قدرتی طریقہ کار سے انحراف کیوں؟

قدرتی طریقہ کار سے انحراف کیوں؟

حاملہ خواتین قبل ازوقت سرجری دونوں ماں اور بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور اس رجحان کو روکنے کیلئے محکمہ ہیلتھ کے ذمہ داروں کو آگاہ کرنا چاہیے۔ تاکہ اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جا سکے اور خواتین کواس حوالے سے باخبر کریں ۔

اعداد وشمار کے مطابق جموں وکشمیر میں لگ بھگ 82فیصد عورتیں مکمل میعاد سے قبل ہی سرجری کو ترجیح دیتی ہیں اور شہری علاقوں میں 91فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 74فیصدسرجریوں سے حاملہ عورتیں فارغ ہو جاتی ہیں۔

ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی اپنی جگہ لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ 9ماہ قبل بچہ پیدا ہونے سے بچوں میں مختلف کمزوریاں ہو سکتی ہے جبکہ ماں کو بھی مشکلات کاسامنا درپیش آسکتا ہے ۔

پرانے ایا م میں اکثر عورتیں قدرتی طریقے سے بچوں کو جنم دیتی تھیں جبکہ یہ سلسلہ اب دھیرے دھیرے ختم ہوتا جارہا ہے ۔

سرکاری اسپتالوں کی نسبت پرائیویٹ اسپتالوں میں یہ سرجریاں زیادہ ہوتی ہےں اور اکثر لوگ اس عمل کو تجارت سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ پرائیویٹ اسپتال میں اسطرح کی سرجری میں لگ بھگ 40سے 50ہزار کا خرچہ آتا ہے جس میں ڈاکٹر کی فیس ،ادویات اور دیگر سازوسامان شامل ہے ۔

اسکے برعکس قدرتی طور زچگی پر کسی قسم کا خرچہ نہیں ہو پاتا ہے ۔یہ بھی مشاہدے میں آرہا ہے کہ بچے کو جنم دینے کے بعد عورتوں کو مختلف قسم کی سبزیاں ،پھل اور جوس دیا جاتا ہے جبکہ پہلے ایا م میں لگ بھگ 40دنوں تک عورتوں کو صرف مخصوص قسم کا کھانا اور سبزیاں دی جاتی تھی ۔

یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان عورتوں کو نہانے اور منہ ہاتھ دھونے کیلئے بھی مخصوص پانی کا استعمال کیا جاتا تھا جس میں جڑی بوڑیوں کا استعمال کیا جاتا تھا ۔

بہرحال سائنسی ترقی نے یہ روایات پوری طرح ختم کر دی ہے لیکن تیز تر سائنسی ترقی کے باوجود بھی اکثر ماہرین قدیم روایات کو ہی بہتر مانتے ہیں، پھر اسپتالوں میں اس قسم کی نصیحت عورتوں کو کیوں نہیں دی جاتی ہے جس سے زچہ بچہ دونوں ٹھیک رہ سکے ۔

عوای حلقوں میں یہ ایک بہت بڑا سوال اُبھر کر سامنے آرہا ہے، جس کا جواب کوئی نہیں دیتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.