شوکت ساحل
آبپاشی نہر پر واقع شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کا منفرد خوردہ مچھلی بازار کھانوں کے شوقین افراد کو مقناطیس کی طرح اپنی اور کھینچتا ہے ۔پندرہ سے بیس فٹ ٹین شیڈ میں قائم کئے گئے اس مچھلی بازار (فش مارکیٹ ) کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں درجن بھر خواتین کاروباری مچھلیاں فروخت کرتی ہیں ۔
نازا اختر نامی مچھیرن کہتی ہیں ’ ایشیا ءکے سب سے بڑی جھیل ’ولر ‘ کی پانیوں میں مچھلیاں کم ہوگئیں ،جسکی سب سے بڑی وجہ کشن گنگا پاﺅر پروجیکٹ کا پانی ہے ،جو زہر بن کر جھیل میں ضم ہو تا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ چالیس برسوں سے اس کاروبار سے جڑی ہیں اور بانڈی پورہ کے مچھلی بازار میں مچھلیاں فروخت کرتی ہیں ۔ہم دن بھر مزدوری کرتی ہیں اور اپنے اہل عیال کا پیٹ پالتی ہیں ۔

ان کا کہناتھا کہ وہ ہول سیل تاجروں سے مچھلیاں خریدتی ہیں اور صبح سات بجے اس (فش مارکیٹ ) میں اپنی دکانیں سجا تی ہیں ۔ایک اور مچھیرن کہتی ہیں’موسم خزاں اور سرما کے دو چار مہینے مچھلیوں کی خرید وفروخت کا سیزن ہوتا ہے ،آج کل لوگ گوشت کی نسبت مچھلیاں خرید نے کو ترجیح دے رہے ہیں ،کیوں کہ یہ سستی بھی ہے اور صحت کے لئے مفید بھی ہیں ‘
اس فش مارکیٹ میں 300روپے فی کلو (پرچون ) مچھلیاں فروخت ہوتی ہیں اور یہاں مول بھاﺅ کے وقت خواتین کاروباریوں اور گاہکوں کے درمیان کافی تکرار بھی ہوتی ہے ۔فش مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی ہر ایک مچھیرن اپنی مچھلیاں ہاتھوں میں اٹھا کر خریدار کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں اور کوئی زندہ مچھلیاں دکھا کر گاہکوں کو مچھلیاں خریدنے پر مجبور کرتی ہیں ۔بازار سے گزر نی والی ٹھنڈی آبپاشی نہر میں یہ مچھلیاں ایک جال میں ہوتی ہیں ۔

ایک مچھیرن کہتی ہیں’ اس بازار میں روزانہ وہ دو سے تین کوئنٹل مچھلیاں فروخت کرتی ہیں اور اُنکی روزانہ کی منافع آمدنی 500سے600روپے ہوتی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ مانگ کافی ہے ،تاہم مہنگائی بھی ہے ،کیوں کہ مچھلیاں کافی مہنگی پڑ رہی ہیں اور اس لئے قیمتیں زیادہ ہیں ۔یہ منفرد مچھلی بازار (فش مارکیٹ ) بارہ گھنٹے کھلا رہتا ہے ،صبح سات بجے سے شام سات بجے تک ۔

یہ کاروباری خواتین پہلے قصبہ بانڈی پورہ میں برلب سڑک مچھلیاں فروخت کرتی تھیں ،لیکن اب اُنہیں الگ جگہ فراہم کی گئی فش ہے،جس پر یہ خواتین کافی خوش ہیں ۔فش مارکیٹ اُس وقت دلچسپ کا مرکز بنتا ہے جب یہاں خواتین روایتی کشمیری فوک گیت گاتی ہیں اور گاہکوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں ۔





