انسان فطری طو ر انتہائی کمزور بھی اور بے بس بھی کیونکہ بالآخر یہ ہر حال میں محتاج ہے ۔قدرت نے اگرچہ اس انسا ن کو بہت ہی اُونچا رتبہ عطا کیا ہے اور اسے اشرف المخلوقات کا خطاب بھی دیا ہے، لیکن یہ انسان ہی ہے جو بار بار یہ باتیں بھول کر انسانیت کے اصول پامال کر کے انسان پر ہی ظلم وجبر،زیادتی اور حق تلفی کرتا رہتا ہے ۔
غالباً یہی وجہ ہے اس وقت دنیا بھر میں ایک انسان دوسرے انسان کو کمزور کرنے اور اُسکو اپنے پیرو ں تلے روندنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ہے ۔اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہی وجہ ہے کہ پور ے دنیا میں ایک انسان دوسرے انسان کا خون کرتا ہے ۔
خوف ودہشت پھیلاتا ہے ۔طاقت ،اقتدار اور دولت کے نشے میں چور ہو کر غرور دکھاتا ہے جو کوئی بھی مذہب قبول نہیں کرتا ہے ۔
کوئی بھی طاقت حاصل ہوتے ہی اپنی طاقت دکھا کر حق وانصاف کا قتل کرتا ہے ۔احمد کی ٹوپی محمود کے سرپر رکھ کر ایک کا حق مار کر دوسرے جان پہچان والے کو مختلف مراعات حاصل کرنے کے عوض دیتا ہے ۔اسطرح حق وانصاف کا خون کر دیتا ہے ۔
تمام مذاہب کے ماننے والے ہرگز غیر انسانی حرکت قبول نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی غلط نظا م کو فروغ دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اگر ہم اپنے معاشرے کے ارد گرد جھانک کر دیکھیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے سامنے ،ہمارے ارد گرد روز کا معمول ہے ۔
غالباً اسی لئے ایسے افراد اپنے طرز زندگی میں بدلاﺅ لا رہے ہیں اور ہر طرح کی فضول خرچات کرتے رہتے ہیں ۔شادی بیاہ کی تقریب ہو یا مال وجائیداد بنانے کی دوڑ ہو ،ہر کوئی اس دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اپنے اصول بھول جاتا ہے ۔
دنیا کے عزیم ترین حکمران ،اسلامی سلطنت کے انصاف پسند خلیفہ حضرت عمر فاروق ؓ کی زندگی ہمارے سامنے نمونہ عمل ہے جنہوں نے 40لاکھ مربع میل پر حکمرانی کر کے اپنے طرز زندگی میں کوئی بدلاﺅ نہیں لایا نہ ہی غلط کام کیا ،نہ ہی دکھاﺅے سے کام لیا ،نہ ہی فضول خرچی کی ،اسکے برعکس آج کیا ہو رہا ہے، ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے تاکہ جس امن وسلامتی اور تعمیر وترقی اور انسانی خوشحالی کی ہمیں تلاش ہے وہ ہر انسان کو میسر ہو سکے ۔
ہمیں بحیثیت بہتر انسان اور بہتر حکمران کام کرنا چاہیے اور اُنکی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہم اس دنیا سے سرخ رو ہو کے چلے جائیں جو بالآخر ہر انسان کی آخری منزل ہے ۔