تباہی کا عالم

تباہی کا عالم

صوفیوں اور ریشیوں کی وادی میں آئے روز دل دہلانے والے واقعات رونما ہونے سے عام لوگ پریشان ہیں ، قتل وغارتگری کے واقعات میں کوئی ٹھہرا نہیں آرہا ہے ۔

سخت قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد کرانے سے ہی ایسے خطرناک واقعات پر روک لگا سکتی ہے۔گذشتہ دنوں ضلع بڈگام کے سویہ بگ علاقے میں ایک خاتون کے اغوا کے بعد بہیمانہ قتل سے اہل دانش وفہم کے رونگٹھے کھڑے ہوگئے ۔

اس سے قبل صورہ علاقے میں بچوں اور بیوی نے ملکر اپنے ہی والد یعنی سرتاج کا قتل کرکے اسکی نعش بوری میں بھرکر جھیل ڈل میں پھینک دی تھی، اس سے قبل نوپورہ کے ایک نوجوان نے اپنے ہی والد کا قتل کرکے اسکی لاش کو اپنے ہی کارخانے میں چھپا رکھی تھی ، اسی طرح اننت ناگ ضلع کے عشمقام علاقے میں ایک اوباش نوجوان نے اپنے ہی اہل خانہ اور دوسرے لوگوں کے بے دردی کےساتھ قتل کیا۔

ان واقعات کے پیچھے کون سے محرکات کار فرما ہیں ۔اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ وادی کشمیر میں ڈرگ مافیاعام لوگوں تک براہ راست ڈرگ پہنچا کر اُن کو نشہ کا عادی بنا رہے ہیں اور اس طرح نوجوان طبقے کا ذہن فالج زدہ بناکر انہیں تباہی وبربادی کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ ایسے ہی نوجوان پھر قتل ولوٹ مار سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں کیونکہ ڈرگ کے عادی ہوجانے کے بعد یہ نوجوان اپنا ذہنی توازن کھودیتے ہیں اور معمولی باتوں پر آپے سے باہر ہوکر قتل کی وارداتیں انجام دیتے ہیں۔

سماج کے ذی حس طبقے ، علماءحضرات ، ائمامہ مساجد اور والدین کی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اپنے گھروں ، محلوں اور علاقوں میں ڈرگ جیسی مہلک بیماری کا قلع قمع کرنے کیلئے عملی طور پر میدان میں اترجائیں ۔سب سے اہم ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نشو نماپر خاص نظر گذر رکھیں ، انہیں اکیلا ہرگز نہ چھوڑیں ۔ان کی دوستی کن نوجوانوں سے ہے ، اٹھنا بیٹھنا کیسے افراد کےساتھ ہے اس پر بھی نظر رکھیں تاکہ غلط لوگوں کےساتھ صحبت ہونے پر ان کو دور رکھنے کی کوشش کریں ۔انہیں مروجہ تعلیم کےساتھ ساتھ دینی واخلاقی تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ وہ کوئی غلط صحبت میں نہ پھنس جائیں ، یہی ایک اعلاج ہے ، جس سے معاشرہ سدھر سکتا ہے ۔

یہاں سرکار کی بھی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا ئیں دیں تاکہ باقی لوگ جرائم سے دور رہ سکیں ۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کے واقعات انجام دینے والے افراد عدالت سے بری ہوجاتے ہیں او رپھر باقی لوگ بھی بغیر کسی خوف و ڈر کے اس رنگ میں خود کو رنگ دیتے ہیں اور جرائم کا گراف اس طرح بڑھتا ہی جارہا ہے ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.