یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔دنیا کے تمام ممالک کے دانشور ،سائنسدان اورسیاستدان اس بات کو تسلیم کرر ہے ہیں کہ صفائی کی بدولت ہی معاشرے میں عوام تندرست اورصحت مند بن سکتے ہیں اور مہلک بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ملک کا جہاں تک تعلق ہے یہاں شہر و دیہات میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر دیکھنے کو مل رہے تھے۔شہر و دیہات میں لوگ جدید پاخانوں کا استعمال نہیں کر تے تھے بلکہ کھُلی جگہوں میں حاجت بشری کے لئے جاتے تھے۔ اس طرح بدبو اور غلاظت جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی تھی اور گرمیوں کے موسم میں ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی تھیں جو نہ صرف انتظامیہ کے لئے پریشانیوں کے باعث بنتے تھے ،بلکہ ان بیماریوں سے ملک کے ہزاروں لوگ بھی از جان ہوتے تھے۔
مرکز میں بی جی پی سرکار وجود میں آنے کیساتھ ہی سوچھ بھارت مشن کا نعرہ بُلند کیا گیا، اس طرح شہر و دیہات میں لاکھوں کروڑوں پاخانے تعمیر کئے گے ۔ صحت و صفائی کو برقرار رکھے کی غرض سے گھر گھر کوڑا کرکٹ جمع کرنے کی مُہم شرو ع کی گئی ۔اعداد و شمار کے مطابق ملک میں89500 واڑوں میںصبح سویرے لوگوں کے دروازوں پر گاڑی کھڑی ہو جاتی ہے اور گھروں سے نکلنے والا کوڑا کرکٹ حاصل کیا جاتا ہے ،اس کوڑا کرکٹ کو جدید طرز پر ٹھکانے لگانے کے لئے جدید مشینیں نصب کی گئیں۔اس کوڑاکرکٹ سے نہ صرف آبی ذخائر تباہ ہو جاتے تھے بلکہ زرعی زمین بھی بہت زیادہ متاثر ہو تی تھی۔وادی کشمیر میں بھی اس طرح کی مُہم شروع کی گئی، تاہم شہراور قصبوں کے ارد گرد علاقوں میں ابھی بھی لوگ کوڑا کرکٹ سڑکوں پر اور ندی نالوں میں ہی پھینک دیتے ہیں۔اس طرح نہ صرف آب وہوا کو گندا کردیتے ہیں بلکہ ان ندی نالوں،نہروں اور جھیلوں کو ختم کردیتے ہیں۔وادی میں ابھی بھی کچھ لوگ گھروں سے کوڑا کرکٹ نکال کر سڑکوں اور چوراہوں پر پھینک دیتے ہیں۔جہاں تک میونسپل کارپوریشن کا تعلق ہے۔اس نے بھی شہر میں لگے کوڑا دانوں کو یہ کہکر ہٹا دیا ہے کہ ان میں سے بدبو آتی ہے اور ارد گرد موجود مکینوں اور راہ چلنے والے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہر سرینگر میں ہزاروں کی تعداد میں پرائیویٹ اور سرکاری دفاتر موجود ہیں، جو 10 بجے کے بعد ہی کھلتے ہیں، ان دفاتر میں کوئی بھی میونسپل اہلکار کوڑا کرکٹ نہیں اُٹھا رہا ہے ،نہ ہی اس کے لئے دن میں کوئی گاڑی دستیاب رکھی گئی ہے۔
پہلے ایام میں میونسپل حکام نے 300روپے کے عوض خصوصی کوڑادان فراہم کئے تھے اور ماہانہ ایک سو روپے لیکر یہاں سے کو ڑا کرکٹ اُٹھایا جاتا تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہے کیونکہ ان کوڑا دانوں کی بات بھی صرف نو دنوں تک ہی سب کو یاد رہی۔اگر واقعی سرینگر مونسپل کارپوریشن اور دیگر بلدیاتی ادارے ،پنچایت اور میونپل کمیٹیاں وزیر اعظم کے سوچھ بھارت مشن کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہیں اور ملک کے اس اہم خطے کو بھی صاف و شفاف بنانے کے لئے فکر مند ہیں ،پھر حکام کو اس حوالے سے دورس پا لیسی اپنانی ہوگی اورگھروں کے ساتھ ساتھ دفاتر میں سے کوڑا کرکٹ کو بہتر ڈھنگ سے اُ ٹھانے کا بندوبست کرنا چاہئے اور شہریوں کو صحت و صفائی کے حوالے سے ہر طرح کی سہولیات دستیاب رکھنی چاہئے تاکہ شہر کی خوبصورتی بھی بنی رہے اور لوگوں کی صحت پربھی کسی قسم کی آنچ نہ آئے۔





