باپ رے باپ اس عید پر ثوابوں کی بجائے لوگ پاپ یعنی گناہ کماتے نظر آرہے تھے۔قصاب ہو یا نان بھائی ، سبزی فروش ہو یا شیر فروش سب جوش میں آکر خریدداروں کے ہوش اُڑاتے تھے۔گوشت سات سو روپئے میں فروخت کیا گیا ،جہاں تک،پنیر ،سبزی، روٹی اور دیگر بیکری کا تعلق ہے ،اس کی قیمتوں کا کوئی قرار نہیں تھا۔عید کی نماز سے فارغ ہوتے ہی بچے تو بچے جوان بھی پٹاخے سر کرتے نظر آگئے۔شہر و دیہات میں دیوالی کا سماں دےکھنے کو مل رہا تھا۔
مساجد میں مولوی حضرات جو واعظ فرمارہے تھے ،اس کے برعکس سب کچھ چل رہا تھا۔لوگ فضول خرچی اس قدر کر رہے تھے ،ایسا لگتا تھا کہ عید کا دن زندگی کا آخری دن تھا۔عیدی کے نام پر بچوں نے جو رقم جمع کی تھی سب خرچ کرتے ہوئے نظر آئے۔یہ دوسری بات ہے کہ والدین روز اسکول فیس اور بجلی فیس میں اضافہ کرنے پر ہنگامہ کرتے ہیں۔کہا جارہا ہے جو قومیں اجتماعی ترقی اور خوشحالی کے لئے فکر مند نہ ہوں وہ تباہ و بُرباد ہوتی ہیں اور ہمیشہ مصائب و مشکلات پر روتے ہیں ۔نہ وہ کھبی آرام سے سوتے ہیں اور نہ ہی ترقی یافتہ قوموں کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔اللہ میاں ہمیں سمجھنے اور سوچنے کا سلیقہ عطا کریں ۔