
شوکت ساحل
بچپن سے یہی تو سنتے آرہے ہیں ’تعلیم وہ زیور ہے، جو انسان کا کردار سنوراتی ہے ۔’علم سیکھو‘، کیوں کہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا عبادت ہے۔اس کا پڑھنا پڑھانا تسبیح،اس کی جستجوکرنا کامیابی کی منزل، ناواقف کو سکھانا صدقہ او راس کی اہلیت رکھنے والوں کو بتانا ثواب کا ذریعہ ہے۔ علم تنہائی کا ساتھی، تابناک مستقبل کا راہ نما،خوش حالی وتنگ دستی میں مدد گار، دوستوں کے نزدیک وزیر، قریبی لوگوں کے نزدیک قریب اورجنت کی راہ کا مینار ِہدایت ہے۔ دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ تعلیم کی وجہ سے دیا گےا ہے۔

تعلیم حاصل کرنا ہر مذہب میں جائز ہے ،اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض کیا گےا ہے، آج کے اس پر آشوب اور تےز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے ،چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کرلے۔تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے۔ یہ انسان کا بنیادی حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا ۔اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہیں ۔تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کےلئے ترقی کی ضامن ہے، یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے، تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکے۔ماضی میں تعلیم مفت دینے کے لئے اساتذہ اور ہر پڑھا لکھا خواہ وہ کم ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو ،اپنے کلیدی رول ادا کرتا ہے ۔ان بچوں تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی تھی ،جو معاشی کمزوری یا کسی اور وجہ سے اسکول سے دور رہتے ہیں ۔

عصر حاضر میں اگرچہ ہر ایک شخص اپنے بچوں کو تعلیم کے نور سے منور کرنے کے لئے اپنا پیٹ کاٹتا ہے ،لیکن اب تعلیم مکمل طور پر تجارت میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ماہانہ ٹیوشن کی بات اپنی جگہ، فیس فیکزیشن کمیٹی کی سفارشات بھی اپنی جگہ اور نظام تعلیم بھی اپنی جگہ ۔۔۔تاہم نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے آئے روز داخلہ ،ماہانہ ٹیوشن فیس اور سالانہ فیس نے عام لوگوںکو ذہنی دباﺅ میں مبتلاءکیا ہے ۔میرے ایک ساتھی نے آج ٹیلی فون پر بات کی اور ایک نجی اسکول میں بچے کی داخلے کے لئے فیس سے متعلق معلومات حاصل کی ۔ٹیلی فون پر میرا ساتھی کس کیساتھ بات کررہا تھا ،یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی لیکن ایک جملے نے مجھے اس قدر حیران کردیا کہ ’کے جی ون ‘ داخلہ فیس اسکول نے 90ہزار ادا کرنا ہوگا ۔سرکاری ملازمت کرنے والے افرادکے بچوں کو داخلہ دینے کو ترجیح دی جارہی ہے ،کیوں کہ اُن کو معلوم ہے کہ یہاں سے طرح طرح کی فیس وصول کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔اب یومیہ اجرت پر کام کرنے والے والدین اپنے بچوں کو تعلیم سے منور کریں تو کیسے ؟محکمہ تعلیم ،انتظامیہ اور متعلقہ حکام کو نجی تعلیمی اداروں کو جوابدہ بنانے کیساتھ ساتھ آڈٹ یعنی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ملک کے آئین کے تحت ہر شہری کو تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے ۔تاہم یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے ٹھوس اور موثر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔سرکاری اسکولوں میں داخلہ لینے کے لئے والدین کو قائل کرنا ہوگا اور معیار تعلیم کو بہتر سے بہتر کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ تعلیم پر تجارت کی عمارت کھڑی کرنے کی زنجیر کو توڑ اجائے ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔





