عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک ،معاشرے یا سماج میں ذی حس ،قابل اور نیک لوگوں کی کوئی اُس وقت تک قدر نہیں کرتا ہے جب تک وہ ہمارے سامنے زندہ وجاوید یا حیات ہوتے ہیں ۔
ایسی شخصیات کو مرنے کے بعد ہی اعزاز واکرام سے نوازا جاتا ہے، یعنی مرنے کے بعد ہی اُنکو وہ مرتبہ دیا جاتا ہے جو کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔
دنیا کی کسی بھی اہم شخصیت کی اگر ہم سیرت پڑھتے ہیں تو یہی اخذ ہوتا ہے کہ زمانے کے لوگوں ،حکمرانوں ،بادشاہو ں ،سرمایہ داروں اور اثر ورسوخ رکھنے والے لوگو ں نے اُنہیں بہت ستایا ہے ۔
حضرت شیخ نورالدین نورانی ؒ،حضرت علامہ اقبال ؒ،لالہ دید اور دیگر ادیبوں ،شاعروں ،سیاستدانوں کو زمانے نے کس قدر ستایا ہے یہ ایک لمبی داستان ہے ۔
برصغیر کے سب سے بڑے شاعر مرزااسد اللہ خان غالب کی سوانحہ حیات جب پڑھتے ہیں تو وہ دانے دانے کیلئے محتاج تھے ،انہوں نے اپنی شاعری مختلف چیزوں کے عوض دکاندار کو فروخت کی لیکن آج ان ہی شخصیات کے نام پر بڑے بڑے تعمیرات ،اکیڈمیاں اور لیبرریاں کھڑی کی جاتی ہیں اور اُن کے دن جوش وجذبے کےساتھ منائے جاتے ہیں اور اُن کے مقبروں کو سجایا جاتا ہے ۔
کتنا اچھا ہوتااگر زمانے کے لوگ یہ باتیں آسانی سے سمجھ جاتے کہ اسطرح کی شخصیات حقیقت اور سچائی پر قائم ہوتی ہں ،اُن کی تعلیمات انسان اور انسانیت کی بہتری وبھلائی کیلئے ہوتی ہیں کیونکہ زندہ انسان کے دکھ درد میں شامل ہونا ،غربت وافلاس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا،زندہ انسان کو صحیح راستے پر لانا ،ایک دوسرے کو انسانیت کے رموز سکھانا، سب سے بڑی عباد ت ہے ،یہی تمام مذاہب کی تعلیمات ہیں کہ انسان اصل میں اللہ کی مخلوق ہے جو اس مخلوق کےساتھ اچھا سلوک روا رکھے ،وہی اللہ کے سامنے پسندیدہ بند ہے ۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کسی کے اس دنیا سے رخصت ہونے سے قبل ہی عزت واحترام کرنا چاہیے اور ہاتھ بٹانا چاہیے اور صحیح مشن کی آبیاری کرنی چاہیے تاکہ انسانیت کا بھلاءہو سکے ۔





