صدر ہند، دروپتی مرمونے دہرا دون میں ایک کنووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکوں کی تعمیر وترقی ڈگریاں حاصل کرنے سے نہیں بلکہ اچھے انسان بننے سے ہوتی ہے ۔
صدر ہند کی یہ تقریر انتہائی پرمگز اور سبق آموز تصور کی جاتی ہے کیونکہ دنیا اس وقت جس ڈگر پر چل رہی ہے وہ انسانی زندگیوں کیلئے پُر خطر تصور کی جارہی ہے ۔تیز رفتار زندگی میں انسان خود کو آگے لے جانے اور صرف اپنے آپ کیلئے ہر قسم کی سہولیت بہم رکھنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتا ہے ۔
رشوت ستانی ،لوٹ مار ،بے راہروی جھوٹ ،فریب اور مکاری کے سواءکچھ بھی نظر نہیں آتا ہے ۔ہر شعبے کا یہی حال نظر آرہا ہے ،سیاست ہو یا صحافت ،امامت ہو یاقیادت ،تجارت ہو یا پھر ملازمت ہر جگہ ایسے پڑھے لکھے اعلیٰ ڈگری یافتہ لوگ نظر آرہے ہیں جو انسان کم جبکہ انسانی شکل میں حیوان زیادہ ہیں ،اسکولوں ،کالجوں ،یونیورسٹیوں اور سرکاری وغیرہ سرکاری دفاترمیں کمسن بچوں کےساتھ ایسے حادثات اور واقعات پیش آتے ہیں کہ انسان کا سر شرم سے آب آب ہوتا ہے ۔
پرانے ایام میں مروجہ تعلیم اگر چہ کم تھی ،ڈگری یافتہ لوگ زیادہ نظر نہیں تھے تاہم انسانیت کا بول بالا ہر جگہ دکھائی دے رہا تھا ۔
ایک دوسر ے سے ہمدردی ،ایک دوسرے سے پیار ،اخوت ،شرافت اور سادگی ہر سو دیکھنے کو ملتی تھی۔ یعنی علم کم تھا مگر عمل بہت زیادہ تھی ۔
جہاں تک ملک ہندوستان کا تعلق ہے ۔صدیوں سے اس ملک میں انسانی ہمدردی بھائی چارہ اور مذہبی رواداری دیکھنے کو مل رہی تھی ،موجودہ دور میں لوگ مذاہب کے نام پر ،سیاست اور کنبہ پروری کے نام پر ،ذات پات پراور امیری وغریبی کے نام پر استحصال کرتے ہیں ،جو ملک کی بنیادیں کھو کھلی کر رہا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مروجہ اعلیٰ تعلیم کےساتھ ساتھ اخلاقی تعلیمات سے آراستہ ہونے کی ضرورت ہے جس کی کمی ہمارے ملک میں نظر آرہی ہے جیسا کہ صدر ہند نے دہرا دون یونیورسٹی میں منعقدہ کنووکیشن میں اظہار کیا جس پر سماج کے ذی حس افراد کو دھیان دینے کی بے حد ضرورت ہے ۔





