وزیر اعظم نریندرا مودی نے نو برسوں کے دوران ملک کے ہزاروں نوجوانوں کوسرکاری ملازمت کے خطوط تقسیم کئے۔ملک میں بیروزگاری کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے اس مسئلے سے نمٹنے کےلئے اگر چہ مرکزی سرکار نے کئی منصوبے عملائے ہیں، پھر بھی اس ملک کے پڑھے لکھے نوجوان روزگار کی تلاش میں سرگرداں نظر آرہے ہیں۔ا س بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ہے کہ کووڈ۔19 کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک کی اقتصادی ترقی نہ صرف منجمد ہوگئی بلکہ اس تباہ کن وبائی بیماری کے بعد چند ایک ممالک اقتصادی لحاظ سے دیوالیہ ہوگئے اوردنیا بھر میں بے روز گاری کا گراف بڑھنے لگا۔بھارت جو کہ اب ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے، کے حکمرانوں نے اس صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کی شرح ترقی کسی حد تک برقرا ر رکھی اور بھوک مری کی نوبت نہ پہنچی ۔جہاں تک ملک میں تعمیر و ترقی کا تعلق ہے، سڑکوں اور اسپتالوں کا جال پورے ملک میں بچھایا گیا۔کورونا لاک ڈاون کے باوجود گھر گھر بجلی اور پانی پہنچایا گیا۔پورے ملک میں یکساں طریقے پر راشن کی تقسیم کاری عمل میں لائی گئی ۔
گولڈن کارڈز کے ذریعے سے پانچ لاکھ روپیہ تک کا خرچہ ہونے والے مریضوں کا مفت علاج کیاگیا۔کسانوں کو مفت کھاد اور بھیج فراہم کئے گئے ، زیر تعلیم بچوں کو مختلف سکالر شپس فراہم کی گئیں ۔اس کے علاوہ جو سب سے اہم قدم سرکار نے اٹھایا وہ یہ ہے کہ میڈ ان انڈیا اور میک ان انڈےا نعرے کے تحت ملک کے دستکاروں اور صنعت کاروں کو وسعت دی گئی۔ اس طرح ملک میں مختلف قسم کی ضروری چیزیں عوام کے لئے دستیاب ہوگئیں۔ملک میں ڈیجیٹل نظام قائم کیا گیا، جس سے صاف و شفاف طریقے سے ملک میں انتظامی نظام چلنے لگا اور رشوت ستانی پر قدغن لگی۔جہاں تک جموں کشمیرسابق ریاست کا تعلق تھا ،ملک میں سب سے زیادہ رشوت ستانی والی ریاست مانی جاتی تھی۔ڈیجیٹل نظام کے بعد یہاں کے انتظامی نظام میں کافی زیادہ سدھار آنے لگا ۔
غریب اور پسماندہ طبقوں سے وابستہ بچوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔بھرتی مہمات کے دوران کسی بھی اُمید وار کے حق پر شب خون نہیں مارا گیا۔جموں کشمیر میں اگر چہ سب انسپکٹر اوراساتذہ بھرتیوں کے دوران دھاندلیوں کا انکشاف ہوا تھا ،تاہم لیفٹیننٹ گورنر نے اُس لسٹ کو کالعدم قرار دیا، اس طرح انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے جو کہ ڈیجیٹل انڈیا کا اصل مقصد ہے۔بہر حال وزیر اعظم نے نو برسوں کے دوران ملک کے ہزاروں نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوںکے آڈر دئیے ، جو کہ ایک اچھی بات ہے لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ صرف جمو ں کشمیر میں لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے روز گار ہیں ۔لہٰذا ایسے نوجوانوں کے لئے روز گار کے دیگر طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔انہیں تجارت کرنے کے لئے خصوصی تربیتی مراکز بڑے پیمانے پر بنانے ہوں گے اور آسان طریقوں سے قرضے فراہم کرنے ہوں گے تاکہ وہ خود روز گار کمانے کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی روزگار فراہم ہو سکیں کیونکہ سرکار ہر فرد کو سرکاری ملازمت نہیں دے سکتی ہے۔





