہ مقصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے اور زمین کو صارف ایجنسی کے حوالے کر دیتا ہے۔ضابطہ 9 کے ذیلی ضابطہ 6کی ذیلی شق بی ( (ii کے تحت جنگلات (تحفظ) ضوابط، 2022 کے پروویڑنس اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ” ریاستی حکومت یا مرکز کے زیرانتظام علاقہ کی انتظامیہ ، جیسا کہ معاملہ ہو، ایکٹ کے سیکشن2 کے تحت مرکزی حکومت کی ’حتمی‘ منظوری حاصل کرنے کے بعد ، اور اس کے تحت بنائے گئے دیگر تمام ایکٹ اورضابطوں کی تکمیل اور تعمیل کے بعد، جیسا کہ قابل اطلاق ہے بشمول درج فہرست قبائل اور دیگر روایتی جنگلات کے باشندوں (جنگل کے حقوق کی منظوری ) ایکٹ 2006(2007 کا نمبر2) کے تحت حقوق کے تصفیہ کو یقینی بنانا شامل ہے، ڈائیورڑن ، پٹہ پر دینے یا ڈی ریزرویشن کے لیے حکم جاری کرے گا، جیسا کہ کیس ہو“ اس کا مطلب ہے کہ جنگلات (تحفظ ) ضوابط، 2022 تمام ایکٹ اورضابطوں کے پرویڑنس کی تعمیل پر زور دیتے ہیں۔یہ معلومات ماحولیات، جنگلات اور آب وہوامیں تبدیلی کے وزیر مملکت اشونی کمار چوبے نے راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں فراہم کی تھیں ۔ الغرض یہ کہ قوانین اور جوابط موجود ہیں ،لیکن اس کے باوجود بھی جنگلات کا تحفظ یقینی نہیں بن رہا ہے ،جسکی کئی وجوہات ہیں ۔ان وجوہات کو تلاش کرنا جموں وکشمیر انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ۔تاہم انتظامیہ کے ایک رول کی سراہنا کی جانی چاہیے ،وہ یہ جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے کئی اضلاع میں ”ہائی ۔ٹیک نرسریاں “ قائم کی گئی ہیں ،جہاں پودے اُگائے جاتے ہیں اور پھر جنگلات کی کھلی اراضی میں شجر کاری کرکے ان پودوں کو اُگایا جاتا ہے ،تاکہ جنگلات کو اصل شکل میں دوبارہ واپس لایا جاسکے ۔اس کے علاوہ قدرتی آگ پر قابو پانے کے لئے بھی احتیاطی اقدامات کئے جارہے ہیں ۔

تاہم مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔جنگلات کو سمگلروں کے چنگل سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایکشن پلان مرتب کرنے کی ضرورت ہے جبکہ محکمہ جنگلات کے ملازمین اور فیلڈ عملے کو جدید آلات سے لیس کرنے کی ضرورت ہے ،علاوہ جنگلات میں قدرتی آگ پر قابو پانے کے لئے کصوصی فائر فائٹرس کی تعیناتی بھی لازمی ہے ۔عام لوگوں کو بھی جنگلات کے تحفظ میں اپنا کلیدی رول ادا کر نا ہوگا اور تعلیمی اداروں کی اس حوالے سے اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماحولیات کے تحفظ اور توازن کو برقرار رکھنے کے لئے بیداری مہم چلائیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.