جی ٹونٹی ٹورازم ورکنگ گروپ کا اجلاس کل سے وادی کے مشہور و معروف جھیل ڈل کے کنارے پر واقع انٹرنیشنل کنووکیشن سینٹرمیں منعقد ہو رہا ہے اور اجلاس میں شامل مندوبین حضرات کو سیاحتی مقام گلمرگ بھی لیا جائے گا ،جہاں وہ وادی کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ کشمیر کی صدیوں پُرانی تہذیب ،تمدن ،ثقافت اور مہمان نوازی سے بھی باخبر ہونگے۔یہ پہلا موقعہ ہے جب وادی میں اس طرح کا کوئی عالمی اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے۔اس اجلاس سے قبل وادی کی سڑکوں ،پلوں اور اہم عمارتوں کو سجایا گیا ، تاکہ گروپ میں شامل لگ بھگ دو درجن کے قریب ممالک کے ڈیلی گیٹ ملک کے تاج کو بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکےں۔اس اجلاس میں چین اور ترکی نے اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ساتھی پاکستان کے ساتھ رہیںگے اور اجلاس میں شمولیت نہیں کریں گے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ،اس نے تقسیم ملک کے وقت جموں کشمیر کے ایک بہت بڑے حصے پر جبری قبضہ کر کے اپنی مرغی حلال کرنے کی کوشش میں دہایﺅں سے سازشیں رچائی ہیں۔
لیکن جموں کشمیر کے عوام نے اُن کی ایک بھی نہ سنی اور اپنا رشتہ ملک کے ساتھ جوڑ کر تعمیر و ترقی اور خوشحالی کو ترجیح دی ۔یہ بات پاکستان کو اچھی نہیں لگی اور انہوں نے ہمیشہ مختلف حربے آزما کر اپنی دال گرم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔غالباً یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین دہایﺅں کے دوران جموں کشمیر کے مختلف حصوں میں تشدد کا سلسلہ جاری رہا اور ہزاروں لوگ از جان ہوگئے اور اربوں روپے کی سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ان تین دہایﺅں کے دوران ایک ایسا ماحول جموں کشمیر خاصکر وادی میں تیار کیا گیا گویا سب لوگ ملک مخالف ہیں۔دفعہ 370 کے خاتمے اور جموں کشمیر کی تقسیم کے بعدیہ بات سامنے آگئی کہ یہاں کے لوگ تعمیر و ترقی اور امن و خوشحالی چاہتے ہیں نہ کہ تشدد۔جب سے مرکزی سرکار نے وادی میں جی ٹونٹی اجلاس بُلانے کا اعلان کیا ،تب سے وادی کےعوام خاصکر نوجوان طبقے میں ایک جوش اور جذبہ پیدا ہونے لگا ہے اور انہوں نے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر مختلف کھیلوں میں حصہ لینا شروع کیا اور وہیں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا ۔اس طرح نہ صرف وادی کا نام عالمی سطح پر روشن ہوا بلکہ بہتر اور خوشحال زندگی گزارنے کے گُر بھی سیکھ لئے۔یہی وجہ ہے کی جی ٹونٹی اجلاس کے منعقد کرنے پر نوجوان طبقہ بہت زیادہ خوش نظر آرہا ہے ،انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اس عالمی سیاحتی اجلاس سے وادی میں اقتصادی ترقی کےلئے نئے راستے کھل جائےں گے ۔عالمی سطح کی کمپنیاں یہاں اپنی تجارت کھولنے کےلئے راضی ہوں گی اور یہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اچھا خاصہ روزگار ملے گا۔جہاں تک پاکستان ،چین اور ترکی کے حکمرانوں کا تعلق ہے ، وہ اس اجلاس کو صرف اپنے سیاسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں انہیں ہرگز یہ فکر نہیں ہے کہ جموں کشمیر کے اُس عوام کو بھی امن، چین، تعمیر و ترقی اور خوشحالی نصیب ہو جو گزشتہ سات دہایﺅں سے سیاست کی چکی میں پسے جارہے ہیں اور اُن کے خون و مال جائیداد پر یہ ہمسایہ ممالک سیاست کر رہے ہیں۔جموں کشمیر کے عوام اب بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ اُن کا دشمن کون اور دوست کون ہے۔لہٰذا ترکی اور چین کی عدم موجودگی سے اس عالمی اجلاس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور نہ ہی کشمیری عوام کو آگے بڑھنے سے اب کوئی طاقت روک سکے گی۔اُن لوگوں کو بھی دشمنوں کی چالوں اور منفی پروپگنڈے سے ہوشار رہنا چاہئے اور عالمی سطح کے ان مندوبین حضرات کا کھلے دل سے استقبال اور خوش آمدید کرنا چاہئے جو اب بھی اس تذبذب کا شکار ہیں،نہ جانے کل کیا ہو گا؟۔





