
شوکت ساحل
جمہوریت کا جو مطلب میںسمجھا ہوں یہ ہے کہ ایک ایسا نظام ِ حکومت جس میں مذہب ،رنگ ،زبان، نسل،شناخت اور خیالات کے اختلافات کی بجائے تمام انسان اور حقوق برابر پیدا ہوتے ہوں اور ہر شہری کو فیصلہ سازی اور زندگی گزارنے کا حق ہوتا ہے۔
جمہوریت میں فیصلے کثرت رائے سے کئے جاتے ہیں۔یہ بھی ہے کہ جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں یعنی جمہوریت سے مراد ایسا نظام حکومت ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نہ کسی صورت میں حکومت کی پالیساں طے کرنے کے لئے بنیاد بنایا گیا ہے۔
جمہوریت اصل میں لوگوں کی حکومت ہے،جو لوگوں کے لئے لوگوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ لوگوں سے مراد کسی ملک کے وہ افراد جن کے پاس جمہوریت یا اختیار نہ ہو اور لوگوں سے مراد وہ محروم طبقہ جن کے پاس کسی قسم کی مراعات نہیں اور وہ واضح اکثریت میں ہوں لیکن بد قسمتی سے ملک ہندوستان میں بعض مفاد پرست سیاستدانوں نے جمہوریت کے حسن کو اتنا بد صورت کر دیا گیا ہے کہ اگر عوام میں سے کوئی اپنے ہی منتخب کئے ہوئے نمائندے سے کبھی پوچھ ہی لے آپ نے آمدن سے زائد اثاثے کیسے بنائے ہیں ؟یا کوئی فلاں کام بالائے قانون کیوں کیا ہے؟
تو اس جمہوری سوال پوچھنے والے کو جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے جمہوریت ’ڈی ریل‘ کرنے یعنی ( جمہوریت کو پٹری سے اتار نے)کی کوشش کی ہے۔حال ہی میں سوشل میڈیا پر دو ایسے ویڈیو وائرل ہوئے ،جو قومی میڈیا کیساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا میں زیر بحث ہے ۔
بھارت کی وسطی ریاست تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ چندرشیکھر راو¿ ہندوو¿ں کے تہوار ’دسہرہ‘ کے موقع پر اپنی نئی سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کرنے والے تھے لیکن اس سے قبل ان کی مجوزہ پارٹی کے ایک رہنما کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ لوگوں میں شراب کی بوتلیں اور مرغیاں تقسیم کر رہے ہیں۔اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹی آر ایس کے رہنما راجنالا سریہر اپنی اور چندرشیکھر راو کی قد آدم تصاویر کے سامنے بظاہر مزدور نظر آنے والے افراد کو مرغیاں اور شراب کی چھوٹی بوتل تقسیم کر رہے ہیں۔چندرشیکھر کے سیاسی مخالف اس ویڈیو کی بنیاد پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ملک میں ووٹروں کو لبھانے کے لیے طرح طرح کے وعدے کیے جاتے ہیں اور ووٹرز میں بنیادی ضرورت کی اشیا ءبھی مفت تقسیم کی جاتی ہیں لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلی بار ایسا دیکھا ہے کہ ووٹرز میں کھلے عام شراب اور مرغیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔دوسری ویڈیو میںدہلی سے تعلق رکھنے والے بھاجپا ،ایم پی پرویش ورما نے مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کرنے کے لئے پارٹی کارکنان سے حلف لیا اور یہ ویڈیو نہ صرف سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے بلکہ خبروں میں موضوع بحث ہے ۔
اس منتا زعہ بیان کو فرقہ پرستی اور نفرت کی سوچ قرار دیا جارہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں ،تو سیاستدان جمہوریت کا حسن بدصورت بنا کر کیوں ملک میں نفرت کی دیوار کھڑی کررہے ہیں ۔وقت آگیا ہے کہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ایسے سیاستدانوں کو ہی الگ تھلگ کیا جائے ،جو اپنی شہرت اور سیاسی مفادات کی خاطر ملک میں ایک ایسی نفرت کی دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں ،جو ملک کی سالمیت ،بقا اور جمہوریت کے حسن کے لئے قطعی طور پر سو د مند ثابت نہیں ہوگی ۔
عوام کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے ۔دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔زیادہ دورجانے کی ضرورت نہیں ۔سنہ 2016میں جب ترکی میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران فوجی ٹینکوں کے سامنے لوگ لیٹ گئے ۔
ایسے میں جمہوریت کے حسن کو برقرار رکھنے کے لئے نفرت سے بھری سوچ کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ،کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔





