جموں کشمیر بی جے پی یونٹ نے مرکزی حکومت کے نو سال مکمل ہونے پر جموں کشمیر کی ترقی اور تعمیر کے حوالے سے اپنا خاکہ پیش کرتے ہوئے میڈیا نمائندوں کے سامنے اپنی جماعت کی کارکردگی رکھی ۔یہ پہلا موقعہ ہے جب مقامی میڈیا نمائندوں کو خصوصی دعوت پر سرینگر کے تاریخی امر سنگھ کلب بُلایا گیا۔جہاں تک مقامی میڈیا کا تعلق ہے ،اس سے وابستہ نمائندوں،مدیراں اور دیگر لوگوں نے بھی باقی طبقوں کے ہمراہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران پاپڑ بیلے اور کئی صحافیوں نے ا س دوران سچ لکھتے لکھتے اپنی جانیں قربان کیں۔جموں کشمیر بی جے پی کے شوشل میڈیا انچارج ا بھیجیت جسروٹیانے اس پریس میٹنگ کا افتتاح کیا ۔جموں وکشمیروقف بورڈ کی چیر پرسن ڈاکر درخشان اندرابی ،پارٹی کے جنرل سیکریٹری(آرگنائزیشن) اشوک کول،پارٹی ترجمان سنیل سیٹھی کے علاوہ راجہ سبھا ممبر انجینئر غلام علی کھٹانہ اور یوتھ لیڈر بلال پرے ا س موقعے پر موجود تھے۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے صحافت جمہوریت کا چوتھا اہم ستونہے جس کی بدولت جمہوریت کی عمارت مضبوط رہتی ہے۔ایک آزاد قلمکار اور پیشہ ور صحافی ہی حکمرانوں کو زمینی سطح پر آئینہ دکھا تا ہے اور عام لوگوں کے مسائل اور مشکلات سرکاری ایوانوں تک پہنچا تا ہے ۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جموں کشمیر خاصکر وادی میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بے شمار حادثاتی لوگ نمودار ہو گئے، جو ہاتھوں میں مائیک اُٹھا کر انتظامیہ اور عوام کے سامنے خود کو صحافی پیش کرتے ہیں ۔بدقسمتی کا عالم یہ کہ ایسے لوگ نہ صرف عام لوگوں اور سرکاری افسران کو بلیک میل کرتے ہیں بلکہ سرکاری اہلکاروں اور سیاستدانوں سے اچھا خاصا پیسہ بھی بٹورتے ہیں۔بی جے پی کا جہاں تک تعلق ہے نریندرا مودی کی سربراہی میں اس سیاسی جماعت نے ملک میں نظام ِ زندگی تبدیل کیا۔غلط طریقوں سے دولت جمع کرنے والے لوگوں،رشوت خور افسروں،انسانی خون پر سیاست کرنے والوں کا نہ صرف قافیہ حیات تنگ کیا ہے بلکہ پورے ملک میںتعمیر و ترقی کا جال بچھایاہے۔
جموں کشمیر قومی شاہرہ کو کشادہ کیا گیا،ایشاءکا سب سے بڑا ریلوے پل تعمیر کیا گیا،نظام تعلیم میں بہتری لائی گئی،سرکاری ملازمین کو ڈیوٹی کا پابند بنایاگیا،مفت علاج کی اسکیم لاگو کی گئی،کسانوں کی بہتری اور بچوں کے کھیل کود کےلئے یاد گار اقدامات اُٹھائیں گئے ،لیکن ایک کمی جموں کشمیر میں نظر آرہی ہے کہ بی جے پی اور میڈیا کے تعلقات کا فقدان تھا۔بہر حال کل ہوئی صحافیوں اور بی جی پی لیڈان کی گفتگو سے یہ اخذ ہو اکہ ہے کہ آنے والے وقت میں یہ سلسلہ جاری رہے گااور ایسے لوگوں کو درکنار کیا جائے گا جو صحافت کے نام پر سماج میں کثافت پھیلا رہے ہیں ۔ صحافتی حلقوں میں اس اہم پیش رفت کو سراہا گیا اور اُمید کی جارہی ہے کہ آنے والے وقت میں اس وادی میں زرد صحافت کا خاتمہ ہوگا۔





