سنو! سنو! سنو!!!وادی کشمیر کے لوگ ایک اور روگ میں مبتلاءہو چکے ہیں وہ اب کھیت کھلیان میں کام کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں، غالباً اسی لئے بہار ،کولکتہ اور یو پی کے مزدور زمینداری کے سیزن میں یہاں جوق درجو ق آتے ہیں اور اپنی روزی روٹی محنت کر کے کماتے ہیں ۔
باغوں میں پھل اُتارنے کا کام بھی اب یہی بیرونی لوگ انجام دیتے ہیں ۔جہاں تک کشمیر ی نوجوانوں کا تعلق ہے وہ مفت کی روٹیاں توڑ کر صرف سرکاری نوکریوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، جو ہر ایک کو ملنی مشکل ہے ۔
جہاں تک ان نوجوانوں کے روزمرہ کے اخرچات کا تعلق ہے، وہ بہت زیادہ ہیں ۔سگریٹ نوشی ،انٹرنیٹ کےساتھ دن رات جڑے رہنے کی بیماری کے علاوہ ان نوجوانوں کو میک اپ کرنے میں بھی بہت زیادہ روپہ پیسہ لگ جاتاہے اور یہ کام بھی باہر کے ہی نائی حضرات انجام دیتے ہیں ،وہ لڑکوں کے بالوں کی کٹائی اسطرح کرتے ہیں گویا یہ انسان نہیں بلکہ جنگلی جانور نظر آتے ہیں ۔
شادی بیاہ کی تقریبات پربھی اب باہر کے مزدور آشپاز ،مہندی والے ،نظر آتے ہیں ۔یہاں کے نوجوانوں کی عقل کب آئے گی یہ کہنا ابھی مشکل ہے تاہم سرکار ڈیلی ویجروں کی قطار میں ان نوجوانوں کو کھڑا کرنے کیلئے تیار ہے کیونکہ نوجوان بے روزگاری کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۔





