شنگھائی تعاون تنظیم سے وابستہ وزرائے خارجہ ،ملک کے خوبصورت شہر گوا پہنچ چکے ہیں ،جہاں وہ مختلف اُمورات بات کریں گے ۔اس اجلاس کی سب سے خوبی اور اہم بات یہ ہے کہ ہمسایہ ملک پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھی ا س اجلاس میں شرکت کررہے ہیں اور اجلاس سے قبل گوا پہنچنے پر اُن کا زبر دست استقبال کیا گیا ۔بلاول بھٹو پاکستان کی سابقہ مقتولہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے فرزند ہیں۔بھارت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ آنے والے ایام کے دوران جی۔ ٹوونٹی ممالک کے سربراہان کی میزبانی بھی کرنے والاہے۔جہاں تک بھات اور پاکستان کے تعلقات کامعاملہ ہے، ان دونوں مما لک کے درمیان تقسیم کے بعد ہی تلخیاں شروع ہوئیں ۔دونوں ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہوئےں اور ان جنگوں کے دوران پاکستان کو ہمیشہ ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔پاکستان کے سیاستدان ان باتوں سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ بھارت کا کسی بھی معاملے میں مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان تب تک ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے، جب تک نہ وہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر ے گا۔بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ پاکستان بنتے ہی وہاں فوج کا بول بالا رہا اور اُنہوں نے پاکستان میں کبھی بھی جمہورت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا،بلکہ عوامی حکومتوں کے خلاف محاذ کھڑا کر کے اُن کا تختہ پلٹ دیا۔ان ہی سازشوں کاشکار دیگر حکمرانوں کے ساتھ ساتھ موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی ماں بھی بن گئیں، جو واقعی پاکستان کی سب سے قابل اورذہین خاتون سیاستدان مانی جاتی تھی۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جب جب تعلقات بہتر ہونے لگے ،تب سازشی عناصر نے کوئی نہ کوئی ایسی سازش رچائی جس سے پھر حالات خراب ہو گئے۔جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے بھارت اور پاکستان کے سیاستدان ان میں سدھار لانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پاکستان میں موجود کچھ درپردہ طاقتیں حالات بگاڑنے کی تاک میں ہمیشہ ر ہتی ہیں ۔گذشتہ دنوں جموں کشمیر کے راجوری ضلع میں ملی ٹنٹوں نے حملہ کر کے نصف درجن فوجی جوانوں کو مار ڈالا۔جموں کشمیر میں ان دنوں ملی ٹنسی کے کئی واقعات رونما ہوئے جن سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ جموں کشمیر میں پہلی مرتبہ عالمی سطح کی کانفرنس جی ٹونٹی سے قبل وہ طاقتیں جموں کشمیر میں امن بگاڑنے کی کوشش کریں گی۔بہر حال ملک کی حفاظتی ایجنسیاں ان سازشوں کو بے نقاب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن یہ بہتر ین موقعہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ آپس میں ان باتوں پر متفق ہو جائیں کہ وہ ملکر اُن طاقتوں کا مقابہ کریں، جو ان دونوں ممالک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی ہرگز نہیں چا ہتی ہیں ۔یہ تب ہی ممکن ہے، جب دونوں ممالک کے سیاستدان ایک دوسرے پر بھروسہ کر کے ایک مشترکہ لا ئعہ عمل مرتب کر کے اس پر خلوص نیت کے ساتھ کا م کریں گے ۔اس طرح کی کوشش دونوں ممالک کے فائدے کے لئے کارگر ثابت ہو گی اور دونوں ممالک کے عوام کو خوشحال اور پُرسکون زندگی ملی گی ۔اُمید کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ اب کی بار کسی قسم کی ہٹ دھرمی یا غلط بیانی سے کام نہیں لیں گے ،جیسا کہ آج تک ہوتا آیا ہے۔





