بغیر پتنگ ڈور ۔۔۔۔

بغیر پتنگ ڈور ۔۔۔۔


شوکت ساحل
ہر حکومت یہی وعدہ کرتی ہے کہ وہ مہنگائی کم کر دے گی۔ لیکن پچھلے پچاس سالوں میں مہنگائی کی پتنگ بغیر ڈور کے آسمان کو چھوتی جا رہی ہے۔

بغیر ڈور کی اس لئے کہ اگر ڈور ہوتی تو کوئی نہ کوئی تو اسے کھینچ کھانچ کر نیچے لاتا۔ایک کہاوت ہے بزرگ بتاتے ہیں ’ پہلے دو آنہ یہ گیہوں تھا۔ ایک روپنے میں دونو جیب بھر کے کاجو آتے تھے۔

آج دس روپے میں بھی خراب گیہوں صرف ایک کلو ملتا ہے‘۔ اب تو پانچ روپے کی مونگ پہلی بھی صرف چند دانے آتی ہے۔

کاجو اور بادام تو اب صرف دیکھنے کی چیزیں رہ گئی ہیں یا پھر عید پر چند دانے سوئیں میں ڈالے جاتے ہیں۔ یہ مہنگائی ہر چیز میں بڑھ رہی ہے۔ سستا اگر خون ہے تو مہنگا ہر حال پانی ہے۔ غریب آدمی کی تنخواہ تو مہنگائی کے حساب سے نہیں بڑھتی۔

دن رات محنت مزدوری کرتا ہے۔ اسکے گھر کے دوسرے افراد بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔اکثر اخبار میں آتا ہے کہ خود کشی کاواقعہ رونما ہوا۔ ،کسی نے دریا میں چھلانگ ماری ، کسی نے گھر کے لوگوں نے زہر کھا لیا۔اف! یہ مہنگائی! اب تو جھونپڑا بنانا مشکل ہے۔ شادی بیاہ کرنا مشکل ہے۔

اور سچ تو یہی ہے کہ مرنا بھی مشکل ہے۔کیوںکہ کفن دفن میں بھی اب بہت خرچ آتا ہے۔ موت میّت کی رسومات کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے۔انڈے عام آدی کی پہنچ سے باہر ۔

سبزیوں کی قیمتوں کے پر لگے ۔مرغ اور گوشت کے بارے میں اب سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔کچن میں استعمال ہونے والی چیزوں کی قیمتیں رسوئی گھر کے بجٹ کو تہس نہس کررہی ہیں ۔ تیل مصنوعات میں اضافہ نے مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کیا ۔

بس کرایہ میں پہلے ہی اضافہ ہوا ہے ۔کورونا سے معیشت تباہ وبرباد ہوگئی ۔وادی میں غیریقینی صورتحال سے مزدور طبقہ پریشان ِ حال ہے ۔اف! یہ مہنگائی۔یہ جینے تو دے نہیں رہی ہے۔

اب مرنا بھی دشوار کر دیا ہے۔ اف!۔حکومت خانہ پوری کرکے اقتصادی پیکیج کا اعلان کررہی ہے ،چند کلو گرام مفت راشن کا اعلان کرتی ہے ۔

ایک طبقے کے لئے مالی پیکیج کا اعلان امتیاز کی مانند ثابت ہورہا ہے ۔وبا کے بحران میں دنیا تو بدل رہی ہے لیکن مرکز سے لیکر جموں وکشمیر تک حکومت اور پالیسی ساز بدلنے کا نام ہی لے رہے ہیں ۔ مہنگائی کی بغیر پتنگ ڈور کو ڈور لگانے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.