منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
9.1 C
Srinagar

خواتین کا رول ۔۔۔


شوکت ساحل

سماجی ،معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں خواتین کا رول انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔عصر حاضر میں خواتین کمپیوٹر سے لیکر جنگی طیارے چلانے میں ترقی کی نئی نئی منازل طے کررہی ہیں ۔

جہاں خواتین گھر کو سنبھالنے میں اپنا مثبت کردار ادا کررہی ہیں ،وہیں وہ سماجی ،خوشحالی اور اقتصادی ترقی میں بھی مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں ۔

اسلام میں پڑھائی جتنی اہم مرد کے لئے قرار دی گئی ہے ،وہیں خواتین کے لئے بھی پڑھائی کو ضروری قرار دیا گیا ہے ۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کیوں کہ اسلام میں حدیث واضح ہے ۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کرکے خواتین کے رول کو ہی محدود کردیا جبکہ اس پابندی پر دنیا بھر میں ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے ،کو کافی حد تک جائز ہے ۔

خواتین سیاسیات میں بھی نمایاں رول ادا کررہی ہیں ،تاکہ صحت مند سماجی تشکیل کو یقینی بنایا جاسکے ۔

صدر ہند کے عہدے پر فائز دروپدی مرمو نے یہ ثابت کردیا کہ معاشی طور پر کمزور طبقوں سے بھی خواتین ایسے عہدوں پر فائز ہوسکتی ہیں ۔

اتنا ہی نہیں جموں وکشمیر کی سابقہ چیف جسٹس گیتا متل ہو یا جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی پہلی خاتون جج سندھو شرما ہو ۔یا پھر مسلم ممالک کی پہلی خاتون وزیر اعظم خاتون ِ مشرق بے نظیر بھٹو ہو ۔

جموں وکشمیر کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ہو یا پھر لوک سبھا کی15ویں لوک سبھا سپیکر میرا کمار ہو ۔خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں اور کلیدی رول ادا کرکے نئی تاریخیں رقم کیں ۔

حال ہی شمالی کشمیر کے ڈی ڈی سی حلقوں میں دوبارہ انتخابات ہوئے اور دونوں نشستوں پر خواتین نے نمائندگی حاصل کی ۔الغرض یہ آج کی عورت مرد کے شانہ بشانہ چلنے کی ہمت اور عزم رکھتی ہے۔

نہ صرف گھر کے اندر بلکہ وقت آنے پر گھر کے باہربھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتتی۔

آج کل مہنگائی کا دور ہے جس کی وجہ سے خواتین بھی کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہوکر اپنے گھر کی گاڑی کو کھینچنے کے لیے اپنے مردوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ اس لحاظ سے 30سے 35فیصد خواتین ملازمت کرتی نظر آتی ہیں۔

کچھ خواتین شوقیہ، کچھ اپنی تعلیم کو کام میں لانے کے لیے اور زیادہ تر خواتین اپنے معاشی حالات کو سہارا دینے کے لیے ملازمت کرتی ہیں۔ چاہے کسی بھی غرض سے عورت ملازمت کر رہی ہو، اسے کچھ نہ کچھ مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔

شوقیہ ملازمت کرنے والی خواتین جن میں سے اکثر کا تعلق ظاہر ہے، خوش حال گھرانوں سے ہی ہوتا ہے، انہیں اتنے مسائل در پیش نہیں ہوتے، کیوں کہ اکثر کے پاس کل وقتی گھریلو ملازم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے گھر سے بالکل بے فکر ہوتی ہیں، لیکن بچے ضرور متاثر ہوتے ہیں، یعنی ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ماں کو وقت نکالنا لازم ہے، خصوصا ان خواتین کے لیے جو خود دس گھنٹے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔

یا تو گھر میں نانی، دادی ہوں جو خلوص دل سے بچوں کی تربیت کریں، یا پھر آج کل اکثر ایسی مائیں بچوں کو ڈے کیئر سینٹر میں داخل کراتی ہیں،لیکن ایسے بچے والدین کی تربیت سے محروم رہتے ہیں ۔

تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک خاتون ملازمت کرے ،کیوں کہ گھر کی سکون وامن اور پیاو محبت کیساتھ تشکیل بھی بڑی ملازمت ہے ۔

ملازمت کرنے میں کوئی حرج نہیں ،لیکن اگر گھر کی تعمیر میں بھی رول ادا کیا جائے ،تو کتنا بہتر ہوگا ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img