
شوکت ساحل
پاکستان کے معروف صحافی ارشد شریف کی موت کی خبر جہاں پاکستانی صحافتی برادری کے لئے ورطہ حیرت میں ڈالنے والی تھی ،وہیں یہ خبر دنیا بھر کے صحافیوں اور صحافت کے طالب علموں کے لئے باعث ِ پریشانی بھی ہے ۔
کیوں کہ بے باک ،آزادانہ ،ذمہ دارانہ اور ایماندارانہ صحافت کا انجام درناک یا ارشد شریف جیسی موت ہوتی ہے ۔
صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے جب کبھی بھی پاکستان کے حالات کا جائزہ لینے کا موقع ملتا تھا ،تو صحافی ارشد شریف کی بے باک صحافت اُس کا مکمل احاطہ کرتی ہے ۔
گراﺅنڈ زیر و اور تحقیقاتی خبروں سے لیکر نیوز روم کے اسٹیڈیو تک مستند دستاویزات کیساتھ آنا ،بے باک صحافت ہی کہلائی جاتی ہے ۔
لیکن جب اس بے باک صحافت کا قافیہ حیات تنگ ہوتا ہے ،تو اِسے جلائی وطنی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور اپنوں سے جدا بھی ہونا پڑتا ہے ۔
یہ جدائی کتنی کربناک اور درد ناک ہوتی ہے ،اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور اس جدائی کا انتظار جب موت پر ختم ہوتا ہے ،تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بی بی سی نیوز اردو کے لیے ہفتہ وار کالم لکھنے والی پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی اپنے تازہ ہفتہ وار کالم ” کون ،کیوں ،کیسے ،کہاں“میں رقم طراز ہیں ”نظر میں کیا ہے اور منظر میں کیا، عکس میں کیا ہے اور تصویر میں کیا، فریب حقیقت میں بدل جاتا ہے اور حقیقت فریب ہو جاتی ہے۔
یا خدا یہ ماجرا کیا ہے؟،ہر روز خبر بدل جاتی ہے ہر روز اخبار بدل جاتا ہے، سرخی بدل جاتی ہے، تحریر بدل جاتی ہے۔ خبروں کی دنیا میں رہتے ہوئے دو دہائیاں بیت گئیں کبھی کسی خبر پر دل پریشان ہوا، کبھی دل بے چین ہوا اور کبھی مضطرب مگر اب دل ہے مسلسل مایوسی کا شکار۔ارشد شریف سے لاکھ اختلاف سہی مگر ان کے قتل کی خبر نے پہلے سے بندوق کے نشانے پر موجود صحافیوں کو مزید پریشان کیا ہے یا یوں کہیے کہ اس بار صحافی کے قتل نے حیرت کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
ارشد شریف نیروبی کیوں گئے؟ اجل لے گئی مگر اس اجل کو کیا نام دیں؟ موت ارشد کا تعاقب کرتے دبئی، برطانیہ اور پھر کینیا پہنچ گئی لیکن موت کی آہٹ کیوں سنائی نہ دی؟ اجل نام بدل کر سرحد بدل رہی تھی مگر زندگی کو معلوم ہی نہ ہو سکا؟ سوال ہی سوال ہیں۔
کون؟ کیوں؟ کیسے اور پھر کہاں؟“یہ سوالات واقعی ایسے ہیں ؟جن کے جوابات تلاش کرنا ہوتنا ہی مشکل ہے ،جتنا ارشد شریف کی موت کے حقائق جاننا ۔پاکستانی صحافی عاصم علی رانا وائس آف اردو کے لئے اپنے کالم ”ارشد شریف نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ ہماری زندگی کی ذمہ داری کون لیتا ہے‘میں لکھتے ہیں”ارشد شریف کے ساتھ تعلق دو دہائیوں سے زائد کا رہا البتہ دوستی اس وقت شروع ہوئی جب 2008میں پہلی مرتبہ پاکستان کی فوج نے صحافیوں کو’ وار زون‘ میں ساتھ لے جانے کا تجربہ کیا۔پاکستانی فوج کا شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر اس سلسلے میں جن دو صحافیوں کو پہلی مرتبہ باجوڑ میں جاری ’آپریشن شیردل‘ کے مشاہدے کے لیے لے کر گیا، ان میں ایک میں اور دوسرے ارشد شریف تھے۔
میں ان دنوں ’جیو نیوز‘ کے ساتھ نمائندہ خصوصی برائے دفاعی امور کے طور پر منسلک تھا اور ارشد شریف ’ڈان نیوز‘ کے لیے کام کررہے تھے۔
ارشد کے ساتھ گپ شپ بہت پرانی تھی۔ اس لیے جب آئی ایس پی آر نے ایک سادہ کاغذ پر بیان حلفی لکھ کر دینے کے لیے کہا کہ آپریشن کے علاقے میں کسی نقصان کی صورت میں وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے تو میں نے سب سے پہلا فون ارشد شریف کو کیا اور کہا’یار یہ تو ہماری ذمہ داری بھی نہیں لے رہے۔
‘اس پر ارشد نے ہنستے ہوئے کہا تھا:’ہماری زندگی کی ذمہ داری کون لیتا ہے؟ خیر ہے، لکھ کر دے دو شاید اچھی خبر ہی مل جائے۔
‘در اصل یہ بے باک صحافت ہی ہے ،جس کو جلائی وطنی کی زندگی پر مجبور کیا گیا اور یہ آواز اب مکمل طور پر خاموش ہوگئی ہے یا کردی گئی ؟بے باک صحافت جب منفی سوچ کی آنکھوں کو کٹھکتی ہے اور اختلاف رائے جب نفرت اور انا بن جاتی ہے ،انجام ارشد شریف جیسا ہی ہوتا ہے ۔
(انا للہ و انا الیہ راجعون) بقول شاعر(جو دل میں کھٹکتی ہے کبھی کہہ بھی سکو گے،یا عمر بھر ایسے ہی پریشان پھرو گے)کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔





