منفی سوچ کا خول ۔۔۔

منفی سوچ کا خول ۔۔۔


شوکت ساحل

آج سے تقریبًا پندرہ سال پہلے معاشرے کا جو رجحان تھا، اس کے مطابق جس لڑکی کی شادی پچیس سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی، تو ایسی شادی کو بروقت گردانا جاتا۔

پچیس سال کی عمر کا ہندسہ عبور کرنے کا یہ مطلب لیا جاتا کہ لڑکی کے رشتہ میں دیری ہو گئی ہے۔اس سے پہلے کا معلوم نہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ دیری کا یہ پیمانہ تین چار سال پہلے تصور کیا جاتا ہو۔

پھر سات آٹھ سال پہلے یہ صورتحال ہوئی کہ تیس سال کی عمر سے پہلے پہلے لڑکی کی شادی بروقت قرار دئے جانے لگی۔

یعنی محض سات آٹھ سال میں پانچ سال کا فرق آ گیا۔ اب بھی ایسے معاملات ہیں کہ اکثر گھروں میں لڑکیوں کی عمریں تیس سے چالیس سال کے درمیان ہو چکی ہیں لیکن رشتہ ” ندارد “۔

یہ رشتہ میں دیری کا رجحان ہمارے معاشرے میں ایسی خاموش دراڑیں ڈال رہا ہے جو معاشرتی ڈھانچے کے زمین بوس ہونے کا پیش خیمہ ہیں۔ اللہ نے کائنات میں ہر چیز کے جوڑے رکھے تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور یوں ایک نسل سے دوسری نسل کا تسلسل بھی رہے۔

انسانوں میں بھی یہ چیز رکھ دی کہ جیسے ہی لڑکا یا لڑکی بالغ ہوتے ہیں خود با خود وہ اپنے مخالف سمت کی جانب توجہ دینا شروع کردیتے ہیں۔ اس توجہ کو بہترین تعلق میں جوڑنے کے لیے رشتہ ازدواج رکھا گیا۔

رشتہ کیسا اور کیا اس کے لیے بھی احکامات صادر فرمادیے گئے، جب سب کچھ بتادیا گیا تو اس کے باوجود رشتوں میں بندش اور تاخیر کا سبب کیاہے۔

اگر تاخیر دیندار رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے ہوتی تو شاید بات قابل قبول ہوتی مگر آج کل تاخیر کے اسباب بھی دور جدید کے ساتھ جدید تر ہوتے جارہے ہیں۔

جس قدر زمانہ آگے جارہا ہے ہم ذہنی طور پر پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ زمانہ اسلام سے پہلے رشتے حسب نسب کی بنیاد پر جوڑے جاتے تھے۔

اسلام آنے کے بعد دینداری کو دیکھا جانے لگا اور اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکی خوبصورت کتنی ہے اور لڑکا امیر کتنا ہے، برادری کا ہے کہ نہیں باقی دینداری، اخلاق، تعلیم یہ سب باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

اس معاملے میں لڑکی والے بھی خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتے ،اگر بیٹی ڈاکٹر ہے تو رشتہ بھی کسی ڈاکٹر کا ہی چاہیے۔

حالانکہ اگر بات کی جائے دین کی تو لڑکی کے لیے آپﷺنے فرمایا ’اگر تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کی دینداری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو لڑکی کا رشتہ کردو۔‘ہمیں اجتماعی طور پر معاشرتی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور محسوس کرنا ہوگا ۔کیوں کہ ہمارا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہورہا ہے اورہم ایسی دوڑ میں شامل ہورہے ہیں ،جسکی منزل کامیابی نہیں بلکہ تباہی ہے ۔

رشتوں میں تاخیر کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش اجتماعی طور پر کرنی ہوگی۔کیا ہم جہیز سمیٹنے میں وقت کا ضیاع کررہے ہیں ،یا ہم ملازمت کے چکر میں ۔۔۔ہم کہاں تاخیر کا شکار ہورہے ہیں ، نشاندہی ضروری ہے ۔جب تک ہم بطور معاشرہ خودکا محاسبہ نہیں کریں گے ،ہم معاشرے کی برائیوں کا خاتمہ نہیں کرسکتے ۔شادی بیاہ کی تقریبات میں فضول اخراجات کو روکنے کے لئے کسی کو تو پہل کرنی ہوگی ،آواز بلند ہونی چاہیے ،خاموش اختیار کرنے سے کیا حاصل ہو گا ۔

سیول سوسائٹی غائب ہے ، اس نے سماجی برائیو ں پر بولنا بھی گناہ سمجھا ہے۔ ہم ایک تاخیر کی ایسی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں ،جہاں سے باہر آنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔

لیکن دنیا میں ناممکن کچھ بھی نہیں ۔مصمم ارادے سے ہم کچھ بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔رشتوں میں تاخیر کے اسباب تلاش کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پرآنے کی ضرورت ہے جبکہ منفی سوچ کے خول سے باہر آنے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.