جموں کشمیر پر ہمیشہ سیاستدانوں نے سیاست کی اور اپنی کُرسی کو محفوظ رکھنے کےلئے عام لوگوں کو مسائل و مشکلات میں پھنسادیا۔تقسیم ملک کے بعد ہی آر پار کے سےاستدانوں نے اس ریاست کے سیدھے سادھے صوفی صفت لوگوں کو گمراہ کردیا اور اُن کو آپس میں لڑوایا۔پاکستانی سےاستدان اس ریاست کو اپنا بلینک چیک کہہ کر اپنے عوام کو دھوکہ دے رہے تھے جبکہ اس ملک کے سےاستدان رائے شماری اور خود مختاری کا نعرہ دے کر اپنے عوام کو دھوکہ دیتے تھے۔دانشورں کا کہنا ہے جب سچائی آشکار ہو جاتی ہے ،تو جھوٹ کے تمام پُتلے ٹوٹجاتے ہیں اور پھر نئی صبح کا آغاز ہو جا تا ہے اور پھر اُن سیاستدانوں کا تواریخ کی کتابوں میں فقط نام رہ جاتا ہے، جنہوں نے اپنے ادوار مےں صحیح اور غلط کام کئے ہوں۔تقسیم ملک کے بعد آر پار کی بیشتر ریاستیں اقتصادی طور خود مختار اورطاقتور بن گئیں اور وہاں کے سیاستدانوں نے ا پنے عوام کو بہتر معیار زندگی فراہم کیا،اس کے برعکس اس بدقسمت ریاست کے لوگوں کو کبھی پاکستانی نمک اور سبز رومال د کھا کر بہلایا گیا اور کبھی پنڈی چلو نعرہ سنا کر گمراہ کیاگیا۔جب تارےخ کا مطا لعہ کرتے ہےں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس قوم کے سیاستدانوں نے ا پنے عوام کی خاطر کچھ بھی نہےں کیا بلکہ صرف اپنے ذاتی مقاصد کی آبیاری کی اور قوم کشمیر کا خیال نہیں کیا۔
غرض انگریز یہاں سے چلے گئے لیکن اپنے نقوش یہاں چھوڑ گئے۔ان ہی کی طرح تقسیم کرو اور راج کرو کی پا لیسی پر گامزن ہو کر یہاں کے سیاستدانوں نے کبھی شیر۔ بکرے کی لڑائی میں لوگوں کو اُلجھا کر رکھا اور کبھی مسلکی تفرقات میں لوگوں کو مشغول رکھا ۔اس طرح اپنے اور اپنے دوست و احباب کی تجوریاں بھر دیں۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ملک کی دیگر رہاستوں کی نسبت نہ یہاں کوئی تعمیر و ترقی ہوئی او ر نہ ہی یہاں کے لوگوں کو دُنیا دیکھنے کا پوری طرح موقع ملا۔بی جے پی حکومت ااکثریت میں کےا آئی؟ انہوں نے سب سے پہلے جموں کشمیر سے دفعہ ۰۷۳کا خاتمہ کیا ۔ان کا ماننا ہے کہ یہ دفعہ ہی جموں کشمیر کے عوام کو تعمیر و ترقی سے دور رکھتی تھی اور اسی دفعہ کی وجہ سے یہاں مختلف صنعتیں قائم نہیں ہو پارہی تھیں۔بہرحال کسی حد تک اس دفعہ کے خاتمے کے بعد یہاں تعمیر و ترقی ہوئی اور بقول سرکار کچھ لوگوں نے زمین بھی خریدی ہے لیکن ابھی تک صنعتیں قائم نہ ہو سکیں جیسا کہ سرکار کا وعدہ تھا ۔ان ہی صنعتوں کی بدولت یہاں سے بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہے ،جو اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ اہلیان وادی کو درپیش ہے۔اگر بی جے پی سرکار جموں کشمیر کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہوگئی ،تو اس کا نام بھی تارےخ کشمیر میں بہتر ڈھنگ سے رقم نہےں ہوگا،جس پر غور کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔