
شوکت ساحل
ایک طرف مہنگائی کا جن اس قدر بے قابو ہوگیا ہے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن سے اجیرن بن گئی ہے تودوسری طرف ضروریات زندگی کی چیزیں ایسے غائب ہورہی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔۔۔۔سرکاری راشن گھاٹوں کی سپلائی چاﺅل اور آٹے کے چند کلو تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور غذائی اجنا س کی سپلائی کرنے والے سرکاری محکمہ (خوراک ،شہری رسدات وامور ِ صارفین ،جموں وکشمیر )نے تیل خاکی اورکھانڈ کی مٹھاس کو پہلے ہی اتنی آسانی سے رسوئی گھروں سے باہر نکال کر بلیک مارکیٹ کی زینت بنادیا ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔

اور یہ محکمہ اب خانہ پوری کرکے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہا ہے ۔بازاروں میں سرکاری نرخ نامے یہی محکمہ ترتیب دیتا ہے ،لیکن زمینی سطح پر قیمتوں میں عملا نے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے ،جس کے لئے جتنا یہ محکمہ ذمہ دار ہے ،آپ اور میں بھی اُتنا ہی ذمہ دار ہوں ،کیوں کہ ہم لوگوں کو ناراض کرنے کی بنیاد پر شکایت نہیں کرتے ۔محکمہ ااور انتظامیہ نے کئی شکایتی سیلیں قائم کی ہیں ۔لیکن ہم ،،،،ہم سے مراد(آپ اور میں ) شکایت نہیں خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔تیل خاکی غائب ہوا ،تو خاموشی اختیار ۔
کھانڈ کی مٹھاس لاپتہ ہوئی توخاموشی اختیار کی ۔چاﺅل بوسیدہ سپلائی کیا جاتا ہے ،ہم خاموش ہیں ،گوشت 600روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے ،ہم خاموش ہیں ،خانیاری ساگ سونے کے بھاﺅ میں فروخت ہورہا ہے ،ہم خاموش ہیں ۔

الغر ض ،،،،،،یہ کہ ہم نے خاموشی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ۔ہم اس قدر خاموش ہوچکے ہیں ،اب تو کبھی کبھی اپنے ہی سائے سے ڈر سا لگتا ہے ۔۔کوئی دیکھ اور سن تو نہیں رہا ہے۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اس قدر بڑھیں کہ حکومت دیوالی کے موقعے پر سیاسی الو سیدھا کرنے کے لئے ”تحفہ “ کے نام عام لوگوں کو خاموش رہنے کی صدا دی ۔آج کل یہی تو ہوتا ۔۔۔عوام کو خاموش رکھنے کے لئے کبھی پیکیج تو کبھی راحت کے نام پر کٹوتی کا اعلان کیا جاتا ہے ۔
ویسے بھی ہماری وادی کشمیر میں خفیہ طور کٹوتی کا شیڈول بھی جاری ہوتا ہے ۔۔۔جی ! ہاں ۔۔۔بجلی کٹوتی کا خفیہ شیڈول ۔۔ٹیکس دہندگان کو یہ جاننے کا حق ہی نہیں کہ بجلی کب آئے گی اور کب جائے گی ؟۔۔مجال ہے ،کوئی اس پر لب کشائی کرے ۔۔کیوں کہ خاموشی بہتر ہے ۔۔۔۔عوام کے ٹیکسز پر چلنے والے سرکاری ادارے اور ماہانہ تنخواہیں لینے والے سرکاری افسران ،عوام کو خاموش رہنے کے لئے دورے پر دورے اور زبانی ہدایات دے کر اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈھو لیتے ہیں ۔۔۔موسم سرما دستک دے چکا ہے ۔تیل خاکی ۔کھانڈکے لاپتا ہونے اور بجلی کی آنکھ مچولی کے بعد رسوئی گیس بھی غائب ہوچکی ہے ۔

سردی میں اضافہ کیا ہوا کہ چولہوں سے گیس ہی غائب ہوگئی، گیس کی کمی پورا کرنے کے لئے کہیں لکڑیاں جلا کر کھانے پکنے لگے تو کہیں سلنڈر گیس کا استعمال بڑھ گیا۔رسوئی گیس سلینڈر ”بُک “ کرنے کے لئے ٹول فری نمبرات جاری کئے گئے ہیں جن کے استعما ل سے کوئی بھی صارف اپنا سلنڈر بُک کرسکتا ہے ۔

ٹول فری نمبرات کا استعمال کرنے اوربکنگ کے 10روز گزر جانے کے باوجودسلنڈر کی ہوم ڈیلوری نہ ہونا ۔۔۔گیس کے لاپتا ہونے کی رُداد بیان کر تا ہے ۔
سرما ہے! جناب ۔۔۔ہم خوش ہیں ۔۔۔۔اس کا ہر گزمطلب نہیں کہ منہ میں زبان نہیں ۔۔۔۔ عوام کا سیلاب جب اپنے حق کے لئے آواز دیتا ہے ،تو تخت بھی پلٹ جاتے ہیں ۔موسم سرما کے دوران عوام کو راحت پہنچا نا،بنیادی ضروریات کی چیزوں کی سپلائی کو یقینی بنانا ،انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ۔حکام کو بدلاﺅ کے لئے سوچ بدلنے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔




