
شوکت ساحل
آج سوشل میڈیا پر کسی ایک شخص نے یہ زریں خیالات شیئر کیں ،سوچا کیوں نہ آپ سے بھی بانٹی جائے ۔انہوں نے کہا ’اگر آپ، اپنے حالات سے خوش نہیں ہیں، تو حالات بدلیں، جگہ بدلیں، عمل بدلیں،سوچ بد لیں۔
آپ کوئی، درخت تو نہیں ہیں ، جو ہل نہیں سکتے‘۔بالکل ہمیں وقت کے تقاضوں کے سانچے کو میں خود کو ڈھالنے کی ضرورت ہے ،تب جاکر ہم نئے چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہوں گے ۔

ہم میں سے بہت سے لوگوں کو عالمی وبا کورونا وائرس کے لاک ڈاو¿ن کے دوران شدت غم کا تجربہ ہوا ہوگا۔بہت سے لوگوں کو لاک ڈاﺅن کے دوران اپنے کسی قریبی عزیز کے فوت ہو جانے کا سامنا کرنا پڑا ہو گا جبکہ آخری رسومات میں محدود شرکت ہونے کی وجہ سے اور غیر سماجی طور پر دوری والی رفاقت جو حال ہی میں صرف مخصوص گروہوں کے لئے دستیاب ہوئی ہے، یہ عمل دوگنی مشکل کا سبب بنا رہا ہے۔ غرض یہ کہ ایک طرف عالمگیر وباکورونا وائرس نے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے لوگوں سے ملنے کے سارے اطوار بدل ڈالے، تو دوسری طرف برسوں سے چلے آنے والے رواجوں کو بھی روند ڈالا ہے۔سماجی دوری کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اس وائرس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور تو کچھ برسوں بعد اپنوں سے اتنے عرصے جڑے رہے۔ جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔
صرف اساتذہ کے علاوہ کوئی اتنی چھٹیوں کا خیال بھی نہیں لا سکتا۔اتنی زیادہ چھٹیاں شاید پھر زندگی میں ملازمین کو ملے جتنی زیادہ کرونا کے باعث انہوں نے گھروں میں گزارے۔ غریبوں کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے بھی بھر پور مدد کی ان کو گھر کی دہلیز پر سامان فراہم کیا گیا۔
کچھ علاقوں میں غریبوں کے پاس اتنا راشن آیا کہ انہیں وہ بیچنا بھی پڑا، اور کچھ لوگ سفید پوشی کے بھرم میں بھوکے پیٹ سوتے رہے۔ جو کچھ تھا ان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

اس کرونا نامی بلا نے حکومت سمیت عام آدمی کو سوچنے پر مجبور کیا تو مستقبل کے لیے انہیں بیدار بھی کیا کہ ہمیں ایسے حالات میں کس طرح منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
آن لائن تعلیمی نظام کا شروع کرنا ہو، گھر بیٹھ کر کس طرح دفاتر کے کام ایمرجنسی میں نمٹانے ہوں، یہ سب موجودہ صورت ِ
حال کے نتیجے میں ممکن ہو گیا۔عالمی وبا نے کروڑوں انسانی زندگیاں نگل لیں ،عالمی معیشت کو تہس نہس نے کیا ،لیکن وبا نے سبق بھی دیا کہ ہمیں مشکل ترین حالات میں کس طرح زندگی گزار نی ہے اور کیسے ایکدوسرے کی مدد کرنی ہے ۔وبا نے ہمیں اپنوں کیساتھ وقت گزار نے کے گُر بھی سکھائے ،لیکن جب ہم لاک ڈاﺅن سے باہر آئے تو سب کچھ بھول ہی گئے۔

اب جبکہ وبا کی ایک نئی لہر نے دنیا کو پھر جھنجھوڑ دیا،تو لوگ پھر قیاس آرائیاں اورچیمہ گوئیاں کا بازار سجنے لگے ۔
وبا سے پیدا شدہ بحرانی صورت ِ حال کے باعث بدلتی دنیا میں شدت ِغم کے اس دور میں ہمیں اپنی عادتیں تبدیل کرنی ہوں گی اورتغیراتِ زمانہ کے ساتھ خود کو بدلنا، وقت کا تقاضا ہے ۔۔۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔





