صنف نازک کا اہم رول

صنف نازک کا اہم رول

مودی حکوت کے نو سال مکمل ہو چکے ہیں اور ان نو برسوں کے دوران ملک کی تعمیر و ترقی اور عوامی خوشحالی کے لئے بہت سارے منصوبے ہاتھ میں لئے گئے ، جن میں کئی منصوبے مکمل ہوئے جب کہ بہت سارے منصوبوں پر شد و مد سے کام جاری ہے ۔ موجودہ مرکزی سرکارنے 22 جنوری سال2015کو ملک میں بیٹی بچاﺅ بیٹی پڑھاﺅ اسکیم کی شروعات کی ۔ بیٹیوں کو اہمیت دینے اور صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے لئے ملک کے عوام کو ایک نقشہ راہ پیش کیاگیا۔ اس طرح گزشتہ چند برسوںکے دوران معاشرے میں بیٹیوں کے حوالے سے ایک نمایا ں تبدیلی سامنے آگئی۔معاشرے میں اس مثبت سوچ کا براہ راست اثر وادی کشمیر میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

جو والدین اپنی بچیوں کو لڑکوں سے یہ سوچ کر کمتر سمجھتے تھے کہ لڑکیاں دوسروں کی امانت ہیں۔ شادی کے بعد وہ دوسرے خاندان یعنی سُسرال کی پہچان اور شناخت بن جاتی ہے ،اس کے برعکس لڑکا خاندان کا سلسلہ نصب آگے بڑھاتا ہے، اُن والدین میں واضح تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔اب ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی بیٹی پڑھ لکھ کر اُونچے مقام تک پہنچ جائے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ وادی کی بچیاں بھی مختلف شعبوں میں آگے بڑھ رہی ہیں ۔کھیل کود کے میدان سے لیکر انتظامی سطح پر خواتین اپنی سلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔نو عمر لڑکیوں کے لئے غیر روایتی ذریعہ معاش پر گزشتہ برس ملک میں ایک بین وزارتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ لڑکیاں اپنے ہُنر کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ سائنس ،ٹیکنالوجی ،انجینئرنگ اور ریاضی سمت مختلف قسم کے پیشوں میں شامل افرادی قوت میں داخل ہوں،جہاں تاریخی لحاظ سے لڑکیوں کی نمائندگی کم رہی ہے۔

آج ملک کی دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ وادی میں بھی لڑکیاں مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا کر نہ صرف اس جنت بے نظیر کا نام روشن کر رہی ہیں بلکہ اپنے والدین کا سر بھی فخر سے اُنچا کر رہی ہیں ۔وادی کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں ابھی بھی کچھ والدین کے اندر احساس کمتری پایا جارہا ہے جو بیٹیوں کو صرف تعلیمی میدان میں ہی آگے بڑھنے کی یہ گوہار لگائے بیٹھے ہیں کہ لڑکیوں کی عظمت ،عصمت اور عفت صرف گھروں میں ہی محفوظ ہے۔

جبکہ دیکھا گیا ہے جن بچیوں کو بہت زیادہ سماجی رابطہ نہیں ہو تا ہے جو گھروں کی چار دیواری میں قید ہوتی ہیں ،وہ ذہنی و جسمانی طور کمزور ہوتی ہیں اور جب کبھی اُنہیں گھروں سے باہر آنے کا موقعہ ملتا ہے، وہ غلطیوں کی شکار ہو تی ہےں اور اُن کااستحصال بھی ہو جاتا ہے۔جہاں تک مختلف مذاہب کا تعلق ہے انہوں نے عور ت کو ایک اونچا مقام دیا ہے۔لیکن پھر بھی مذہب کی آڑمیں عورتوں کے حقوق سلب کئے جاتے ہیں اور اُن کو مرد سے کمتر اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ہندوستان میں جس تیزی کے ساتھ عورتوں کو سیاسی ،سماجی اقتصادی ،تعلیمی اور دیگر شعبوں میں بھر پو حصہ دیا جارہا ہے، اُس سے ملک میں واقعی بہت بڑی تبدیلی آنے کی اُمید ہے کیونکہ ملک ،سماج اور گھر کو تبدیل کرنے میں عورت کا بہت بڑا رول بنتا ہے۔اس لئے خواتین اور بچیوں کے حوالے سے ترتیب دی جارہی اسکیموں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔جو وقت کا تقاضا ہے اور ضرورت بھی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.