تعلیم حاصل کرنے سے ہی ایک بہتر سماج تعمیر ہو سکتا ہے اور اسی تعلیم کی بدولت جہالت دور ہو سکتی ہے ۔
انسانیت پروا ن چڑھ سکتی ہے ،آج کل زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو بہتر اور معیاری تعلیم فراہم کرنے کیلئے اچھے اسکول چن لیتے ہیں ،اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیںاور خود کو گرو ی رکھ کر بچوں کے اخراجات کو پورا کرسکتے ہیں ،مگر اس بات کو ہرگز بہتر معیار تعلیم قرار نہیںدیاجا سکتا ہے ۔
مشاہدے میں یہ باتیں روز آرہی ہےں کہ کئی نامور اسکولوں میں بچوں کو ہاتھ پکڑ کر اسکول سے باہر نکالا جاتا ہے ،صرف اس لئے کہ وہ وقت پر اپنا فیس ادا نہیں کر پاتے ہیں ۔
اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ایک اچھا خاصہ آمدنی والا شخص بھی اپنے بچے کے اسکولی اخراجات برداشت نہیں کر پاتا ہے کیونکہ اکثر پرائیویٹ اسکولوں میں روز مختلف دن منائے جاتے ہیں ،کبھی اساتذہ کا دن ،کبھی پھلوں کا دن اور کبھی ماحولیات کا دن اور ان ایا م پر بچوں کو طرح طرح کی چیزیں اور گفٹ آئیٹم(تحائف)خریدنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے ۔
وردی اور کتابوں کے نام پر پہلے ہی والدین کو کنگال بنایا جاتا ہے ۔بس فیس اور ٹیوشن فیس کے علاوہ پرنٹنگ چارج اور بلڈنگ چارج کے ناموں کا بھی بخوب استعمال کیا جاتا ہے ۔
اگر اسی کو معیاری تعلیم کا نام دیاجاتا ہے تو یہ سراسر غلط اور غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہے کیونکہ اگر ان طریقوں سے لوگوں کو لوٹا جائے پھر رشوت ستانی کس چیز کا نام ہے ۔
سرمایہ حاصل کرنے کا سب سے غلط طریقہ پرائیویٹ اسکولوں کا لالچی نظام ہے ،جس پر سرکار کو اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔
سرکار کو صرف فیس اور وردی کتابوں کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے بلکہ ان پرائیویٹ اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے اور سہولیات کے بارے میں گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے ،کہ ان کے بچوں کیلئے سردی اورگرمی سے بچنے کیلئے طریقہ کار موجود ہے ،بیٹھنے کیلئے اچھا خاصہ انتظام ہے ۔
صحت وصفائی کا طریقہ عملایا جاتا ہے ،جس اسکول میں بچے زیر تعلیم ہیں، اُس اسکو ل کی عمارت مضبوط ہے۔
آگ اوردیگر قدرتی آفتوں سے بچنے کیلئے یہاں نظام موجود ہے، ان سب چیزوں کی جانب دھیان دینا بے حد ضرور ی ہے کیونکہ تعلیم بہتر سوچ اور بہتر نظام کو کہتے ہیں، جس میں شاید بہت سار ی کوتائیں نظر آرہی ہیں ۔




